واہ رے مالک! تیریاں کھیڈاں


پروفیسر صاحب یہ اعلان سنا آپ نے؟ مستری غلام عباس نے پریشان کن لہجے میں گلی کے نکڑ پر پروفیسر صاحب کو روکتے ہوئے پوچھا۔ ہاں غلام عباس! اس وباء نے توساری دنیا کو نگل لیا ہے۔ تم بھی احتیاط کرو اور ماسک بھی پہنو۔ مستری غلام عباس نے بغیر کسی ردِ عمل کے سائیکل پہ مضبوطی سے اپنے اوزار باندھے اور کہا رب راکھا پروفیسر صاحب، اور اپنے کام پہ رخصت ہو گیا۔

گھر پہنچتے ہی پروفیسر صاحب کی بیگم ان پہ برس پڑیں۔ کہاں رہ گئے تھے آپ؟ اتنا سا سامان اور گھنٹہ لگا دیا آپ نے۔ ابھی ناشتہ بھی بنانا ہے اور برتن دیکھے آپ نے؟ سارے کے سارے پڑے ہیں ابھی۔ سارا دن آپ کی کتابیں ہیں اور آپ بس! ذرا سی بات کہوسہی تو پھر اخلاقی لیکچر شروع۔ میں بھی تو انسان ہوں کوئی مشین تو نہیں۔ ذرا سا ہاتھ بٹا لیں سہی تو کہہ دیں گے بلاوجہ کُڑتی رہتی ہو۔ کڑوں نہ تو اور کیا کروں میں؟ بیگم غصہ سے بھری کچن میں خود ہی بولی جا رہی تھی۔ مگر پروفیسر صاحب اس معمول کی دھلائی سے قطع نظر پھر آرام سے بیٹھ کر اپنی کتاب پڑھنے لگے۔

دوسری طرف راشد رپورٹر اپنے موبائل پر میاں منظور کی سلفیاں بنانے میں مصروف تھا۔ میاں منظور جو کہ کونسلر صاحب کے نام سے مشہور تھا۔ محلہ کی ایک بوڑھی اماں کے دروزے پہ کب سے دستک دے رہا تھا۔ اکتا کر بولا! اوئے، زور سے دستک دو۔ مائی تو لگتا ہے گھوڑے بیچ کے سوئی ہوئی ہے۔ راشد رپورٹر جس کے پاس علاقے کی ہر چھوٹی بڑی شخصیت کی رپورٹ تھی، تسلی دیتے ہوئے بولا۔ نہیں نہیں میاں صاحب! سماعت کمزور ہے بیچاری کی۔ میں دستک دیتا ہوں۔

اتنے میں بوڑھی اماں نے دروازہ کھولا تو میاں صاحب نے بڑے اخلاق سے اماں جی کو مخاطب کیا اور اماں سے سر پہ پیار بھی لیا اور پھر راشن کا تھیلا کافی دیر ہاتھ میں پکڑے ہوئے تصویریں کھنچوائی اور ویڈیو بھی بنوائی۔ راشد رپورٹر کے آنکھ کے اشارے کی دیر تھی کہ سلام کیے بغیر ہی سبھی وہاں سے رخصت ہو گئے۔ بوڑھی اماں اُس راشن والے تھیلے کو گھسیٹے ہوئے اپنے رب کا شکر بھی کرتی جا رہی تھی۔ آخر بمشکل تھیلا کمرے تک لے ہی گئی۔

اگلے دن پروفیسر صاحب کریانے کی دکان پر سودا سلف لے رہے تھے، تبھی شفیق کریانے والے نے انہیں بتایا کہ کل مستری غلام عباس کو بھی کرونا ہو گیا۔ رات اسے ہسپتال لے گئے۔ ہم نے بڑی مشکل سے اس کا آخری دیدار کیا۔ سُنا ہے جو قرنطینہ گیا پھر واپس نہیں آیا کبھی۔ توبہ کرنی چاہیے پروفیسر صاحب! بچارے کے پانچ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ اور جوان بیوی۔ ساری رات روتے ہوئے گزری بچاروں کی۔ شفیق نے سودا کاونٹر پہ رکھتے ہی اپنے ماہرانہ تجزیہ نگاری کا نچوڑ بتاتے ہوئے یہ بھی بتا یا کہ اب صرف کرفیو ہی اس کا واحد حل ہے۔ اس بات پہ پروفیسر صاحب مزید غم زدہ ہو گئے اور بغیر کچھ کہے ہی وہاں سے چل پڑے۔

واپسی پہ محلے کی پُرانی مسجد کے امام صاحب ہاتھ میں تسبیح لئے باہر نکلے۔ پروفیسر صاحب کو ماسک میں دیکھ کر بولے! ارے پروفیسر صاحب خیریت ہے کیا آپ نے بھی کرونا سے ڈر کر منہ چھپا لیا؟ اللہ غارت کرے ان یہودیوں کو ہمارے سر سے ٹوپیاں اُتروا کر منہ پہ یہ تالے لگوا دیے تاکہ کوئی کسی کو سلام تک نہ کر سکے۔ بات سنتے ہی پروفیسر نے مولوی صاحب کو زور سے سلام کیا تو وہ تھوڑے مطمئن ہوئے۔

اسی دوران محلے کی ایک عورت مولوی صاحب کے پاس آئی اور بتایا کہ اس کے بیٹے کو شدید کھانسی اور سانس لینے میں مسئلہ آ رہا ہے۔ کوئی تعویز ہی لکھ دیں۔ پروفیسر صاحب جو کہ پہلے ہی پریشان تھے اس کی اس بات پہ اُس پر برس پڑے۔ خدا کا خوف کرو بی بی جاؤ جا کر اس کا ٹیسٹ کرواؤ۔ مگر اس عورت نے پروفیسر صاحب کی بات تک نہ سنی اور مولولی صاحب کی کرامات کے قصے سنانے لگی۔ مولوی صاحب نے اسے عصر کی نماز کے بعد آنے کا حکم صادر کیا اور وہاں سے رخصت ہو گئے۔

پروفیسر صاحب تعجب میں ڈوبے جیسے ہی گھر پہنچے تو ان کی بیگم نے انہیں بتایا کہ اوپر والے کمرے کی کھڑکی کا شیشہ بال لگنے سے ٹوٹ گیا ہے۔ سارا کانچ صحن میں بکھرا پڑا ہے۔ پروفیسر صاحب جو کہ محلے کے آوارہ لڑکوں کو کئی بار گلی میں کرکٹ نہ کھیلنے کی تلقین کر چکے تھے۔ خاموشی سے خدا سے اس قوم کے مشاغل کو بدلنے کی دعا کرتے ہوئے کانچ کے ٹکرے اٹھانے لگے۔ اس بے وجہ کی مشقت اور ناگواری نے انہیں تھکا دیا تھا۔ کُرسی پہ بیٹھے بے چینی میں خبریں دیکھ رہے تھے کہ ایک خبر نے ان کا دل اور غم ذدہ کر دیا کہ رات 11 بجے کراچی کے کسی مقام پہ اٹھارہ نوجوانوں کو لڈو پہ جوا کھیلتے پولیس نے گرفتار کر لیا۔ یہ خبر نئی تو نہیں تھی مگر پروفیسر صاحب اس قوم کی لاپرواہی اور مصروفیت پہ خدا کی بار گاہ میں خود کو بھی قصوروار سمجھ رہے تھے۔ شاید ہمارے علم میں وہ تاثیر ہی نہیں کہ خدا کی ہدایت کے مستحق ٹھہرتے۔

یہ لیں چائے۔ اس بار بیگم کا نرم لہجہ دیکھ کر پروفیسر صاحب ہلکا سا مسکرا دیے۔ شکریہ ادا کرتے چائے کا کپ پکڑ لیا۔ اُنکی بیگم بھی ان کے ساتھ والی کرسی پہ بیٹھ گئی۔ چائے پیتے پیتے بولی۔ پینشن آ گئی آپ کی؟ پروفیسر صاحب نے چائے کی چسکی بھرتے ہاں میں ہلکا سا سر ہلایا۔ بیگم کے چہرے پہ اطمینان کی بجائے تفتیشی تاثرات نمودار ہونے لگے۔ اکاونٹ میں ہی ہیں یا پھر کسی کی ضرورت کا بہانہ بنا کر مفت میں بانٹ دیے۔ پروفیسر صاحب نے کپ میز پر رکھتے ہوئے کہا۔ ہماری ضرورت کے رکھے ہیں بس۔ بیگم نے فوراً کان کھڑے کیے اور کہا باقی کہاں ہیں؟ باقی جن کا حق تھا ان کو بھی مل جائیں گے۔ پھر اپنی کتاب اٹھائی اور کمرے سے باہر چلے گئے۔

ہر نیا دن کرونا کی سنگینی بڑھا رہا تھا۔ ملک کے معاشی حالات بد سے بد ترین ہوتے جا رہے تھے۔ حکومت اپنی پوری کوشش کر رہی تھی کہ کسی طریقہ سے عوام کو اپنے اپنے گھروں تک محدود رکھا جائے مگر ابھی بھی شکایات موصول ہو رہی تھی۔ حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پروفیسر صاحب آج صبح سویرے ہی ضرورت کا سامان خریدنے چلے گئے تھے۔ اس بار شفیق کریانے والے نے پروفیسر صاحب کومستری غلام عباس کے صحت یاب ہو کر گھر واپس آنے کی نوید سنائی تو پروفیسر صاحب کی امید لوٹ آئی۔

اُدھر بوڑھی اماں شکرانے کے نفل ادا کرتے جا رہی تھی۔ اماں جی کے پالے کبوتر کھانے کی فراوانی سے خوشی کا اظہار کرتے غٹرغوں غٹرغوں کی آوازیں نکالتے ادھر اُدھر اڑ رہے تھے۔ شہر بھر کے مالدار لوگوں سے ہزاروں سلفیوں کے بعد ملنے والے ساریراشن سے بھرے تھیلے، بوڑھی اماں نے سلیقے سے ایک ہی جگہ پہ رکھے تھے۔ اماں گہرے بادلوں سے بھرے آسمان کی طرف دیکھ دیکھ کر اپنے رب کی نعمتوں کا شکر اداکر رہی تھی۔ بوڑھی اماں کا ایمان تھا کہ شکر کرنے سے رب اور عطا کرتا ہے۔

اکیلے پن اور آسائشوں کی کمی نے بوڑھی اماں کی موسموں اور سال کے مختلف تہواروں کا شعور بھی بڑھا دیا تھا۔ پہلے تو رمضان میں ایک ہی شخص اس کی ضرورت پوری کر دیتا تھا اس لئے مانگنے کی نوبت ہی نہیں آتی تھی۔ اس بار راشد رپورٹر کی سلفیاں اماں جی کی مقبولیت کا باعث بن چکی تھی اسی وجہ سے سبھی کو اماں کے گھر کا پتہ بھی مل گیا تھا۔ بھلا جس ملک میں آفت میں بھی ذخیرہ اندوزی کی جائے وہاں ایک سفید پوش بوڑھی اماں تک اس قدر راشن کیونکر پہنچتا۔ بوڑھی اماں دل ہی دل میں اندازے لگا رہی تھی، نہ جانے یہ کون سے دن ہیں کہ لوگ اس قدر خیرات کر رہے ہیں۔ اماں اپنی لا علمی پہ پریشان اور خدا کی رضا پہ راضی تھی۔

ایک بار بھر سے دروازہ کھٹکا۔ اماں آہستہ آہستہ دروازے تک آئی، دروازہ کھولا تو سامنے پروفیسر صاحب کھڑے تھے۔ اماں نے پروفیسر کو پہچان لیا تھا یہ وہی شخص تھا جو اماں کا خیال رکھتا تھا۔ اس بار جلدی نہیں آ گئے تم؟ اماں نے کرُسی پروفیسر کے سامنے کرتے پوچھا۔ جی ماں جی وہ بس۔ پروفیسر بات کرتے کرتے خاموش ہو گیا۔ اور تھیلا اماں کے پاس رکھ دیا۔ کو ئی تہوار ہے یا کسی آفت نے آن پکڑا ہے سب کو؟ اماں جی کا دل پروفیسرکے جواب سے مطمئن نہ تھا۔

بس اماں جی آپ دعا کریں کہ بلا ٹل جائے۔ پروفیسر نے واپس مڑتے ہوئے کہا۔ اماں جو کہ پہلے آنے والوں کی گرم جوش سلفیوں سے اس موقع کو تہوار سمجھ بیٹھی تھی۔ خدا کی آزمائش جانتے ہی افسردہ ہو گئی تھی۔ اس بار آسمان پہ گہرے کالے بادل بھی گرجنے لگے تھے۔ بوڑھی اماں نے اپنی نم آنکھوں سے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا واہ رے مالک! تیریاں کھیڈاں۔ اور پھر زوردار بارش برسنے لگی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments