جہالت یا عدم اعتماد


موجودہ آفت زدہ ماحول میں وزیر اعظم پاکستان تین بار عوام کو اعتماد میں لینے کی کوشش کر چکے ہیں اور آخری بار مورخہ بروز سوموار کو تو وزیر اعظم نے عوام سے ہاتھ باندھ کر اپیل کی اپنے گھروں میں رہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے آ رڈیننسز، دفعہ 44، ہیلتھ ایمرجینسی اور بذریعہ میڈیا آگہی مہم تک کر لیں۔ ضلعی انتظامیوں نے بذریعہ پولیس و دیگر قانون کا نفاذ کرنے والے اداروں کے ذریعے عوام کو گھروں میں رکھنے کی کوشش کر لی۔

روز نئی حکمت عملی روز حکمنامے پر نہ تو کرونا قابو میں آ رہا ہے اور نہ ہی عوام۔ اور ایک جملہ جو تقریباً ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے کہ۔ ”دنیا کرونا سے لڑ رہی مگر پاکستان میں حکومت عوام اور جہالت سے لڑ رہی ہے“۔ کچھ حد تک یہ بات ٹھیک بھی سمجھ لیں تو حکومت کو کم از کم اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ باقی تمام دنیا میں ایسا کیا ہے کہ وہاں کی دنیا اپنی حکومتوں کی تابع ہیں؟

ہمارے ایک انکل کچھ عرصہ ساوتھ افریقہ میں کام کیا اور وہ ہر بات پر وہاں کی مثال دیتے ہیں اور چونکہ جنوبی افریقہ بھی ہمارے طرح ہی غلامی کے دور سے نکل کر ترقی پر راہ پر پہنچا ہے اس لئے ان کی کا ایک واقعہ میں یہاں بتانا چاہتاہوں۔ انکل کنسٹرکشن کے شعبے میں ملازمت کرتے تھے اور اپنی کمپنی میں بطور سپروائزر کام کرتے تھے، انکل ہمیں اکثر جنوبی افریقہ کی لیبر پالیسی کا تذکرہ کرتے تھے اور وہاں کی انتظامیہ جس طرح سے اس پر عمل کرواتی اس کی مثالیں دیتے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ایک دفعہ حکومت نے ملک میں انڈوں کی کمی ہونے کی وجہ سے عوام سے اپیل کی کہ عوام انڈوں کا استعمال کم کر دی۔ ہماری کمپنی نے تمام سپروائزر کو لیبر کی خوراک کے ساتھ حکومت کا نوٹیفکیشن بھیج دیا۔ ہم نے فوراً اس پر عمل درآمد شروع کر دیایونین سے رابطہ کیا تو تما م یونینز نے حکومت کی ہدایت کو لبیک کہا اور موقف اختیار کیا کہ اگر چہ حکومت ہمیں دیکھ نہیں رہی مگر جس طرح سے حکومت لیبر پالیسی میں ہماری مانتی ہے ویسے ہی ہم بھی حکومت کی اس پالیسی کو مانیں گے۔

جہالت کہہ لیں یا عدم اعتماد تو دونوں صورتوں میں ہمیں سوچنا چاہیے اگر جاہلیت ہے تو سوال اٹھتا نیشن بلڈنگ کس کی ذمہ داری ہوتی ہے؟ اور اگر عدم اعتماد ہے تو آ ج تک تمام حکومتوں کے دور عدم اعتماد کی وجوہات جاننے کے لئے آپ کے سامنے ہیں مسئلہ یہ ہے کوئی بھی حکومت ہم اپنا قصور مانیں گے نہیں۔ تما م حکومتیں ایک ہی موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ مسائل زیادہ ہیں اور وسائل کم، مان لیا کہ وسائل کم ہے اور مسائل زیادہ تو بھائی میرا خیال ہے حکومتوں کے پاس مینڈیٹ مسائل کو حل کرنا کا ہی ہوتا ہے۔

کرونا کے بہانے ہی صحیح ہمیں نے سچ تو بولا، اب ان مسائل کو سٹریم لائن کر لیں اور خدا کرے یہ آ فت کم ہو تو ٹاپ فائیو مسئلوں میں سے ایک حکومت ایک مسئلہ بھی حل کر دے تو یہ بڑی اچھی اپروچ ہو گی۔ پاکستان اس وقت آ بادی کے اعتبار سے دنیا میں پانچواں بڑا ملک ہے اور ان پانچوں میں سے سالانہ برتھ ریٹ 2 % کے ساتھ پاکستان ٹاپ پر ہے۔ حالانکہ دیگر چار ممالک نے سالانہ برتھ ریٹ پر کافی حد تک قابو پاکر اپنے وسائل کو بڑھانے پر فوکس کیا ہوا ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں آ ج تک عربوں روپے خرچ کرکے خاطر خواہ نتائج نہ حاصل کیے گئے۔ کیونکہ اس مسئلے کی سنگینی کو سیریس لیا ہی نہیں جاتا۔

کرونا وائرس نے تقریباً دنیا کے تمام ممالک کو متاثر کیا اور متاثرین کے اعتبار سے اب تک پاکستان پینتسویں نمبر پر ہے۔ اگر ہم ٹاپ 50 ممالک کو دیکھیں تو ماسوائے انڈیا اور پاکستان کی حکومتوں کو اپنے اقدامات پر عمل درآ مد کروانے پر اتنی دشواری نہیں ہو رہی۔ ٹاپ پچاس میں سے غریب ممالک کو دیکھیں تو بالترتیب پاکستان میں 29.5 بھارت میں 21.9 ایران میں 18.7 اور انڈونیشیا میں 10.9 فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگیاں گزار رہیں۔

ہم اگران غریب ممالک کو ہی دیکھ لیں تو ان ممالک میں تقریباً سیاسی، سماجی، مذہبی اور معاشی مسائل ایک جیسے ہیں بلکہ ایران ان مسائل کے ساتھ ساتھ عالمگیر دنیا کی طرف سے لگائی گئی کچھ پابندیوں بھی ہیں اس سب کے باوجود بھی موجودہ آ فت زدہ ماحول میں تمام ممالک کی حکومتوں نے اپنے ملک کی عوام کو اس آفت سے بچانے اور اکانومی کو سہارا دینے کے لئے خاطر خواہ اقدمات کیے ۔ کچھ ممالک نے فور اً کچھ نے لگاتارعوام کے دکھوں کے مداوا کرنے کی کوشش کی

ہے۔ مگر ہم چونکہ پاکستان میں رہ رہے اور ہم سب گواہ حکومتی اقدمات کے ہیں۔ تو ایسے میں کیا غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کے مسائل کو عوامی سطح پر جہالت کے نام پر نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ پاکستان میں صرف پندرہ فیصد لوگ ہیں جو امیر ہیں ایسے میں 55 فیصد لوگ بھی ہیں جو اس آفت زدہ ماحول کا سفید پوشی سے مقابلہ کر رہیں ہیں جس طرح سے ان کی آ مدنی بند ہے اور ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتیں بڑھی ہوئی ہیں ان 55 فیصد کے مسائل بھی 29.5 فیصد لوگوں کی طرح ہی ہیں۔

ہمارے ملک میں تقریباً 63.89 ملین لوگ کام کرتے ہیں ان میں سے تقریباً 65 %زراعت اور انڈسٹریز سے وابستہ ہیں جبکہ ٹوٹل آباد ی کا 6 %بے روزگاری کا شکار ہیں۔ ہمارے ملک تو پہلے ہی لیبر فورس کی کمی تھی عام حالات میں بھی اتنی بڑی آبادی کے لئے وسائل پورا کرنا اس ملک کا مسئلہ تھا اب تو سارا ملک ہی بند پڑا ہے ایسے میں بائیس کروڑ لوگوں کی خوراک پورا کرنا ہی ایک سنگین مسئلہ بنا ہوا ہے اور آ ئندہ دنوں میں شاید کرونا سے زیادہ خوراک کی کمی کا مسئلہ شدت اختیار کر جائے گا۔ اب تک تو صاحب ثروت لوگوں، فلاحی تنظیموں اور ہمسائے کی محبت اور ذمہ داری کے جذبے نے لوگوں کو خوراک کی کمی کا شمار نہیں ہونا دیا مگر مہربانی کچھ عملی کام کریں نا ہو کہ جاہلوں کو عقل آ جاے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتیں وسائل کے نہ ہونے کا بہانہ بنا کر آفت زدہ ماحول میں سیاست سیاست کھیلیں گی اور سوائے ہیلپ لائن کبھی میسج سروس کے اجراء کے عملی طور پر کچھ نہیں کریں گی تو اور شخص اپنے اور پنے خاندان کے ضروریات زندگی پورا کرنے کے لئے گھروں سے نکلے تو اور کیا کرے۔ اور گھروں سے نکلنے کو جہالت کہو گے تو حکومتوں کی اور حکومتی نمائندوں کی تمام تر سہولتوں کے حاصل کرنے کے لئے گھروں سے نکل کر لائینوں میں لگوانے والوں کو کیا کہو گے؟

کرونا کے تدارک بارے پالیسی سے لے کر حکومتوں کی تعلیمی، لیبر، آبی وسائل، ٹیکس رجسٹریشن، اجناس خریداری، بانڈڈ لیبر، انسانی حقوق وغیرہ وغیرہ تمام پر عوام کی بڑی تعداد نے عدم اعتماد کیا ہے۔ اور یہ بات سمجھ آ تی ہے کہ کسی بھی عوامی حکومت نے آج تک عوام سے اعتماد کا رشتہ استوار نہیں کیا اور عوام نے کسی بھی پالیسی کی پاسداری نہیں کی۔ اس بات کی ایک چھوٹی سے مثال دفعہ 44 ہے جس پر آج تک عوام نے آج تک حکومتی اعلان کے بعد خود سے عمل نہ کیا ہے۔ اس لئے اس حکومتی بد اعتمادی کے مسئلے کو سمجھتے ہوئے عوام سے اعتماد کا رشتہ استوار کریں اور ان جاہلوں کو اس آفت میں سہولیات فراہم کرنے کے لئے عملاً کچھ کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments