تبلیغ والوں کا قافلہ اور میری لاٹری


میرے ایک کلائنٹ جو تبلیغی ہو گئے تھے مجھے ساتھ ملانے کی تمام تر کوشش میں بری طرح ناکام رھے۔ ایک دن اچانک میرے دفتر آ پہنچے۔ ساتھ میں جماعت کے کوئی سات افراد تھے جن میں سے ایک ان سب کا کوئی سینیئر معلوم پڑتا تھا۔ ان سے کہا ہو گا: “ایہہ بندہ میرے قابو نئیں آوندا، تسی کچھ کرو”

ان کا تپاک سے استقبال کیا، چائے آرڈر کی۔ فرمایا: “ہم آپ کے پڑوس کی مسجد میں آئے ہوئے تھے، سوچا آپ سے بھی کچھ بات کر لیں”۔ میں نے ان بزرگ سے عرض کیا کہ مجھے اندازہ ہے تھوڑا سا کہ بات کیا ہو گی اور میں اس کو کھلے دل سے سنوں گا بھی، مگر پہلے میرے ایک دو سوال ہیں اگر ان کا جواب مل جائے؟ وہ جوش اور خوشدلی کی آمیزش والے لہجے میں بولے، ضرور۔۔۔ ضرور۔۔۔ آپ بتائیں؟

میں نے کہا کہ مجھے آپ کی دعوت میں سے شدید تکبر کی بو آتی ھے۔ ان کیلئے یہ بات غیر متوقع تھا، جھٹکے کو جذب کرتے ہوئے بولے، وہ کیسے؟ اب کی بار میں نے فرمایا: “حضرت! آپ کی تمام تر دعوت اس مفروضے پر کھڑی ھے کہ آپ بالکل ٹھیک ہیں اور باقی سارے بڑے ہی غبی ہیں۔ مجھے اس پر بھی اعتراض نہیں، بس یہ بتا دیجئے کہ آپ کو بالکل ٹھیک ہونے کا سرٹیفیکٹ کس نے دیا ھے اور اسے جاری کرنے والے کی اتھارٹی کس قدر مستند ھے؟”

سوال سن کر گھبرا گئے، کہنے لگے میں تو خود کو بالکل بھی ٹھیک نہیں سمجھتا، میں تو بس اپنا سبق دہراتا ہوں۔ میں نے پوچھا کہ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ابھی آپ کو سبق یاد نہیں ہوا؟ کہنے لگے: کہاں جناب! اس کے یاد ہونے میں تو عمریں بیت جاتی ہیں ۔ میں نے عرض کیا کہ حضور آپ اپنا سبق براہ کرم اپنی کاسٹ (قیمت) پر یاد کریں، کچا پکا سبق لے کر مارکیٹ میں سادہ لوگوں کو خراب کرنے کیوں نکل پڑے ہیں؟

اب ان کے چہرے پر میں دوہری گھبراہٹ دیکھ رہا تھا۔ مجھے قائل کرنے سے زیادہ بڑا مسئلہ انہیں اپنے چیلوں کے سامنے اپنا امیج لگ رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ سبق کی تکمیل، جو کہ بقول آپ کے طویل سفر ہے، کے دوران یہ بھی تو ممکن ھے کہ آپ پر کھلے کہ یہ سبق ہی غلط تھا، اور آپ اس کو پھیلاتے بھی رہے۔ لاجواب سے ہو کر بولے: “چھوڑیں ہماری بات اور ہمارے راستے کو۔ آپ اپنا راستہ ہمیں بتائیں، ہم وہ اپنا لیں گے”۔ میں نے انہیں ساتھ لانے والے دوست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا: “اگر تنویر صاحب کا کروڑ روپے کا پرائز بانڈ نکل آئے تو کیا ہم سب جو یہاں بیٹھے ہیں ان سے یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ہمارا بانڈ بھی نکلوا دو؟” سب نے ہم زبان ہو کر “ہر گز نہیں” کہا۔ میں نے کہا آپ سب ایک منزل کی تلاش میں نکلے ہیں، مالک آپ کا رستہ اور منزل آسان بنائے کہ آپ بہت محنت کر رھے ہیں۔ میں جس راستے پر ہوں میں نے تو اسے پانے کیلئے ایک تنکا بھی دوہرا نہیں کیا۔ مجھے تو یہ راستہ لاٹری میں ہاتھ لگا ھے۔

مایوسی، حیرت اور پریشانی کی ملی جلی کیفیت میں پوچھنے لگے: “یہ راستہ لاٹری میں کیسے ملتا ھے؟” مجھے اسی صبح تحفے میں کوئی دوست ایک تختی دے کر گیا تھا جس پر عربی میں قرآن کی آیت اور اردو میں ترجمہ لکھا تھا۔ میں نے خاموشی سے وہ تختی ان کے سامنے رکھ دی۔ اس پر لکھا تھا: “اللہ جسے چاہے اپنے نور کی راہ دکھاتا ھے”۔

سجاد انور منصوری

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سجاد انور منصوری

سجاد انور منصوری ابلاغیات کے شعبے سے وابستہ ہیں، پڑھاتے بھی ہیں اور مختصر نویسی میں خاص مہارت رکھتے ہیں۔

sajjad-anwar-mansoori has 3 posts and counting.See all posts by sajjad-anwar-mansoori

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments