قرنطینہ اور ہم نوجوان


جی جناب والا گزشتہ کچھ دنوں سے ہم سب کے تعلیمی ادارے بند ہیں۔ جہاں تعلیم کے ساتھ ساتھ دوسری سرگرمیوں میں انسان مصروف رہتے اور اس کے بعد آکر یونیورسٹی کا کام کرنے میں مصروف رہتے اور وقت گزرتا تھا۔ مگر اب کرونا وائرس کی وجہ سے جو چھٹیاں دی گئی ہیں۔ یہ سب کے لئے ایک نیا تجربہ اور عالم انسانیت کے لئے ایک آزمائش کی گھڑی ہے۔ اور اب سب کو گھروں میں محصور ہونا پڑ رہا ہے۔ میری 20 سالہ زندگی میں ایسا وقت پہلی بار آیا ہے۔ جہاں قرنطینہ کے ہاتھوں بہت سے لوگ تنگ آ چکے ہیں وہاں اس کے مجھے کافی فوائد بھی مل رہے ہیں۔

سب سے پہلی تو گھر والوں سے تفصیلاً ملاقات ہوئی۔ یہ جان کے نہایت خوشی ہوئی کہ بہت اچھے لوگ ہیں۔ خیر یہ تو مذاق تھا۔ ہاں کڑواسچ یہ ہے کہ عام مصروف زندگی میں انسان گھر والوں کے ساتھ کم ہی وقت ملتا ہے بیٹھنے کواور کچھ نایاب گھڑیاں ملتی ہیں ان کے ساتھ تو اس قرنطینہ میں بہت وقت مل گیا۔ اب لوگ ایک دوسرے کے قریب ہو رہے ہیں۔

ایک اور امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہو کی ہم خود جان نہیں سکتے کہ ہم کیا کر رہے ہیں، جو کر رہے ہیں وہ کیوں کر رہے ہیں اور اس کا مقصد کیا ہے۔ کیا جو کام ہم کر رہے ہیں، اس سے سکون مل بھی رہا ہے یا نہیں؟

میں کتاب بینی کی طرف دوبارہ آیا اور میں نے کا فی عرصے سے شروع کرنے والا ناول کائیٹ رنر ختم کیا اور اس کے بعد افغان حالات کا تجسس بڑھ گیا اور اس کے بارے میں پڑھنے لگا۔ اور کے بعد میں نے ویل ڈیورنٹ کی کتاب فالن لیوز (Fallen Leaves) پڑھی اور اس کا بھی لطف آنے لگا اور اس میں مصنف کا زندگی۔ پیار جنگ اور خدا کے بارے میں اس کے تجربات پڑھے۔ اب اسلام کے بارے میں جاننا شروع کیا۔ تفسیر پڑھی اسلام کو جاننا شروع کیا اور بہت سارا مطالعہ کیا اور ڈاکٹر شاہد صدیقی کے سارے کالم پڑھنے میں مشغول رہا۔ بہت سارا مطالہ رومی کے بارے میں کیا اور ان کی روحانیت پڑھی۔ اور بہت سی ڈاکومنٹری دیکھیں۔ بہت کچھ سیکھا۔ اور کچھ اور بھی معلومات کی وڈیو دیکھتا رہا اور اس کے ساتھ اپنے گھر کی چھت پر باغ بانی بھی شروع کی۔ اس کی دیکھ بھال کرنے میں سکون ملتا ہے۔ اور اس کے بعد اب کوگنگ تو مجھے بہت پسند ہے کیونکہ میں کھانوں کا شوق رکھتا ہوں۔ اس وجی سے کچھ نیا سیکھنے کو اور گھر والوں کو کھلا دیتا ہوں۔ اور گھر والے بھی خوش رہتے ہیں۔ چونکہ میں اخبار بھی پڑھنے لگ گیا تو گھر والوں کو خبریں بھی سناتا رہتا ہوں۔

ہر چیز کے مختلف پہلو ہوتے ہیں یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ اس میں سے مثبت پہلو کس طرح ڈھونڈتے ہیں۔ انسا ن کو خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ یہ وبا اللہ کی مرضی سے جلد ختم ہو جائے گی اور یہ دور تک اپنے اثرات چھوڑ جائے گی۔ ہمیں یہ دن یاد آئیں گے کہ کیسے ایک وائرس سے دنیا رک سکتی ہے۔ اور اس کے بعد کہ ہم اللہ اور اپنے گھر والوں سے کتنا دور ہیں۔ اور یہ کہ ہم بہت کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں مگر مصروفیات کی وجہ سے کر نہیں پاتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments