کورونا ایک دہشت کیوں



کورونا ایک ایسی وبا ہے جس کو اگر آفتِ سماوی بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ وبا بیک وقت پوری دنیا پر عذابِ الٰہی کی صورت ٹوٹ پڑی ہے اور فی الحال دنیا کے پاس اس سے بچ رہنے کا کوئی اور طریقہ اس کے سوا نہیں کہ ہر فرد اپنے آپ کو نہ صرف یہ کہ قید کر لے بلکہ بالکل تنہا کر لے کیونکہ یہ ایک ایسی موت ہے جو بظاہر کسی زندہ و تندرست دکھائی دینے والے انسان میں بھی موجود ہو سکتی ہے اور اس پر موت کے کوئی آثار ظاہر کئے بغیر بلکہ اسے کوئی نقصان پہنچائے بغیر بھی اپنے پاس سے گزر جانے والے دوسرے انسان کو اپنے شکنجے میں کسنے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

جس مرض سے بچ رہنے کا طریقہ اپنے آپ کو سماج سے دور کرنے کے علاوہ کوئی اور موجود ہی نہ ہو تو ایسی صورت میں اگر یہ مرض طول پکڑ گیا تو یہ کیسے ممکن رہے گا انسان اپنے آپ کو ایک طویل عرصے زندہ رکھ سکے۔

اس مرض سے محفوظ رہنے یا با الفاظِ دیگر مشفی علاج کے سلسلے میں جن دو اصطلاحوں کو استعمال کیا جا رہا ہے وہ “دوا” اور “ویکسین” ہیں۔ جہاں تک میری ناقص معلومات ہیں، یہ دونوں اصطلاحیں ایک دوسرے سے بہت مختلف مفہوم رکھتی ہیں۔ جب کوئی مرض کسی کو لاحق ہوجاتا ہے تو مرض کے مطابق اس کیلئے “دوا” تجویز کی جاتی ہے۔ اگر مریض کو مرض کے مطابق دوا مل جائے اور اس کو وہی دوا ایک خاص مقدار میں دی جاتی رہے تو مریض شفایاب ہو جاتا ہے۔

گویا مرض کی صورت میں دوا ہی وہ واحد طریقہ ہے جس کی مدد سے بیمار جسم کو صحت مند بنایا جا سکتا ہے بصورتِ دیگر مریض کے بچ رہنے کے امکانات معدوم سے معدوم تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جہاں تک ویکسین کا تعلق ہے وہ کسی مرض کا علاج نہیں بلکہ یہ کسی مرض کے لگ جانے سے قبل ایک ایسی پیش بندی ہے جو مرض لگ جانے کے ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھنے کا ایک بہت ہی مؤثر طریقہ ہے۔ ان ہی ویکسینوں کی ایجادات سے انسانوں نے کئی خطرناک اور انسان دشمن امراض سے دنیا کو محفوظ رکھا ہوا ہے جس میں خناق، کالی کھانسی، تپِ دق، چیچک اور پولیو جیسی بیماریاں شامل ہیں جو کسی زمانے میں “کورونا” سے بھی زیادہ خوفناک بیماریاں تصور کی جاتی تھیں۔

کورونا کے متعلق کئی ابہام ہیں جو پوری دنیا میں پائے بھی جاتے ہیں اور ان پر مباحثے بھی ہو رہے ہیں۔ کچھ خیال کرتے ہیں کہ یہ قدرت کی جانب سے پیدا کردہ کوئی وائرس ہے اور کچھ کا خیال ہے کہ یہ انسانوں کی ایجاد ہے اور کسی غلط تجربے کی وجہ سے پوری دنیا میں پھیل کر تباہی مچائے ہوئے ہے۔

دنیا اس کے بارے میں کیا رائے رکھتی ہے یہ دنیا جانے لیکن میں ایسی تمام آرا سے ایک مختلف سوچ رکھتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ انسان جتنی بھی ترقی کر لے، کوئی ایسی چیز پیدا کر ہی نہیں سکتا جو کسی حد تک “زندہ” چیزوں میں شمار کی جا سکے۔ جس جراثیم یا وائرس میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ اپنی افزائش کر سکے وہ زندہ یا زندگی رکھنے والی شے ہی کہلائے گی اس لئے میرے نزدیک یہ قدرت ہی کی پیدا کردہ ہے کسی ایجاد کا نتیجہ نہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ہر جسم اپنی طبعی مدت پوری کرنے کے بعد کسی نہ کسی اور شکل کو جنم دے رہا ہوتا ہے۔ انسان، جانور، پھل یا سبزیاں جب اپنی زندگی مکمل کر چکی ہوتی ہیں تو ان میں کیمائی تبدیلیاں رونما ہونے لگتی ہیں۔ گل سڑنے کی وجہ سے ان میں کیڑے پڑ جاتے ہیں اور آخر کار ہر شے مٹی ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ “جن” آگ کی لپٹ یا گرم ہوا سے پیدا ہوئے ہیں۔ گویا کسی بھی عمل کے نتیجے میں ایک اور رد عمل سامنے آتا ہے۔

اسی بات کو سامنے رکھتے ہوئے میرا اپنا خیال یہ ہے کہ دنیا میں چلنے والے لاکھوں کارخانے، ہواؤں اور سڑکوں پر دوڑنے بھاگنے والی ہزاروں اقسام کی گاڑیوں نے جو پلوشن فضا میں پھیلائی ہے اس پلوشن کے نتیجے میں کسی ایسے وائرس نے جنم لے لیا ہے جو پوری دنیا میں بیک وقت پھیل گیا ہے اور انسانوں پر ایک عذاب کی صورت میں مسلط ہو گیا ہے اور شاید اس کا حل فضا کی پلوشن کو ختم کردینے کے علاوہ اور کچھ نہیں۔

بات یہ نہیں کہ اس وبا سے مرنے والوں کی نسبت دیگر بیماریوں کے مقابلے میں بہت کم ہے، بات یہ ہے کہ یہ بیمار انسان سے تندرست انسان میں لازماً منتقل ہو جاتی ہے اور اگر کوئی بھی انسان اس وبا کا شکار ہو جائے وہ اکیلا ہی ہزاروں انسانوں کو بیمار کر سکتا ہے۔ یہی وہ بات ہے جس نے ساری دنیا کے انسانوں کو لرزا کر رکھا ہوا ہے۔ لہٰذا ہر فرد کو نہایت محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور فی الحال درست علاج کے دریافت ہونے تک سماجی دوریوں کو بہر صورت برداشت کرنا بہت ضروری ہے بصورت دیگر نتائج بہت ہی خوفناک صورت اختیار کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments