دس پندرہ دن: الہداد میرانی کے سندھی افسانے کا اردو ترجمہ



معمول کے مطابق میں رات دس بجے سو گیا۔ آنکھ لگے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی اور کسی اچھے خواب میں غلطان تھا کہ دروازے کی کال بیل ایسے بجنے لگی جیسے ہنگامی حالات نافذ ہو گئے ہوں۔ نیند اُڑ گئی۔ گھڑی کی طرف دیکھا تو ابھی ساڑھے گیارہ ہی بجے تھے۔ میں تیز تیز قدموں سے دروازے کی طرف بڑھا۔

”کون ہے؟ “ اندر سے ہی دریافت کیا۔
”میں ہوں۔ دروازہ کھولیے“ باہر سے جواب ملا۔
میں نے آواز پہچان لی کہ میرے گھر سے دو گھر دُور رہنے والی میری پڑوسن محترمہ تھیں۔ دروازہ کُھلتے ہی اندر آ گئیں اور پُوچھنے لگیں : ”بھیّا! بھابھی جاگ رہی ہیں؟ “

”آپ اندر تشریف لائیں۔ دروازے پر زنانہ آواز سُن کر ضرور جاگ گئی ہوگی۔ بھلے بیل کی آواز ناں بھی سنی ہو۔ “ میں بولا۔

اور ہُوا بھی ایسے ہی، کہ بیگم ڈرائنگ روم کا دروازہ کھولتی ہوئی باہر آ گئی۔ دونوں خواتین کو وہیں چھوڑ کر میں واپس خواب گاہ میں آ گیا اور اپنی نیند کا سلسلہ وہیں سے جوڑنے کی کوشش میں لگ گیا، جہاں سے مُنقطع ہوا تھا۔ ابھی دو منٹ بھی بمشکل گزرے تھے، اور نیند آئی ہی نہیں تھی کہ بیگم آن پہنچی، اور بولی: ”بھابھی آپ کو بُلا رہی ہیں۔ “

”خیر تو ہے! ؟ “
”خیر ہی تو نہیں ہے۔ اُن کی چھوٹی بہُو ہسپتال میں داخل ہے۔ کچھ پیسوں کی مدد لینے آئی ہیں۔ کہہ رہی ہیں دس پندرہ دنوں میں واپس کر دیں گی۔ “ بیگم بولی

”رمضان کا مہینہ سر پر ہے۔ سارا بجٹ اُوپر نیچے ہو جائے گا۔ “ میں زیرِ لب بولا
”چلیں، اُن سے چل کر بات کر لیں اور کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے جان چُھڑائیں۔ “
ہم دونوں ڈرائنگ روم کی طرف بڑھے۔ دروازہ کھولتے کے ساتھ ہی میں بولا: ”بہن، مبارک ہو! لڑکا ہوا؟ یا لڑکی؟ “

”بھیّا، ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ یہ تو بیماری ہی کوئی اور ہے۔ ڈاکٹرز کہہ رہے ہیں کہ آپریشن ہوگا، اور وہ بھی کل ہی۔ “ پڑوسن نے میری بات آدھی کاٹ کر جھٹ سے جواب دیا۔

”اللھ رحم کرے گا۔ “ میں نے تسلّی دی۔
”جی بھیّا! اللہ رحم کرے گا۔ مگر پیسوں کی ضرورت ہے۔ آپ کے بھائی نے بھیجا ہے آپ کے پاس۔ “
”بہن، کیا کہہ رہی ہیں! پیسوں کی ضرورت۔ اور آپ کو؟ جاوید پھر کس مرض کی دوا ہے؟ “ میں نے حیرانی سے پُوچھا۔

ان کا بیٹا جاوید حال ہی میں امریکا سے واپس آیا ہے، اور خود انہی لوگوں کے بقول کہ اپنے ساتھ پیسے بھی بے پناہ لایا ہے۔

”بھیّا! کہہ تو آپ بالکل ٹھیک رہے ہیں، کہ جاوید کے ہوتے ہوئے ہم دُوسروں سے پیسے مانگ رہے ہیں۔ مگر وہ اپنی اس بھابھی کے لیے ایک دھیلا بھی خرچ کرنے کو تیّار نہیں ہے۔ وہ کہہ رہا ہے کہ بھلے میری بلا سے مر جائے، مگر میں پیسے نہیں دوں گا۔ ابھی پھر کل پرسوں ہی دونوں میں جھگڑا ہوا ہے۔ وہ لڑکی بھی تو باز نہیں آتی۔ “ پڑوسن گویا ہوئیں۔

”بہن، آپ کو تو معلوم ہے کہ اب میں ریٹائر ہو گیا ہوں۔ اوپر سے رمضان کا مہینہ بھی آنے کو ہے۔ رمضان میں اخراجات ویسے ہی بڑھ جاتے ہیں۔ کیا کیا جائے! “ میں نے گزارشِ احوالِ واقعی کی۔

”بھائی، زیادھ پیسے نہیں درکار۔ صرف دس ہزار روپے کم ہیں۔ اگر آپ کے پاس نہیں ہیں تو جاوید سے ہی لے کر دے دیں۔ وہ آپ کو انکار نہیں کرے گا۔ ہاں بس، ہمارا مت بتائیے گا۔ “ بولی

میں نے دل میں سوچا کہ یہ بات ٹھیک ہے۔ اس طرح سے ان ہی کا پیسہ ان کے کام آ جائے گا اور مجھے ثواب مفت میں مل جائے گا۔

”ٹھیک ہے بہن، صبح ہی جاوید کو بولتا ہوں۔ پیسے ملتے ہی آپ کو بھجوا دوں گا۔ “ میں محترمہ کو نے تسلی دی۔

”بہت بہت شکریہ بھیّا! بس وہی ایک گزارش ہے کہ جاوید کو اصل بات کا پتا بالکل بھی نہیں چلنا چاہیے، ورنہ وہ ایک پیسہ بھی نہیں دے گا۔ یہی نہیں بلکہ گھر میں جھگڑا الگ سے کھڑا ہو جائے گا۔ “ وہ پُر امید انداز جانے کے لیے اٹھتے ہوئے بولیں۔

اس پابندی نے جیسے میرے ہاتھ پاؤں باندھ دیے۔ اس کے باوجُود میں نے رقم کی واپسی کے بارے میں دریافت کیا۔

بولی: ”بھیّا، آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ آپ کے بھائی نے پی۔ سی۔ او۔ کی دکان واپس کر دی ہے، اس دکان کے سیفٹی ڈپازٹ کی مد میں جو تیس ہزار روپے کی رقم مالکِ دکان کے پاس جمع ہے، وہ ملنی ہے۔ آج ملی کہ کل ملی۔ بس یوں سمجھیں کہ اس رقم کی واپسی میں بمشکل زیادہ سے زیادہ دس پندرہ دن لگیں گے۔ “

یہ فرما کر محترمہ روانا ہو گئیں۔ صبح ہوتے ہی میں نے جاوید کو اپنی ضرورت کا بتاتے ہوئے مطلُوبہ رقم کا تقاضا کیا۔ اس بیچارے نے میری بات کا مان رکھتے ہوئے اسی وقت رقم میرے حوالے کر دی، جو میں کچھ ہی دیر میں چُھپتے چُھپاتے اسی کے والد کے حوالے کر آیا۔ عجیب دن دیکھنے پڑے کہ ایک نیک کام کے لیے ایک گھر کے پیسے اُسی گھر میں چوروں کی طرح پہنچانے پڑ گئے۔ میں نے حفظِ ماتقدّم کے طور پر جاوید سے رقم کی واپسی کے لیے دو ہفتوں کے بجائے، ایک مہینے کا وعدہ کیا، تاکہ مجھے ہی اگر رقم دیر میں ملے تو جاوید کے آگے شرمندہ نہ ہونا پڑے۔

خیر سے ایک ہفتہ گزرا۔ دس دن گزرے۔ پندرہ دن گزرے۔ مگر کوئی آواز نہیں آئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے رمضان کا مبارک مہینہ بھی بِیت چلا۔ بڑے صاحب اب تو ملنے سے بھی کترانے لگے۔ اتّفاق سے عیدالفطر کے دن محلے میں سامنے ٹکرا گئے۔ عید ملنے کی غرض سے گلے لگاتے ہوئے میں نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔ معذرت کرتے ہوئے دُکھڑا بیان کرنے لگا:

”بھائی، کیا کروں! پی۔ سی۔ او۔ والے نے تو حد کر دی ہے۔ اب وہ نوابشاہ شفٹ ہو گیا ہے۔ مجھے فرصت مِل نہیں رہی کہ میں اپنی رقم لینے اس کے پاس نوابشاہ جاؤں۔ اور وہ یہاں آ نہیں رہا۔ بس کچھ دن ٹھہرو۔ تو تمہارا کام یہیں کر لوں گا۔ کسی جگاڑ میں لگا ہوا ہوں۔ “

مجھے اس کی اس قدر لاپرواہی پر ایک ترکیب سُوجھی۔ میں نے پھٹ سے اسے کہہ دیا: ”میں ایسا کر لیتا ہوں کہ جاوید کو بتا دیتا ہوں کہ میں نے اُس کے پیسے اُس کے گھر جا کر واپس دیے ہیں۔ تم سے اگر وہ پوچھے تو بول دینا کہ ہاں، پیسے واپس مل گئے تھے، مگر گھر کے اخراجات میں کہیں خرچ ہو گئے ہیں۔ “

”نہیں۔ نہیں۔ ایسا ظلم ہرگز مت کرنا۔ “ اس نے میری نامکمّل بات کاٹتے ہوئے چِلّا کر کہا۔
”۔ اس طرح وہ اصل بات سمجھ جائے گا۔ جو ہم نے اُس سے چھپائی ہے۔ اس کو شک تو پہلے سے ہی ہے۔ اور اگر اُسے یقین ہو گیا تو وہ غصے میں گھر ہی چھوڑ کر چلا جائے گا۔ جو ہم دونوں ماں باپ سے برداشت نہیں ہو سکے گا۔ “

”مگر یار، جاوید تو جب جب سرِ راہ مل رہا ہے، تو مجھ سے رقم کا تقاضا کر رہا ہے۔ مُجھے بتاؤ، میں کیا کروں۔ “ میں نے کمزور آواز میں کہا۔

”بس، اسے یہ دس پندرہ دن انتظار کرنے کا بول دو۔ امید ہے کہ کام ہو جائے گا۔ میں بھی تمہاری خاطر نوابشاہ چلا ہی جاتا ہوں۔ “ بزرگ نے گویا اپنی دریا دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا، جیسے وہ اگر ایسا کرے گا بھی، تو جیسے مجھ پر احسان کرے گا۔

مگر، کام حسبِ توقّع، اب کی بار بتائے ہوئے دنوں کے اندر بھی نہیں ہوسکا۔ میں نے مسلسل یہ سوچ کر کہ محض چند ہزار روپوں کی وجہ سے پڑوس کے نوجوان لڑکے کے سامنے مجھے شرمندگی کا سامنہ کرنا پڑ رہا ہے۔ لہٰذا بہتر یہی ہوگا کہ میں اپنی جیب سے ہی جاوید کو رقم کی ادائیگی کر کے اپنی جان چھڑوالوں۔ پھر امید ہے کہ مہینے ڈیڑھ میں بالآخر اس کا ابّا بھی پیسے واپس کر ہی دے گا۔ میں نے ایسا ہی کیا اور جاوید کو اپنی طرف سے روپے دے کر اپنی تو جان چُھڑا لی۔ اور پھر اپنے پیسوں کی وصولی کے لیے سر توڑ کوشش کی، مگر اب رقم واپس کرنے والوں کا ملنا ہی جُوئے شیر لانے کے مترادف بن گیا، اور وہ رقم، جو ”دس پندرہ دنوں“ کے لیے مجھ سے طلب کی گئی تھی، وہ آج تک مجھے نہیں ملی اور وہ ”دس پندرہ دن“ ابھی تک نہیں گزرے۔

گورے نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ ”آنے والا کل کبھی نہیں آتا۔ “
یہ تو پھر ”دس پندرہ دن“ تھے۔ وہ تو ویسے بھی کبھی آنے ہی نہیں تھے۔

ترجمہ: یاسر قاضی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments