ایک وقت کا کھانا


”بس دو منٹ بیٹھو۔ میں ابھی اے ٹی ایم استعمال کر کے آیا۔ “

شہر کے مصروف کمرشل روڈ پر، دو بنکوں کے سامنے کھڑی کئی موٹر سائکلوں کے درمیان، مشکل سے ”عارضی پارکنگ“ کی جگہ ڈھونڈھتے ہوئے، عدنان نے گاڑی کھڑی کی اور مکرّم کو تاکید کرتے ہوئے، گاڑی سے اُتر گیا۔

روڈ کراس کر کے، اُس پار جا کر، ایک اور بنک کے ’اے ٹی ایم سے‘ اپنی ضرورت کے مطابق کچھ رقم نکلوا کر، واپس سڑک عبور کر کے، عدنان آ کر گاڑی میں بیٹھا۔

”کہاں گئے تھے؟ “ مکرّم نے پوچھا۔

”افلاطون، بتایا جو تمہیں۔ پیسے نکلوانے۔ “

”پر تُم تو روڈ کراس کر کے گئے تھے؟ “ مکرم نے عدنان سے عجیب طریقے سے دریافت کیا۔

”ہاں۔ تو؟ “

”یہ سامنے جو دو ’اے ٹی ایم‘ ہیں۔ “

مکرّم نے روڈ کی اسی جانب ”وِنڈ اسکرین“ کی پرلی طرف اشارہ کرتے ہوئے، ہلکی سی خفگی سے عدنان سے تخاطب کیا، جیسے اُسے ان ’اے ٹی ایمز‘ کے بارے میں پتا نہ ہو۔

”ارے مگر وہ سامنے اُسی بنک کی برانچ ہے، جس میں میرا اکاؤنٹ ہے۔ “ عدنان نے اپنی جانب والی کھڑکی سے روڈ کی پرلی جانب اشارہ کرتے ہوئے، اسے جواب دیا۔

”تو! ؟ “

”تو کیا؟ “ عدنان نے کہا۔

”ان دونوں بنکوں کی پیسوں والی مشینیں تجھے پیسے نہیں دیتیں کیا؟ اب تو پورے ملک کی ’اے ٹی ایمز‘ ایک ہی سسٹم (وَن لنک) میں جُڑے ہوئے ہیں۔ “ مکرّم نے پھر اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے، اپنے تئیں عدنان کی معلومات میں اضافہ کیا۔

”ارے بھائی، جب سامنے میرے اپنے بنکنگ نیٹورک کی برانچ ہے، جہاں سے پیسے نکلوانے سے کوئی کٹوتی نہیں ہوتی، تو میں وہاں سے پیسے کیوں ناں نکلواؤں؟ “ عدنان نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے کہا۔

”تو یہ کون سی تمہاری پُوری دولت ہتھیا لیتے! پہلے ایک ٹرانزکشن پر 14 روپے کٹتے تھے۔ اب یہ ہے کہ 25 روپے کاٹ لیتے ہیں۔ کیا فرق پڑ جاتا ہے! ؟ “ مکرم نے انتہائی بے پرواہ لہجے میں کہا۔

”بیٹا، 25 روپے کی قدر اس سے پوچھ، جس کے پاس یہ نہ ہوں۔

25 روپے میں ایک ’غریب پیٹ‘ کا ایک وقت کا کھانا آ جاتا ہے۔ ”

ایک سنّاٹا چھا گیا۔

عدنان نے اتنا کہہ کر، گاڑی کے پلیئر کی آواز تیز کر دی، جس میں لتا کی آواز میں نظیر باقری کی غزل بج رہی تھی:

کھڑا ہُوں آج بھی روٹی کے چار حرف لئے

سوال یہ ہے، کتابوں نے کیا دیا مجھ کو!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments