انفکٹڈ باڈی کے جلانے یا دفنانے کا حکم: شاہ ولی اللہ سے راہنمائی


وبائی امراض میں مذہبی نطقہء نظر سے پیش آنے والی ایک ممکنہ بحث اطباء کی جانب سے انفیکٹڈ مردوں جو جلانے یا دفنانے کی ہو سکتی ہے جس سے متعلق فقہی اندازِ فکر میں ہمیں سارس کے ایام میں علماءِ مصر کے فتوے بآسانی دستیاب ہیں جن میں علماء کی دو مختلف آراء ہیں، درج ذیل تحریر میں میں مسئلہء مذکورہ کو شاہ ولی اللہ کی مجموعی فکر کے تناظر میں دیکھنے اور ان سے راہنمائی لینے کی کوشش کروں گا۔

اس سلسلے میں شاہ ولی اللہ کی مجموعی فکر سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ شاہ صاحب نے اپنی فکر میں افعالِ انسانی کو افلاطونی انداز کی مابعد الطبیعیاتی تفہیم کے ساتھ جوڑا ہے۔ چنانچہ ان کے ہاں ہر فعل کی ایک سماوی تصویر ہے، افعال اس سے نکلتے اور اس سے جڑتے ہیں گویا افعال اور سماوات مدور انداز میں گھومتے ہیں۔

مذکورہ مسئلہ میں شاہ صاحب سے راہنمائی لی جائے تو اس کا اجمالی خاکہ کچھ یوں بنتا ہے کہ شاہ صاحب کے ہاں خدا نے لوگوں کو ایک خاص صورتِ نوعیہ پر پیدا کیا ہے جس کے کچھ طبعی تقاضے ہیں جن کا ظہور انسان کے افعال کی ہر سطح پر ہوتا ہے خواہ ان کا تعلق ابتدائی بدوی زندگی سے ہو یا انتہائی جمالیات سے ہو، یہ ایسے افعال ہیں جن پر انسان کا باطن کچھ اس طرح شہادت دیتا ہے جسے کسی خارجی تعلیم کی ضرورت نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں اقوام کی رسوم اور عادات کی اصل اس طبعی عنصر سے ملصق ہونے کی وجہ سے ایک ہوتی ہے اگرچہ اس پر عمل کی صورتیں مختلف ہوتی ہوں۔

ان کے ہاں یہ رسوم جو انسانی کے ذہنی ارتقاء کے ساتھ بتدریج اپنا سفر طے کر رہی ہیں اصلا مستحسن ہیں اور انہی کی حفاظت شرائعِ الہیہ میں اصلا مقصود ہوتی ہے، حفاظت کا طریقہ یا تو انبیاء کے ذریعے بیان کیا جاتا ہے یا حکماء پر ان کا القاء کیا جاتا ہے اور دیگر افراد اپنی قلبی شہادت سے ان کی پیروی کرتے ہیں، اور حکمرانوں کے ذریعے انہیں ان افراد پر نافذ کیا جاتا ہے جو اپنی ذاتی اغراض کی وجہ سے انہیں فاسد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مثلاً دو افراد کا ایک دوسرے کو جماع کے لئے مختص کرنا ایک ایسا طبیعی امر ہے جس کا انسانی طبیعت دیگر حیوانات سے ممتاز اور متمد ہونے کی وجہ سے تقاضا کرتی ہے اور اس کا اعلان ایک اصل ہے جس پر تمام اقوام متفق ہیں لیکن کوئی اس کا اعلان گانے گا کر کرتا ہے اور کوئی ولیمہ اور دعوت کر کے، لیکن یہ جزوی صورتوں کا اختلاف اگرچہ لوگوں کی رسوم کے مطابق مختلف ہو جاتا ہے اور شریعت لوگوں کو انہی کی عادات پر باقی رکھتی ہے لیکن جزوی اختلاف کے باوجود اصل ہر صورت کی ایک ہی ہے۔

اسی طرح تمام انسانیت کا مردے کو انسانی کرامت کے پیشِ نظر چھپانے پر اتفاق ہے لیکن بعض لوگوں کی عادت اسے دفنانے کی ہے اور بعض اقوام اسے جلا کر نظروں سے چھپاتے ہیں لیکن اس جزوی اختلاف کے باوجود اصل یعنی مردوں کو چھپانا ایک ہی قدر ہے جس کی محافظت دین کی اصل ہے۔

سوال یہ باقی رہتا ہے کہ اگرچہ رسوم کی اصل ایک ہے لیکن جب مروج عادات کے مطابق شریعت کو اصل کی حفاظت کے لئے رائج اور لازم کر دیا گیا تو کیا اس سے تجاوز کی کسی صورت میں اجازت ہو سکتی ہے؟ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ شاہ صاحب کی فکر اس کی حمایت کرے گی کیونکہ یہاں دین کی ایک دوسری اصل یعنی انسانی جان کا تحفظ بھی دوسری صورت پر منحصر ہو گیا ہے درآحالیکہ اصل بھی فوت نہیں ہو رہا۔

مجھے معلوم ہے کہ یہ اندازِ فکر ہمارے ہاں مروج فقہی اپروچ کے مطابق نہیں ہے لیکن بہرحال میری ذاتی رائے یہی ہے۔ اہلِ علم حجۃ اللہ کی مبحثِ ثالث اور فیوض الحرمین کی طرف رجوع فرمائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments