کورونا وائرس اور بھوک کا آتش فشاں


روزانہ کی اجرت پر کام کرنے والا مزدور جب صبحِ بیدار ہو تا ہے اس کا پہلا خیال ”دعا“ ہوتا ہے۔ یا رب العالمین آج اپنے خزانے سے مجھے رزق عطا فرما۔ ایک دن کی خوراک کے حصول درمیان وسوسے، موسم، حالات اور بیماریوں کا افریت، طلوعِ ہوتے سورج کے ساتھ ساتھ اپنا پھن نکالے اس کے خیال اس کی روح میں وحشت بھرتا چلا جاتا ہے لیکن امید اسے لڑ نے کے لیے پھر تیار کر دیتی ہے۔ ننھے پیلے زرد چہرے، لاغر جسم اور اداس آنکھیں اسے اس افریت سے ٹکرانے پر مجبور کر دیتی ہے۔

کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کام نہیں ملتا اور یہ سلسلہ کئی روز تک دراز ہو جاتا ہے، اس دن جب خالی جیب یہ شخص گھر کی طرف روانہ ہوتا ہے۔ اس میں حرکت تو ہوتی ہے لیکن یہ زندہ نہیں ہوتا۔ غریب، مزدور، دھاڑی دار کی زندگی میں یہ دن کئی بار آتا ہے لیکن جو چیز اسے زندہ رکھتی ہے وہ یہ یقین ہوتا ہے کہ کل وہ محنت اور خون پسینہ سے اپنے حصہ کا رزق حاصل کرے گا اور اپنے بچوں کے لئے آسودہ مستقبل تعمیر کرے گا۔ ہمارے ملک میں یہ تعداد کروڑوں میں ہے اور ان کروڑوں لوگوں کو یہ معلوم ہو گیاہے کہ آئندہ کئی ماہ تک انہیں روزانہ اجرت پر کام نہیں مل سکتا۔

کیونکہ دنیا میں وبا کی سیاہ اندھیری رات چھا گئی ہے جس میں کام تو در کنار کوئی کسی سے ہاتھ نہیں ملا سکتا، قریب نہیں بیٹھ سکتا، میلے، کھیل تماشے ختم، سڑکوں پر ٹریفک نا پید، سکول، کالج، یونیورسٹیاں، دفاتر، دکانیں، بازار، پارک، تفریح گاہ بند، بچوں کا میدان میں کھیل ممنوع، کاروبار، تعمیرات رک گئیں، گاؤں، دیہات، شھربلکہ ملکوں کے ملک یہاں تک کہ عظیم جمہوریتیں لاک ڈاون۔

اب غریب، دھاڑی دار (Daily Wager) مزدورکا انتہائی آزمائش کا، تکلیف دہ اور خون خشک کر دینے والا (Panic) دور کا آغاز ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ عرصہ اپنی سخت ترین حالت میں کئی ماہ طویل ہو سکتا ہے یا شاید اس سے بھی زیادہ! ترقی یافتہ ممالک سے ان حالات میں یہ خبریں بھی آئیں ہیں کہ امریکہ کے شہریوں میں اسلحے کی خریداری میں اضافہ ہوا ہے وہ اس خدشہ کا شکار ہیں کہ امریکی سیاہ فام گھروں میں گھس کر لوٹ مار کر سکتے ہیں۔

دوسری جانب انگلینڈ میں سامان کی خریداری کے دوران چھینا جھپٹی اور لوٹ مار کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ امریکہ اور انگلینڈ جدید دنیا کا چہرہ ہیں اگر ان جیسے تہذیب یافتہ اور متمدن معاشرے جن کی سالانہ فی کس آمدنی 30 ہزار امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہے تو پاکستان یا اس جیسے دیگر ممالک جن کی سالانہ فی کس آمدنی ہزار ڈالر سے بھی کم ہو، ان کے حالات کے تصور سے بھی روح کانپ جاتی ہے اور رگوں میں خون جمنے لگتا ہے۔ کووڈ 19 کے خلاف جنگ وہ ممالک ہی جیتیں گے جو آ نے والے کئی مہینوں تک کے لیے روز مرہ ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں اورعوام کی دیگر (Utuilities) کو احسن طریقے سے ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں بصورت دیگر خوفناک مشکلات کی اندھی کھائی منتطر ہو گی۔

چین تین ماہ میں وبا سے نمٹنے میں کامیاب ہوا ہے وہ عظیمی الشان نظام معیشت و حکومت اور عوامی شعور کی بدولت اس جنگ کو جیتنے میں کامیاب ہوا اور دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کرونا آیا اور بعد ازاں اس پر قابو پا لیا گیا۔ دوسری طرف امریکہ میں وبا نے تباہی پھیلا دی ہے مریضوں کی تعداد سوا لاکھ سے تجاوز کر رہی ہے۔ امریکہ نے اپنی عوام اور اداروں کے لیے تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے جو دو ہزار ارب ڈالرز سے زائد ہیں۔

آج پاکستان خطر ناک حالت جنگ میں ہے۔ اگر ہم اسے جنگ کہیں تو جنگ بھی کیسی! ۔ کوئی بم دھماکہ نہیں ہوا اور کارخانے ویران، فیکٹریاں اجاڑ ہو گئیں۔ کوئی گولی نہیں چلی۔ مزدور اور ورکرز بے روزگار ہو گئے۔ کوئی خندق نہیں کھودنی پڑی۔ مکانوں اور گھروں کی شکل خندقوں جیسی ہو گئی۔ کوئی بارودی سرنگ نہیں بچھائی گئی۔ اور ہر آ دمی قدم پھونک پھونک کر رکھ رہا ہے۔ اور مزید یہ کہ قرضوں کا بوجھ، کئی دہائیوں کی جنگ، سیاسی افراتفری، عالمی حالات بے شمار اندرونی مسائل ہمارے لئے وہ لوہے کی زنجیریں اور بیڑیاں ہیں جن کا اٹھانا محال، اور رکنا بھی نہیں ہے! اور وہ بھی ایسے دشمن کے خلاف جو نظر نہیں آتا۔ ہم اس صورتحال میں کیا کر سکتے ہیں؟

ریاست مدینہ میں دو مواقع ایسے آئے ہیں (بہت سے اور واقعات کے علاوہ) جس نے دنیا کو حیران کر دیا۔ ایک ”مواخات مدینہ“ جس میں مکہ کے مہاجرین کو مدینہ منورہ کے انصار کا بھائی بنا دیا گیا۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ضروریات زندگی کو آدھا آدھا انصار اور مہاجرین میں تقسیم کرنے کے احکامات صادر فرمائے۔ اور دوسری مرتبہ غزوہِ تبوک کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مومنین کو چندہ جمع کرنے کے لئے فرمایا۔ وہ بھی حالت جنگ تھی۔

دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے خلاف بہترین ردعمل ہی ریاست مدینہ کے اندورنی اور بیرونی دشمنوں کو واضح پیغام دینا کہ کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکے۔ اتنا سرمایہ نہ تھا کہ جس سے تیس ہزار افراد پر مشتمل فوج کے اخراجات برداشت کیے جا سکتے۔ اس چندہ جمع کرنے کے حوالے سے مسلمانوں نے جس جوش و خروش کا مظاہرہ کیا انسانی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہزاروں درہم کسی نے دیے تو کوئی اپنا آدھا سرمایہ لے آئے اور ایک صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا سارا مال و دولت آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں نچھاور کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بعد ازاں کوئی مدینہ کی عظمت کو چیلنج نہ کر سکا۔

آج بھی ہم ایک خوفناک میدان جنگ میں ہیں۔ کوئی باہر سے قرضے یا امداد نہیں دے گا۔ ہم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہو نے کا دعویٰ کرتے ہیں آج اس دعویٰ کو ثابت کرنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ ہمیں غزوہِ تبوک کی مثال سامنے رکھنی چاہیے۔ اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

جناب وزیراعظم۔ آپ قیادت کیجیے اور تاریخ پاکستان کی سب سے عظیم فنڈ ریزنگ کا آغاز کیجئے اور اس کا آغاز آپ خود سے کریں، اپنی پارٹی سے کریں، پاکستانی قوم غیرت اور حمیت کی حامل قوم ہے۔ کوئی بھی تاجر، صنعتکار، زمیندار، سرمایہ دار، سیاسی جماعتیں، مذہبی جماعتیں اور ملازمین اپنے غریب بھائیوں کی مدد کرنے میں پیچھے نہیں رہے گا۔ اس سے آپ کے قد اور آپ کے وقار میں اضافہ ہو گا۔ شرط یہ ہے کہ اسے انتہائی مربوط اور منظم طریقے سے انجام دیں۔ عام چندہ مہم نہ بننے دیں۔

اخری بات، ہمیں یہ تو علم نہیں ہے کہ یہ بات کتنی قابل عمل اور مفید ہو گی لیکن ایک بات یقینی ہے کہ پانچ یا دس ہزار سے ایک فرد کا گزارہ بھی مشکل سے ہوتا ہے۔ اور پھر کنبے کے ماہانہ اخراجات؟! اگر خدانخواستہ یہ صورتحال تین چار ماہ تک جاری رہی تو ڈر ہے کہ جیسے ہم افراتفری اور لاقانونیت کے آتش فشاں پر بیٹھے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments