مسئلہ مذہب کا نہیں ہے


آپ نے اکثر ایسی دیومالائی کہانیاں سنی یا پڑھی ہوں گی کہ ایک جن یا بدروح کسی انسان کے اندر حلول کرجاتی ہے کیونکہ اس روح کو اپنی بقا کے لئے کوئی جسم چاہیے ہوتا ہے۔ اور دیگر تمام ناسمجھ لوگ جسم کو نشانہ بناتے ہیں جبکہ کہانی کا ہیرو جو کبھی بزرگ ہوتا ہے اور کبھی سنیاسی وہ عقل کا استعمال کرتے ہوئے جسم کو بچا لیتا ہے اور اس بدروح کو جسم سے علیحدہ کرکے اس کا خاتمہ کرتا ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے جب سے یہ کرونا وائرس کی وباء کا آغاز ہوا ہے پاکستان میں ایک صدیوں پرانے قضیئے نے پھر سے سر اٹھا لیا ہے۔ یعنی مذہب اور سائنس میں تقابل اور تصادم۔ ایک طبقہ مذہب کے نام پر عوام کو پھر سائنس سے دور کرنا چاہتا ہے تو ایک ایسے طبقے نے بھی آواز اٹھائی ہے جو رد عمل کی ذہنیت لے کر مذہب کو سائنس کے بالمقابل کھڑا کرکے مذہب کو قصوروار ٹھہرارہا ہے۔ اور ظاہر ہے سائنس ایک کھلی سچائی اور اس وقت اس وباء کا سامنا کرنے یا علاج دریافت کرنے کی اہلیت رکھتی ہے اس لئے اس کا سہارا لینے والے عقلیت کے پیروکار بننے کے داعی ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی مذہب سائنس کا مخالف ہے یا دوسرے لفظوں میں سائنس مذہب کا متبادل ہے؟ اور کیا مذہب کو چھوڑ دینا چاہیے اور سائنس کی بیعت کرلینی چاہیے؟ سائنس کی بیعت کی اصطلاح سے شاید آپ مسکرا دیں مگر بہت سے مذہب مخالف اور اس مخالفت اور تعصب میں سائنس کا سہارا لینے والوں کی گفتگو سے اکثر ایسا ہی تاثر ملتا ہے کہ گویا ہمیں سائنس کی بیعت کرلینی چاہیے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ پھر ہمیں اپنے معاشرے میں مذہب حقائق اور سائنس سے دور لے جات اکیوں نظر آتا ہے۔ اگر اس کا سائنس سے کوئی حقیقی تصادم نہیں ہے تو کیوں آج کل کے حالات میں مذہبی راہنما سائنسی طریق علاج اور احتیاط سے عوام کو دور کرنا چاہتے ہیں؟

اگر ایک قاتل کسی چاقو سے قتل کر دے تو چاقو کو قصوروار نہیں ٹھہرایا جاتا۔ غرض ایک انسانی معاشرے میں ہر قسم کے ناجائز عمل کے لئے دنیاوی اسباب کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہ اسباب اپنی ذات میں غلط یا درست نہیں ہوتے۔ دوسری طرف جب اجتماعی رنگ میں مفاد پرستی کا کھیل کھیلنا ہو تو اس مفاد پرستی کی روح کو ہمیشہ ایک اچھے اور خوبصورت نظر آنے والے بیانیے کے جسم کی ضرورت ہوتی ہے۔ جو ایک مذہبی معاشرے میں مذہب سے ہوتا ہے۔

ایک ترقی یافتہ معاشرے میں یہی مفاد پرستی کی روح سائنس اور ٹیکنالوجی کا لبادہ بھی اوڑھ لیتی ہے۔ کبھی یہی روح سیاست میں آکر جمہوریت کا لبادہ اوڑھ لیتی ہے تو کبھی آمریت کو تمام مسائل کا حل دکھایا جاتا ہے۔ اور کبھی یہ صحافت کے لبادے میں بھی نظر آتی ہے۔ غرض یہ ایسی بدروح ہے جسے ایک معاشرے میں زندہ رہنے اور عوام کا استحصال کرنے کے لئے ایک ایسے لبادے اور بیانیے کی ضرورت ہوتی ہے جسے معاشرے میں مقبولیت او ر تقدیس کا درجہ حاصل ہو۔

یہ مفاد پرستی جب بھی کوئی لبادہ اوڑھتی ہے تو اس بدروح کے خلاف ایک ردعمل کی ذہنیت پیدا ہونا بھی فطرتی عمل ہے۔ مگر ردعمل کی ذہنیت کا ایک ناقص پہلو یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ محض ردعمل میں اختیار کی جائے تو یہ بھی اپنی اصل میں ناقص رہتی ہے۔ لہٰذا ردعمل کی ذہنیت اپنی ذات میں عمل سے بڑھ کر نہیں ہوا کرتی۔ تاہم اصل راستہ جسے صراط مستقیم کہا جاسکتا ہے وہ ان دونوں کے درمیان معتدل اور متوازن ذہنیت ہی ہوا کرتا ہے۔

جو دراصل منزل کا تعین کیا کرتا ہے اور مسئلے کی حقیقی جڑھ کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ دراصل اس وقت وباء سے لڑنے کا حقیقی راستہ وہی ہے جو سائنس متعین کررہی ہے۔ مذہب کا یہ دائرہ کار ہی نہیں ہے۔ مذہب کو سائنس مخالف کہنا دراصل خود مذہب کے بنیادی فلسفے کی نفی ہے۔ کیونکہ مذہب کا بنیادی فلسفہ یہی ہے کہ ساری کائنات اسی خدا نے بنائی ہے جس خدا کا الہام مذہب ہے۔ پھر ایک ہی ہستی کے کلام اورفعل میں تصادم یا مخالفت دکھانا دراصل اسی ہستی کی توہین ہے۔

ہم جن نام نہاد مذہبی راہنماؤں کو سائنس کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں یا وہ عوام کو مذہب کے نام پر حقیقت کی دنیا سے دور لے جانے کی کوشش کرکے ایمان کی مضبوطی یا دم درود کو وباء کا علاج یا توڑ بتا رہے ہیں اس کے پیچھے مذہب کے لبادے میں چھپی وہ مفاد پرستی کی بدروح ہے جو عوام کو حقیقی دنیا سے دور رکھ کر اپنے سحر میں ہی جکڑے رکھنا چاہتی ہے۔ کیونکہ عوام اگر حقیقت کی دنیا میں یا حقیقی مذہب سے آشکار ہوگئی تو ان جبہ پوشوں کا وہ سحر ٹوٹ سکتا ہے جس میں عوام کالانعام کو انہوں نے مذہب کے نام پر جکڑ رکھا ہے۔

اور جس میں بدقسمتی سے ہماری ریاست کی سرپرستی انہیں حاصل ہے (یہ سرپرستی کیسے حاصل ہے یہ ایک علیحدہ مضمون کا متقاضی ہے ) ۔ اور اگر یہ سحر ٹوٹ گیا تو بہت سے طبقات کے مفادات خطرے میں پڑسکتے ہیں۔ عامل کے اس سحر کے قائم رہنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ معمول یعنی عوام کو حقیقی علم، آگہی اور شعور سے دور رکھا جائے۔ لہٰذا بجائے مذہب کو قصور وار سمجھنے کے اصل قصوروار اس مفادپرستی کی بدروح کو پہچانیے جو اس وقت مذہب کے لبادے میں ہم پر مسلط ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments