عذاب، آزمائش یا سزا؟


روحانی شعور رکھنے والوں کے خانۂ شعور میں گزشتہ چند دنوں سے یہ سوال پیدا ہو رہا ہے کہ یہ کرونا کی عالمی وبا ایک عذاب ہے، آزمائش ہے یا پھرسزا کی کوئی صورت ہے۔ آئیے! ہم مل جل کر اِس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ناچیز خود کو جواب دینے کی مسند پر فائز نہیں سمجھتا، یہ بھی دیگر طالبعلموں کی طرح سمجھنے کی کوشش میں مصروفِ عمل ہے۔

عذاب۔ عذاب ہے، خواہ آسمان سے نازل ہو یا زمین کے پیٹ سے اُگ آئے، چاہے دھیرے دھیرے بڑھنے والی افتاد ہو، یا پھر یکلخت وارد ہونے والی کوئی ناگہانی۔ قرآنی آیت کے مفہوم کے مطابق خانہ جنگی بھی عذاب ہے، یعنی لوگوں کا گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے کی گردن مارنا بھی عذاب ہے۔ عذاب کی بہت سی صورتیں ہیں، اَولاد کا گستاخ ہو جانا بھی عذاب ہے، یہ دو طرفہ عذاب ہے، والدین اور اولاد دونوں کے لئے عذاب۔ رعیت کا باغی ہو جانا بھی عذاب ہے، راعی کا منہ پھیر لینا بھی عذاب ہے۔

غرض عافیت سے نکل آفت کی کسی وادی میں داخل ہو جانا عذاب ہی کی مختلف صورتیں ہیں۔ یہ سازشی تھیوری بھول جائیں کہ کس کی غلطی سے، کس کی تخریب کاری سے یہ افتاد عالمِ انسانیت پر آن پڑی ہے، ایٹم بم بھی انسان کا بنایا ہوا ہے، لیکن یہ عذاب بن کر ہی آسمان سے برستا ہے، وائرس انسان کا بنایا ہوا ہو ٗ یا خدا کا، جب تباہی مچانے پر آ جائے تو اِسے عذاب ہی کہیں گے۔ سبب اور نتیجے کی دنیا میں ہر اَمر کسی سبب کا پردہ لے کر ہی ظاہر ہوتا ہے۔ انسان جو چیزیں بناتا ہے، دراصل بالواسطہ وہ بھی خدا ہی کی تخلیق ہیں۔ ہم اپنے بچے خود پیدا کرتے ہیں ٗ لیکن وہ اللہ احسن الخالقین کی تخلیق ہی کہلائی جاتی ہے۔ شکاری کا کتا جو شکار کرتا ہے، وہ شکاری کا شکار ہی کہلاتا ہے۔

کسی واقعے کی اجتماعی شکل کچھ بھی ہو، اِنسان کو اُس کا انفرادی پہلو ہی متاثر کرتا ہے۔ یعنی ظاہر میں کسی اُفتاد کی شکل خواہ کچھ ہو، اِس کی باطنی صورت ہر اِنسان کے باطنی کیفیت کے حسب ِ حال ہوتی ہے۔ مثلاً ایک جگہ قحط آگیا، لوگ بڑی تعداد میں مر گئے، اسی جگہ ایک سخی دل نے سخاوت کا مظاہرہ کیا اور سرفراز ہوگیا۔ جنگیں ہلاکت خیز ہوتی ہیں، انہی جنگوں میں زندگی بچانے والا ہیرو سامنے آ جاتا ہے۔ آسمان سے برسنے والی بارش اُس زمین کو زرخیر کر دیتی ہے، جسے دہقان نے نرم کیا ہو، جس میں بیج بویا ہو، جبکہ شور زدہ زمین کو وہی بارش دلدل میں بدل دیتی ہے۔

بارش کا جو قطرہ سانپ کے منہ میں زہر بن جاتا ہے، وہی سینہ ٔ صد ف میں گوہرِ تابدار بنتا ہے۔ اجتماعی عذاب انفرادی طور پر آزمائش کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ آزمائش کیا ہے؟ آزمائش خدا کا اپنے بندوں کو انعام عطا کرنے کے ایک جواز کا نام ہے۔ وہ شخص جو اِس اَمر پر یقین رکھتا ہے کہ ”پاک ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں زمین و آسمان کی بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، اُسی نے موت اور زندگی پیدا کی، تاکہ وہ آزمائے کہ کون عمل صالح کرتا ہے، اور وہ عزت والا اور بخشش والا ہے“۔

وہ مالک کائنات کے اِس اَمر پر بھی یقین رکھتا ہے کہ ”ہم تمہیں آزمائیں گے، خوف اور بھوک سے، جان، مال اور ثمرات کے نقصان سے، اور اس میں اچھی خبر ہے، صابرین کے لئے، یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان پر مصیبتوں میں سے کوئی مصیت پڑتی ہے تو ( بڑی خں دہ پیشانی سے ) کہتے ہیں کہ ہم ( اور ہماری جان، مال اور ثمر سب ) اللہ ہی کی طرف سے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے“ آج کی عالمی وبا بیک وقت خوف، بھوک، جان اور مال کا نقصان اور انسانی محنت کے ثمرات کے ضائع ہونے کے تمام پہلو سامنے لے کر آئی ہے۔

سائنس کی ترقی بھی انسان کی محنت کا ثمرہ ہے، عجب بات ہے وہ سائنس جو ہمیں کل تک بے خوف کرتی تھیٗ آج اپنے ہی اعداد و کلیات سے ہمیں خوف زدہ کیے جارہی ہے۔ ۔ جان، مال اور اپنی محنتوں کے ثمر کے نقصان پر صبر کرنے والے فائدے میں رہیں گے۔ مال والوں کو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کے مواقع میسر آئیں گے، بھوک اور خوف میں مبتلا لوگوں کو صبر کے مفہوم سے آشنائی ملے گی، اور اہلِ صبر کی یہ شان ہے کہ ”واللہ مع الصابرین“۔

اور اللہ صبر کرنے والوں کی معیت میں ہے۔ جسے اللہ کی معیت مل جائے، اس کے لئے کوئی مشکل، مشکل نہیں رہتی۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے ”مقربین مقامِ صبر کو مقام شکر بنا دیتے ہیں“۔ اکثر سوال ہوتا ہے، کیسے؟ حق کے مقرب جب کسی ناروا واقعے پر صبر کرتے ہیں تو انہیں اس واقعے میں کار فرما مشیت الٰہیہ سے آشنا کر دیا جاتا ہے اور جب وہ مشیت آشنا ہوجاتے ہیں تو بے اختیار پکار اٹھتے ہیں ”ربنا ماخلقت ہٰذا باطلا“۔ اے ہمارے رب تو نے کوئی چیز عبث نہیں پیدا کی۔

اب آزمائش اور سزا میں فرق کیسے کریں؟ اس پر بھی مرشد نے خوب رہنمائی فرمائی، حضرت واصف علی واصفؒ نے بتلایا کہ اگر کوئی مشکل تمہیں اللہ کے قریب کر رہی ہے تو یہ آزمائش ہے، اگر اللہ سے دُور کر رہی ہے، یعنی اللہ کی رحمت سے مایوس کر رہی ہے تو پھر یہ ایک سزا ہے۔ گویا آزمائش سرفراز ہونے کا ایک موقع ہے، اسے اپنی غفلت زدہ زندگی سے نکلنے کا ایک موقع میسر آنے (opportunity) کے طور پر لینا چاہیے۔

عین ممکن ہے، اس وبا زدہ موسم میں ہماری قوم غفلت سے نکل آئے، بے حسی اور خود غرضی کو خیر باد کہہ دے، سخاوت اور بھائی چارے کی ایک عالمی مثال قائم کر دے، ایک فلاحی اسلامی مملکت جس میں بغیر کسی حکومتی جبر کے اَمیر اَز خود غریب کا خیال رکھتا ہے۔ ایسی ہی ریاست ِ مدینہ کی ایک مثال ہم دنیا کے سامنے پیش کر سکیں۔ عین ممکن ہے۔ دین ِ اِسلام کی حقانیت کو عالمی سطح پر پیش کرنے کا یہ ایک بھرپور موقع ہے، لیکن یہ موقع عمل کا مظاہرہ کرنے کا ہے، زبانی کلامی بھاشن دینے کا نہیں۔

اس موقع پر عین ممکن ہے، چین بحیثیت قوم کلمہ پڑھ لے۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ چینی بحیثیتِ قوم اسلام میں داخل ہوں گے۔ دنیا نے اس موقع پر دینِ فطرت کے فطری اصولوں کی روشنی تو دیکھ ہی لی ہے۔ صفائی ستھرائی سے لے کر وبا کی روک تھام میں پورے علاقے کو قرنطینہ کرنے کے اصول تک، سب نے غور تو کیا ہوگا کہ یہی اصول کارگر ہیں۔

یوں لگتا ہے، قدرت اس کرۂ ارضی میں اپنا سسٹم ری سیٹ کر رہی ہے، آنے والے شب و روز پہلے کی طرح نہ ہوں گے، معیشت سے لے معاشرت تک، سب کچھ بدلنے کو ہے، بھٹکنے والے سنبھلنے لگیں گے، سرنگوں سرفراز ہوں گے، بلند وبالا اپنے ہی وزن سے دھڑام سے نیچے آ گریں گے۔ انسان کی مجموعی سوچ بھی مقدار سے نکل کر معیار کی دنیا میں داخل ہو گی، مادی شعور پس ماندگی کی علامت قرار پائے گا، اور دینی و روحانی شعور کا شہرہ عام ہوگا، عالمی سطح پر ہمارے فکری سانچے تبدیل ہونے کو ہیں۔

اس گفتگو کو سمیٹتے ہوئے، ہم اِس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ اجتماعی عذاب کو انفرادی آزمائش بنایا جا سکتا ہے، اور آزمائش خود احتسابی کا ایک موقع ہے، اس موقع پر صبر سے کام لے کرہم ظاہری اور باطنی دونوں طریق پر سرفراز ہو سکتے ہیں۔ جزا سزا کا دن طے ہے۔ روزِ جزا سے پہلے کسی مشکل وقت کو کسی کے لئے سزا نہ سمجھیں۔

ڈاکٹر اظہر وحید
Latest posts by ڈاکٹر اظہر وحید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments