قرنطینہ اور شناختی بحران


کورونا وائرس کے دنوں میں سماجی روابط کی ویب سائٹس پر عجیب شغل لگا ہوا ہے۔ ہر کوئی سماجی دوری پر تبصرے کرتے اور تدابیر بتاتے دکھائی دے رہا ہے۔ ہر کوئی فیس بک ، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور ٹویٹر پر اپنی تصاویر ڈال کر بتا رہا ہے کہ دیکھیے جی ہم قرنطینہ میں ہیں، آپ کہا اور کیا رہے ہیں؟ کوئی کہا رہا کہ دوراں قرنطینہ میں دم گھٹ رہا ہے کیا کیا جائے! اب تو فیس بک پر پرانی تصویروں پر عجیب مشغلے کے ساتھ عجیب پوسٹیں بھی چل رہی ہیں کہ ”ہماری پہلی ملاقات کب ہوئی تھی“ ویسے اس بات کا پہلے بھی ادراک تھا کہ ہم لوگ کتنے فارغ ہیں، اب تو شدید احساس ہونے لگا ہے کہ اتنے فارغ ہیں کہ ہمیں ٹائم نہیں مل رہا کہ کوئی پراڈکٹیو کام کریں۔

قرنطینہ کے دنوں میں بہت کم لوگوں نے کتابیں پڑھنے کے حوالے سے پوسٹ کیں۔ مگر کثیر تعداد وہی کام کر رہی ہے جو ماضی سے ہوتا آ رہا ہے! اس ٹیکنالوجی کے دور میں کتابیں پڑھنے کا رجحان کافی حد تک کم ہوگیا ہے، سارا وقت سوشل میڈیا پر ضائع کردیتے ہیں۔ مگر اس دنوں تو ہمارے پاس بہت سارا وقت ہے، سوشل میڈیا کو وقت دینے کے ساتھ اور بھی بہت پراڈکٹیو کام کر سکتے ہیں، پڑھنے لکھنے کی روایت پھر سے جاری رکھ سکتے ہیں۔ اور اس وقت نے ہمیں سنجیدہ ہونے کا سنہری موقع دیا ہے، شاید یہ موقع پھر سے نہ ملے۔ مگر آپ کی بڑی مجبوری بھی تو ہے، آپ کو نام کمانا ہے، شناخت بنانی ہے۔ تو آپ سنجیدہ مسائل پر بحث اور کتابیں پڑھنے پر اپنا قیمتی وقت کیوں ضائع کریں گے!

اچھی بات ہے کورونا وائرس سے بچنے کے لیے آپ لوگوں نے سماجی دوری اختیار کی ہے، مگر دوسرے لوگوں کا جینا کیوں اجیرن بنا دیا ہے؟ اوہ! بس یاد آ گیا کہ آخر مسئلہ ہے کیا؟ ہم جانتے ہے کہ وہ لوگ جو ایک پل بھی تنہائی ‏میں گزارنے کے بالکل بھی عادی نہیں، اپنے آپ سے باتیں کرنے کے علاوہ کتے، بلی اور بے جان چیزوں سے بھی باتیں کرتے تھکتے نہیں، وہ لوگ تو بہت کٹھن گھڑیاں گزار رہے ہیں۔

دوسری طرف کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو نہ صرف کورونا وائرس کے سبب قرنطینہ میں ہیں بلکہ وہ تاحیات قرنطینہ میں ہوتے ہیں۔ وہ لوگوں کی بھیڑ میں ہوتے ہوئے بھی تنہا ہوتے ہیں! وہ لوگ جو زیادہ باتیں نہیں کرتے، آپ لوگوں کی طرح سوشل میڈیا یا حقیقی زندگی میں اپنا دکھاوا نہیں کرتے۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ خود کا اظہار نہیں کر پاتے، وہ ہر دن، ہر پل اپنے آپ سے خود کا اظہار کرتے ہیں، باتیں کرتے ہیں، سوچتے ہیں اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔

اس دنوں میں ہم جیسے بہت خوش تھے کہ اب تھوڑی سی شانتی ہوگی، تھوڑی سی خاموشی ہوگی۔ لوگ سنجیدہ بنیں گے۔ مگر یہ بات غلط ثابت ہوئی!

اب تو یہ سوال بنتا ہے کہ آپ لوگ خوش کس چیز سے ہو بھئی؟ خود بھی جیو اور دوسروں کو بھی جینے دو! لاک ڈاؤن نہیں تھا، سماجی دورے اختیار کرنے کی مجبوری بھی نہیں تھی، تب بھی آپ وہ ڈنڈھورا پیٹتے تھے جو آج کل ان دنوں میں پیٹتے آ رہے ہو! میں آپ لوگوں کی نجی زندگی میں نہیں جانا چاہتا کہ اس برے وقت کورونا وبا کے دنوں میں بھی آپ کو کون سی شناخت درکار ہے! آپ کے پاس سوشل میڈیا پر بڑی تعداد میں مداح ہیں۔ اور کیا چاہیے؟

کبھی کبھار تو بڑے دانشور، فلسفی بھی بن جاتے ہو، ایک دو کتابوں کا ذکر کرکے اچھی اداکاری بھی کر لیتے ہو، سب لوگ واہ واہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کون سا شناختی بحران ہے؟ جانتے ہیں کہ آپ پریشاں اس وجہ سے نہیں کہ وائرس کے سبب انسانوں کا کیا ہوگا، دیہاڑی دار مزدوروں کا کیا ہوگا، لیکن صرف آپ کو اپنی ذات کی فکر ہے۔ تو بھائی جان یہ دن بھی گزر جائے گے، بس آپ یہ کچھ دن خاموشی، خودکلامی، سماجی دوری اور پڑھنے لکھنے میں گزارے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ چند دن آپ کے لیے بہت بہت تکلیف دہ ہیں، لیکن اپنے آپ اور دوسروں پر تھوڑا سا رحم کریں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments