انصاف ٹائیگرز، مذہبی رفاہی ادارے اور ہینڈ سم وزیراعظم


مذہبی و روحانی طبقہ معاشرتی طور پر پاکستان میں ایک طاقتور اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ حالیہ وبا کی دنوں میں بھی حکومت پاکستان نے علمائے کرام سے کردار ادا کرنے کی درخواست کی ہے تاکہ اس وبا کا مقابلہ کیا جاسکے۔ کیونکہ تقریبا ہر مذہبی جماعت کا ایک موثر ونگ رفاہی ادارہ کی شکل میں تربیت یافتہ اور متحرک کارکنان کی شکل میں موجود ہے۔ موجودہ وبا اور بدلتے ہوئے حالات و آفات نے جہاں بہت سے نئے چیلجنز کو جنم دیا ہے وہی اس ہنگامی صورت حال میں ملکی و قومی مسائل کے حوالے سے بہت سے ایسے مواقع بھی پنہاں ہے جن سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور خاص طور قومی یک جہتی و ملکی مفاد کی دوسرے تمام عوامل پر برتری خواہ وہ مذہبی اختلافات ہوں یا لسانی و صوبائی تنازعات۔

اگرچہ ایرانی و سعودی زائرین اور تبلیغی جماعت کے کارکنان کے حوالے سے سوشل میڈیا پر نفرت آمیز اور گمراہ کن پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے لیکن وبا کے ان مشکل دنوں میں عمومی ردعمل بہت مثبت اور قومی یکجہتی کے حوالے سے حوصلہ افزا ہے۔ جہاں مرکزی ذرائع ابلاغ نے اس حوالے سے ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے وہی سوشل میڈیا پر بھی صارفین نے موجودہ وبا کے تناظر میں ایسی فرقہ وارانہ پوسٹس کو ناپسندیدگی سے دیکھا ہے۔

ماضی میں پیش آنے والے ناگہانی مصائب و قدرتی آفات سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ کسی بھی ناگہانی آفت کی صورت میں ملک کے طول و ارض میں موجود مذہبی و رفاہی اداروں کے ہزارہا کارکنان انتہائی موثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یہ ایک مستند حقیقت ہے کہ مذہبی جماعتوں کی ناگہانی آفات سے نپٹنے کے لئے ایک بھرپور افرادی قوت کا موثر نیٹ ورک ملک کے کونے کونے میں نہ صرف موجود ہے بلکہ انسانی خدمت کے جذبے سے بھی سرشار ہے۔ زلزلہ و سیلاب کے تباہ کاریاں ہوں یا تھر کے بھوک سے بلکتے بچے، مذہبی جماعتوں کے رفاہی کارکنوں نے ہرآفت میں ہراول دستہ کا کردار ادا کیا ہے۔ اور عموما حکومتی مشینری کے فعال ہونے سے پہلے آفت زدہ علاقے میں امدادی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں کئی مذہبی و رفاہی تنظیمیں انفرادی حیثیت میں رفاہی کام کر رہی ہیں لیکن افرادی قوت و وسائل کے غیر منظم استعمال کی وجہ سے متوقع معاشرتی و سماجی ترقی کے حصول میں خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہو پا رہے۔ حالیہ وبا کے تناطر میں ملکی افرادی قوت کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور ان سے مفاد عامہ کے کام لینے کے لئے ان مذہبی و رفاہی طبقات کے معاشرتی و سماجی کردار کو ازسر نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے تاکہ اس متحرک افرادی قوت کو مرکزی معاشرتی دھارے میں شامل کرکے ایک موثر متوازی فورس ترتیب دی جائے جو منظم انداز میں ہنگامی حالات سے نبردآزما ہونے کے لیے بلا تفریق فرقہ و جماعت ایک اکائی کی صورت میں کام کر سکے۔ اس مقصد کے لئے ایک ایسا مرکزی پلیٹ فارم ہونا چاہیے جہاں تمام رفاہی جماعتوں کے کارکنان رجسٹرڈ ہوسکیں اور کسی آفت یا وبا کی صورت میں حکومتی مشینری کے ساتھ منظم انداز میں رفاہی و امدادی سرگرمیوں میں کردار ادا کر سکیں۔ اس انداز میں کام کرنے سے افرادی قوت کی استعداد کار کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔

وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب نے اکتیس مارچ 2020 کو کرونا ریلیف ٹائیگر فورس کی تشکیل کا اعلان کیا جس میں نوجوان بطور رضاکار رجسٹرڈ ہوکر موجودہ لاک ڈاؤن میں لوگوں کی مدد کریں گے اور لوگوں کو کرونا سے متعلق آگاہی، بچاؤ اور لاک ڈاؤن میں حکومتی امداد کو جو کہ راشن کی شکل میں ہو گی، اس کو مستحقین کے گھروں تک پہنچانے جیسے فرائض ادا کریں گے۔ ہم بلاشبہ تاریخ کے ایک منفرد، مشکل اور ایب نارمل دور سے گزر رہے ہیں اور اس وبا کے دنوں میں قومی یک جہتی اور ہم آہنگی کی شاید اس سے پہلے کبھی اتنی ضرورت پیش نہیں آئی جتنی آج ہے ماسوائے جنگی حالات کے۔

لیکن ان حالات میں بھی وزیراعظم پاکستان نے بجائے پاکستانی نوجوانوں اور کم تریں وسائل کے ساتھ بہترین کام کرنے والے رفاہی جماعتوں کے کارکنان کو کرونا کے خلاف جنگ کا حصہ بنانے کے اس کار خیر کو بھی سیاسی رنگ دیے دیا ہے۔ بہترتو یہ ہوتا کہ ان رضاکاروں کو قومی رضاکار فورس کہا جاتا تاکہ ان پر کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کا تاثر نہ جاتا اور ہر طبقہ فکر و سیاسی جماعت کے کارکنان اس فورس کا حصہ بننے میں جھجھک محسوس نہ کرتے۔ لیکن افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ جس وجہ سے نہ صرف عام عوام میں اس فورس کا عمومی تاثر ایک سیاسی ونگ کی طور پر لیا جارہا ہے بلکہ تحریک انصاف کی سیاسی مہم بھی قرار دیا جارہا ہے جس میں حکومتی امداد کو تحریک انصاف کے ٹائیگرز کے ذریعے تقسیم کروا کے ماضی کی حکومتوں کی طرح سیاسی پوائنٹ سکورنگ کی جائے گی۔

حکومتی ارکان عمومی طور پر اور وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان خصوصی طور پر ہر پریس بریفنگ میں اپوزیشن ارکان کو تنبہیہ کرتی نظر آتی ہیں کہ کرونا ایک قدرتی آفت ہے اور اس پر سیاست ہرگز نہیں کرنی چاہیے لیکن کاش مشیران و وزیران کی یہ فوج جناب وزیر اعظم صاحب کے گوش گزار کرسکے کہ فی الحال اپوزیشن اس ایشو کو لے کر سیاست نہیں کر رہی بلکہ جناب خود ہی حکومت میں ہیں اور خود ہی اپوزیشن۔

جہاں انصاف ٹائیگرز جیسے بہترین منصوبے کو جناب وزیراعظم صاحب نے متنازع رنگ دے دیا ہے وہیں بے ربط اقدامات اور صوبوں سے عدم تعاون و رابطوں کے فقدان کی وجہ اس بحران میں مرکزی حکومت کے کردار کو کسی طور بھی مثالی نہیں کہا جاسکتا۔ یہ آفت آنے والے کچھ عرصہ میں ختم جائے گی لیکن وفاق اور وزیر اعظم کا کردار تاریخ کا حصہ بن جائے گا۔ اور تاریخ جناب وزیراعظم کو کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے اور ہینڈ سم ہونے پر ہرگز رعایت نہیں دے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments