متاع حیات


کافی دنوں بعد خود کو آئینے کے سامنے کھڑا کیا تاکہ جان سکوں کہ قرنیطنہ ہوتے ہوئے چہرے پر کیا گزری آئینہ میں اپنا عکس نظر آیا تو خود کو پہچان نہ پایا بڑھی ہوئی سفید ریش اور منہ سے اندر جاتی ہوئی مونچھوں نے ظاہر کیا کہ عمر ڈھلتی جا رہی ہے جوانی سے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ دیا ہے۔ بکھری زلفوں پر قلعی کا نقاب اترا تو عمر بے نقاب ہو گئی ایک بار پھر پسینے چھوٹنے شروع ہوگئے کہ یہ تو وہی عمر ہے کہ جس پر کرونا جان لیوا حملہ کرسکتاہے۔

اپنی عمر کا حساب کیا تو مخمصے میں پڑ گیا۔ ایسا لگا کہ کسی غلط فہمی کا شکار ہوں۔ لہذا اطمینان قلب کے لیے شناختی کارڈ دیکھنے کی کوشش کی تو کارڈ ندارد۔ تلاش بسیار کے بعد یاد آئی کہ وہ تو کب کا گم ہوا ہے۔ اتفاق سے شناختی کارڈ کی ایک مُڑی تڑی کاپی ہاتھ لگی تو درست سن پیدائش دیکھ کر گھبراہٹ دور ہوئی کہ ابھی ماہ و سال باقی ہیں۔ زلف تراش کو صوتی لہروں کے ذریعے اپنی حالت زار سے آگاہ کیا تو اس نے کورا جواب دیا کہ اگر یہی حال رہا تو مجھے آپ تک پہنچنے کے لیے پندرہ سے بیس دن لگ سکتے ہیں۔ اس کے جواب نے مایوسی پھیلا دی اسے کہا کہ اتنے دنوں کے بعد تو شاید ہم خود کو بھی نہ پہچان سکیں آپ کیسے شناخت کرو گے تو کہنے لگا کہ آپ اپنی نشانیاں بتائیں گے تو میں پہچان لوں گا۔

فون بند کر کے سوچ بچار شروع کی کہ اس مسئلہ فیثاغورث کا کوئی حل تلاش کیا جائے۔ اسی سوچ میں غرق تھا کہ واٹس ایپ پر بیگم کا فون آ گیا۔ حالت زار دیکھ کر ایک دم پردہ فرما گئیں اور کہنے لگیں کہ ان سے بات کروائیں۔ میں نے کہا کہ میں ہی وہ ہوں جن کی آپ کو تلاش ہے۔ شاید پہلی بار میری اس حالت پر ان کا حال غیر ہوئے جا رہا تھایاشاید انھیں میرا یہ رنگ و روپ بھانہیں رہا تھا۔ خیر کہنے لگیں کہ اسی لیے آج کل ایک خاتوں کا گنگنانا مشہور ہوا ہے۔ میں نے تجسس سے پوچھا کہ کیا گنگنا رہی ہیں۔ وہ؟ تو کہنے لگیں کہ۔

’بے وجہ گھر سے باہر رہنے کی ضرورت کیا ہے۔ ”۔
تو مجھے بھی شرارت سوچھی میں نے چٹ سے جواب دیا کہ
۔ ”پھر تمہی بتاؤ گھر میں رہنے کی صورت کیا ہے؟ “۔

کہنے لگیں کہ پورا تو سنیں۔ میں نے کہا چلو باقی بھی سنادو تو اس نے اگلا مصرعہ سنایا کہ
”سنا ہے۔ باہر کی ہوا بڑی قاتل ہے۔ “۔
میں نے پھر جواب دیا۔
”گھر کی آندھیوں میں بھی رہنے کی ضرورت کیا ہے۔ “

ابھی جواب الجواب شاعری چل ہی رہی تھی کہ ایک دوست نے کال کر دی جس سے بیگم صاحبہ سے رابطہ منقطع کرنا پڑھ گیا۔

آج کل صرف ایک ہی دوست ہیں جن سے سماجی فاصلے کے ساتھ تعلقات کار استوار ہیں۔ ہم اکثر شام کو بیٹھ کر اپنی تنہائی کا مقابلہ کرتے رہتے ہیں۔ کال پر کہنے لگے کہ میں راستے میں ہوں آج ہوا خوری کو دل کرتا ہے۔ میں نے انہیں بتایا کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تھانے کی ہوا کھانی پڑجائے تو ہنس کر بولے کہ ہم نے کون سا ساری پنڈی گھومنی ہے۔ آپ باہر نکلیں فٹ پاتھ پر ہی چہل قدمی کر لیتے ہیں۔

خیر ہم دونوں سڑک کنارے چہل قدمی کرتے کرتے تین کلو میٹر تک کا سفر طے کر گیے۔ خیر سے کسی نے کچھ نہیں پوچھا البتہ ایک دو جگہوں پر دیہاڑی داروں اور بے کس خواتین کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رویا۔ میرے دوست جواسلام آباد کے بڑے صحافی اور عدالتی رپورٹر ہیں، کے ساتھ سیاست، سماجیات، مذہب، کرونا کے سبب دنیا کے مستقبل پر پڑنے والے اثرات پر سیر حاصل گفتگو چلتی رہی۔

تین کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے واپس اپنی جگہ پر پہنچے کے بعد جب ہم نے ایک دوسرے کو بغیر مصافحہ کے الوداع کیا تو میرے ذہین میں ایک سوال پیدا ہوا کہ ہم مسلمان تھے اور ہمارا ایمان اور عقیدہ تو یہ تھا کہ تین بار ہاتھ دھو نے سے تو ہمارے ہاتھ تو بالکل شفاف ہو جاتے ہیں لیکن یہ کیا کہ آج ہم ہاتھ دھونے کے باوجود بھی ایک دوسرے سے ہاتھ نہیں ملا سکتے۔ کیا کرونا کی وباء ہماری صحت کے ساتھ ساتھ ہمارا ایمان بھی چھن کر چلی جا رہی ہے؟ یہی کچھ تو ہمارا متاع حیات تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments