پاکستان میں جدید لسانی تحقیق کا رجحان


اسلام آباد میں جب بادل آسمان کا شب زدہ فرغل کھنگال کر اجلی صبح نکالیں تو ایسا لگتا ہے کہ شہر کا شہر تازہ ہو گیا ہے۔ سبزے کی خوش رنگی کو پھیلاتی بوندوں کا ٹمٹمانا دیکھیں تو بہت سی طلسماتی کہانیوں پر اعتبار آجاتا ہے۔ ایسی ہی ہر صبح کی قاش کا ذائقہ میری زبان پر تھا۔ بارش کے نظارے سے زیادہ اس کی جھنکار سرور دے رہی تھی۔ تیز رفتار گاڑی کا اس بوچھاڑ سے گزرنا کسی جھرنے سے ہوتے ہوئے جنگل کی گمنامیوں میں کھو جانے جیسا تھا۔مجھے ثروت حسین کا شعر یاد آ گیا۔

گھر سے نکلا تو ملاقات ہوئی پانی سے
کہاں ملتی ہے خوشی اتنی فراوانی سے
میں سیرو سیاحت کی غرض سے گھر سے نہیں نکلا تھا پھر بھی بارہا نظر آنے والے مناظر میرے لیے دلفریب تھے۔”۔مجھے لسانیات کے ریسرچ سنٹر جانا تھا۔ “کارپس لسانیات” کے سینڑ جو پوری تاب و تب کے ساتھ اپنا کام کر رہا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں زبان، ادب اور فنون کی مجموعی حیثیت کو یکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ ہم یہ بات ہی نہیں سمجھ پائے کہ بڑے افکار کی بنت اور اعلی اذہان کی تربیت اور نشونما میں زبان و ادب کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔

مختلف شعبوں کے ماہرین نے متعدزبانوں پر عبور حاصل کرنے اور ادب سے واقفیت حاصل کرنے کے بعد اپنے نظریات پیش کیے مثلاَ َ ڈاکٹر سگمنڈ فرائیڈ کا شمار نفسیات کے دبستان میں نام پیدا کرنے والے بڑے ناموں میں ہوتا ہے۔وہ ادب سے محبت کرتے تھے اور جرمن، فرانسیسی، اطالوی ، ہسپانوی، انگریزی، عبرانی، لاطینی اور یونانی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ چومسکی نے 16 سال کی عمر میں ، پنسلوانیا یونیورسٹی میں فلسفہ ، منطق اور زبانوں کی تلاش کی ، عربی سیکھنے میں بنیادی دلچسپی پیدا کی اور گھر میں رہتے ہوئے عبرانی زبان کی تعلیم حاصل کی۔

کارل مارکس افسانہ نگار، ناول نگار، شاعر اور ڈرامہ نگار ہونے کے ساتھ ساتھ انگریزی، اطالوی اور لاطینی زبان پر عبوررکھتے تھے۔اسی طرح علامہ اقبال اردو، عربی، فارسی اور انگریزی ادب کا نہ صرف گہرا مطالعہ رکھتے تھے بلکہ متعدد زبانوں پر بھی انھیں عبور حاصل تھا۔ پاکستا ن کے زرخیز ترین اذہان میں شمار کیے جانے والے جون ایلیا بھی عربی، فارسی، سنسکرت، اردو اور عبرانی زبان کے ماہر تھےہمیں غور کرنا چاہیے کہ موجودہ صورتِ حال میں ہم نے کتنے بڑے دماغ پیدا کیے ہیں؟ اور ہمارا نظامِ تعلیم نے سوچنے سمجھنے کی کتنی صلاحیت پیدا کرتا ہے؟؟

چلتے چلتے اسلام آباد کی ہری بھری اطراف میں گھری سڑک “ایئر یونیورسٹی” لے کر جا رہی تھی۔ مجھے وہاں کارپس لسانیات کی سربراہ اور بانی ڈاکٹر وسیمہ شہزاد سے کچھ وقت ملا تھا۔ ڈاکٹر وسیمہ شہزاد ” ڈین فیکلٹی آف سوشل سائنسز” ہونے کے ساتھ ساتھ بلند پایہ محقق اور نامور استاد بھی ہیں۔ ان کا شمار پاکستان میں کارپس لسانیات متعارف کروانے والی شخصیات میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کا دفتر کتابی مواد کے ساتھ ساتھ مختلف تہذیبوں سے منسلک آرائشی عناصر سے مزین تھا۔

رسمی بات چیت اور چائے کے بعدمجھے ” کارپس لسانیات “کے ریسرچ سنٹر میں جانے کا موقع ملا جہاں سنٹر کی منتظم ڈاکٹرسیدہ تحسین زہرا اور ان کے ساتھ ڈاکٹر اختر عباس بھی موجود تھے۔ کارپس ریسرچ سینٹر کی عمارت خوبصورت تھی اور اس کی داخلی آرائش کا بھی خصوصی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس کی کمپیوٹر لیب میں بیٹھے ریسرچ سکالرز پرسکون ماحول میں اپنا کام کر رہے تھے۔ “کارپس لسانیات ” دراصل زبان کے تجزیاتی اور تحقیقی مطالعے کا نام ہےجس نے متن کی تشریح کے نئے مباحث کوجنم دیا ہےاور زبان کی تفہیم کے نئے امکانات وضح کیے ہیں۔

محلِ استعمال ، موضوع اور متنی ساخت کی متنوع کیفیات میں الفاظ کی صورت گری کو موضوع بنایا ہے۔ اس کی بدولت الفاظ کے مخصوص برتاو سے اسلوبِ نگارش کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس طرز کی جدید لسانی تحقیق سے افکار کی سطح پر زبان کی مختلف جہتوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ “کارپس لسانیات” زبان کے تاریخی خزانے کو جنم دیتی ہے اور مختلف ادوار اور علاقوں کے لہجوں ، عوام و خواص کے لین دین، رہین سہن اور دیگر سماجی تلازموں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس پتا چلتا ہے کہ کسی زبان کا دیگر زبانوں سے کیا تعلق ہے۔نیز لغتوں کو مرتب کرنے کے لئے بھی اسے استعمال جا سکتا ہے۔

پاکستا ن میں” ایئر یونیورسٹی ” اور ” یونیور سٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور” میں کارپس لسانیا ت پر باقاعدہ کام کیا جا رہا ہے ۔ائیر یونیورسٹی میں قائم اس ریسرچ سینڑ نے انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو کارپس پر بھی کام کیا ہے ۔ گفتگو کے دوران ڈاکٹر تحسین زہرا نے کارپس کے تحقیقی جریدے کے کچھ والیم بھی عنایت کیے جن میں خصوصیت کے ساتھ قومی اور بین الاقوامی اہم موضوعات کے حوالے سےلسانی تحقیق کی گئی تھی جس سے یہ اندازہ ہو رہا تھا کہ یہ ادارہ جدید تحقیق میں رجحان ساز ثابت ہورہا ہے ۔

ڈکٹر وسیمہ اور ان کی ٹیم یقیناَ گراں قدر خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ مجھے اس مختصر سے وقت میں لسانی تحقیق کی کئی جہتوں کو جاننے کا موقع ملا۔ اگر ملک کے دیگر تعلیمی اداروں میں بھی زبان اور ادب کی تدریس، ترجمہ نگاری اور تحقیق کے لیے ایسے جدید سنٹر قائم کیے جائیں تو نہ صرف ہم دنیا کے بہتری علمی زخیری سے صحیح معنوں میں استفادہ کر سکیں گے بلکہ نئے علوم کی دریافت میں بھی کامیابی حاصل کر لیں گے۔

سید بابر علی زیدی
Latest posts by سید بابر علی زیدی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments