ہماری معاشرتی فالٹ لائنیں اور کروناکی وبا


زیرِ نظر تحریر در اصل پہلی تحریر کا تسلسل ہے جس میِں مَیں نے لکھا تھا کہ آفات ہمارے لیے قدرتی لیبارٹری کا کا م سر انجام دیتی ہیں۔ بحرانی حالات میں سماجی خوبیاں او ر خامیاں سمندری جھاگ کی طرح معاشر تی سطح پر آ جاتی ہیں او ر ان کا تجزیہ کرنا قدرے آسان ہو جاتا ہے۔ کامیاب معاشرے نہ صرف آفات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں بلکہ ان میں اتنی لچک (Resilience) ہوتی ہے کہ بہت جلد نہ صرف پہلے والی حالت پر واپس آتے ہیں بلکہ مصیبت کے دوران حاصل ہونے والے تجربات کو اپنی پالیسی کا حصہ بناتے ہیں۔

صورتِ شمشیر ہے دست ِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
(اقبال)

اس کے برعکس کمزو ر معاشر ے ایسے حالات کے سامنے دب جاتے جس کے اثرات صدیوں بعد بھی ذائل نہیں ہوتے۔ وہ مصیبت سے وقتی طو ر پر جان چھڑا نے کے بعد اس سے دیر پا سبق حاصل نہیں کرتے اور نہ ہی ان میں ایسا کرنے کی سکت ہو تی ہے۔ جب اگلی آفت انہیں آن پکڑتی ہے تو پھر نئی مصیبت کے ساتھ ساتھ پرانے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے جن سے ماضی میں سبق حاصل کر نا درخو ر اعتنا نہ سمجھا گیا۔ ایسے معاشروں کی بنیاد میں دراصل کچھ ایسی معاشرتی فالٹ لائنیں موجو د ہوتی ہیں جو مصیبت سے نبرد آزما ہونے میں نہ صرف شدید رخنہ ڈالتی ہیں بلکہ اس کے مضر اثرات کو مزید گہرا کر دیتی ہیں۔

آج سے آٹھ سو سال قبل مسلمان مفکر ابن خلدون نے اپنی کتاب۔ ”مقدمہ“ میں انسانی معاشروں کے کو سمجھنے کے لیے سائنسی طریقہ متعارف کرایا جس کو دنیا آج بھی ایک مستند سائنسی طریقہ مانتی ہے۔ ابن خلدون کے مطابق معاشروں کے عروج و زوال کو سمجھنے کے لیے صرف معاشروں کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ ضروری نہیں بلکہ ان کی سماجی تاریخ، جغرافیائی خدو خال، معاشرتی تعلقات، آب و ہوا، مذہبی میلانات، مادی ترقی، اخلاقی معیار او ر لوگوں کے شخصی خواص کے متعلق جاننا بھی ضروری ہے۔

دنیا میں پائے جانیوالے ہر معاشرے کی ایک مخصوص ہیئت ہے جس کو معاشرتی ساخت کہا جاتا ہے۔ یہ معاشرتی ساخت کسی بھی معاشرے کے مخصوص تاریخی ورثے کی پیداوا ر ہے اور ا۔ ن عوامل کے نتیجے میں و جود میں آتی ہے جن کا ذکر ا بن ِ خلدون نے کیا۔ یہی معاشرتی ساخت دراصل معاشرتی تعلقات (Social relationships) نوعیت کو متعین کرتی ہے اورمعاشرے میں نئے پیدا ہونے والا حالات پر بھی اثر اندز ہوتی ہے۔ یہ معاشرتی تعلقات انصاف، برابری، بھائی چارہ او ر مذہبی رواداری پر مشتمل بھی ہو سکتے ہیں یا اس کے بر عکس بھی۔

پاکستانی معاشرے کی سیاسی و معاشرتی تاریخ ہم سب پر عیاں ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے سماجی تشخص او ر معاشی خود مختاری کے لیے ایک آزاد ملک حاصل کیا۔ عام لوگوں کے ذہن میں تھا کہ نئی مملکت ان کی امنگوں او ر خواہشات کا ترجمان ہو گی۔ لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ پاکستان بنتے ہی اس ملک کے سیاسی و سماجی وسائل ایک مخصوص طبقے کے ہاتھ میں چلے گئے۔ انگریزوں نے جاتے جاتے اپنے اپنے وفاداروں کو جاگیریں عطا کی جو آج تک اس ملک کے سیاسی و سماجی افق پر براجمان ہیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے یہ مخصوص طبقہ معاشرے کے تمام پہلوؤں کا مالک بن بیٹھا۔ اس جاگیردارانہ طبقے نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ مل کر عام لوگوں کے ساتھ خوب کھلواڑ کیا۔ ان دو انسان دشمن نظاموں کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے مملکتِ خداد میں معاشرتی تفریق کی خلیج بڑھتی چلی گئی۔ پاکستانی معاشرہ دو طبقوں میں تقسیم ہو گیا جو کہ اب بڑھ کے د و سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ طبقہء اشرافیہ نے اپنی مخصوص ضروریات کو پور ا کرنے کے لیے ایک ایسا معاشرتی نظام تشکیل دیا جس سے وہ بھر پو ر فائدہ اٹھا سکے۔

اس مٹھی بھر طبقے نے معاشرے کے بنیادی ادارے جیسے تعلیم، خاندا ن و برادری، معیشت، قانون ا ور مذہب وغیرہ کو ا پنی مرضی و منشاء کے مطابق استعمال کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ نظام مزید پختہ ہو گیا۔ معاشرے میں ا س نظام کی جڑیں اتنی مضبوط ہو گئیں کہ لوگوں نے اسے قدرت کی تقسیم سمجھ کر قبول کر لیا او ر متبادل سوچ کی صلاحیت سے ہاتھ د ہو بیٹھے۔

خواجگی میں کوئی مشکل نہیں رہتی باقی
پختہ ہو جاتے ہیں جب خو ئے غلامی میں غلام
(اقبال)

اس تاریخی عمل کے نتیجے میں طاقت چند ہاتھوں میں مرکو ز ہو کے رہ گئی۔ مختلف طبقات میں خلیج بڑھتی گئی۔ معاشرتی ناہمواری نے لوگوں کے لطیف جذبات جیسے خود داری، احترامِ آدمیت، برداشت او ر اخوت کو زنگ آلود کر دیا۔ معاشرے کا بیشتر طبقہ جسم او ر روح کا رشتہ بر قرار رکھنے کی سعی میں لگ گیا اور اسے زندگی کا پہلا او ر آخری مقصد سمجھ بیٹھا۔ اس پر مصداق یہ کہ سر مایہ دارانہ نظام نے لوگوں کو ایسا جکڑا کہ سرمائے کو انسانی ضروریات کی آخری کنجی بنا دیا۔

اس نظام نے انسان کی ہر قسمی ضروریات کو جنس (Commodity) میں تبدیل کر دیا۔ حتیٰ کہ انسانی مسکراہٹ جیسے لطیف جذبے کو بھی ایک بکنے والی جنس میں تبدیل کر دیا۔ کارل مارکس نے سرمایہ دارانہ نظام میں پیسے کی مرکزیت کو سب سے بڑی لعنت قرار دیا او ر زَ۔ ر کو Least common denomintor قرار دیا جو ہر معاشرتی ضرورت کا غیر ضروری اور غیر فطری متبادل بن گئی۔

ائے زر! تو خدا نیست و لیکن بخدا
ستارا لعیوبی و قاضی الحاجاتی!
(اقبال)

اوپر بیان کیے گئے سیاسی و سماجی اور تاریخی ورثے نے پاکستانی معاشرے میں بے پناہ فالٹ لائنیں پیدا کی ہیں جو کہ آفات کے دنوں میں خم ٹھونک کر سامنے آ جاتی ہیں او ر مصیبت کی شدت او ر منفی اثرا ت کو کئی گنا بڑھا دیتی ہیں۔ یہ فالٹ لائنیں معاشرے کی کلی (Macro) اور جزوی (Micro) دونوں سطح پر پائی جاتی ہیں۔ اس مضمون میں اِن سب کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ آئیے چند بڑی معاشرتی فالٹ لائن کا سابقہ قدرتی آفات او ر کرونا بحران کی روشنی میں سر سری جائزہ لیتے ہیں۔

1۔ موروثی سیاست ہماری معاشرتی ساخت کا ایک بہت بڑ ا عنصر ہے۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے چند خاندان سیاسی افق پر نسل د ر نسل برا جمان ہیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ یہی سیاسی خاندان معاشرتی، معاشی او ر کاروباری میدان میں بھی حاوی ہو گئے۔ جس نتیجے میں طاقت ان کی غلام گردشوں کی لونڈی بن کے رہ گئی۔ طاقت کی مرکزیت نے احتساب (Accountablity) او ر شفافیت (Transparency) کو نا ممکن بنا دیا ہے۔ حکمران طبقہ اپنے آپ کو تمام معاشرتی بندشوں سے بالا تر سمجھنے لگا۔

عوام اور خواص کے د و طبقے پیدا ہو گئے۔ ایک حاکم اور دوسرا محکوم، ایک آقا اور دوسرا غلام۔ ایک ووٹ لینے والا اور ایک ووٹ دینے والا۔ ایک طبقہ Haves اور ایک طبقہ Have Nots کا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہر طبقے کے لیے علیحدہ سماجی حلقہ (Social sphere) وجود میں آیا او ر دونوں کے درمیان معاشرتی اور نفسیاتی خلیج گہری ہوتی چلی گئی۔ ان معاشرتی ناخداؤں نے اپنے لیے بڑے بڑے محلات تعمیر کرائے اور خلقِ خدا کو کوسوں دو ر رکھنے کے لیے نخوت، اور خو د پرستی کی اونچی فصیلیں کھڑی کی اور مسلح چوکیدا ر بھرتی کیے۔

بٹھا کے عرش پہ رکھا ہے تو نے ائے واعظ
خدا وہ کیا ہے جو بندوں سے احتراز کرے
(اقبال)

بحرانی صورت ِحال میں بھی اس معاشرتی عنصر کے بد ترین اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مثلًا جب پاکستان میں 2005 ء اور 2010 ء میں تباہ کن زلزلے اور سیلاب نے تباہی مچائی تو دنیا ہمار ی طرف متوجہ ہوئی۔ عام پاکستانیوں نے بھی بڑھ چڑھ کر ایثار کا ثبوت دیا۔ بڑے پیمانے پر آنے والی آفات ایثار (Altruism) کو مہمیز دیتی ہیں او ر وقتی طور پر ایک ”درد آشنا معاشرہ“

(Therapeutic community) وجود میں آتا ہے۔ عوام کے اس جز وقتی رسپانس کو سائنسدانوں نے آفات کا ہنی مون پیریڈ

(Honey moon period) قرار دیتے ہیں جو ر یسکیو او ر ریلیف

(Rescue and relief) آپریشن کے درمیان ہی اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ بالآخر تمام تر ذمہ داری حکومتی اداروں اور حکمران طبقے پر ا ٓ جاتی ہے جن کی کارکردگی پر بہت سے سوالیہ نشان اٹھتے رہتے ہیں۔

مثال کے طور پر زلزلے اور سیلاب کی مد میں آنیوالی غیر ملکی امداد کی منصفانہ تقسیم پر ابھی بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک برطانوی اخبار نے ایک پاکستانی سیاستدان پر الزام لگایا کہ انھوں نے زلزلے کی مد میں بیرون ملک سے آنیوالی امداد میں خورد برد کی ہے۔ موصوف ابھی تک اس اخبار کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کر سکے۔ 2010 کے تباہ کن سیلاب نے ایک تہائی آبادی کو متائثر کیا۔ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے دنیا بھر کے لوگوں نے عطیات دیے جس کو مقامی سیاستدانوں نے اپنا سیاسی اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔ مصنف نے جب 2010 ء کے سیلاب زدگان پر تحقیق کی تو امدادی سامان کی نا منصفانہ تقسیم کی بہت سی مثالیں سامنے آئیں بلکہ کچھ امداد اشرافیہ نے اپنے ذاتی استعمال میں بھی لائی او ر اس۔ ۔ ۔ ”اشرافیائی خورد برد“

) (Elite capture of disaster aid کو ایک بین الاقوامی تحقیقی ادارے نے بھی رپورٹ کیا۔ اس رپورٹ کے کچھ مندر جات ملاحظہ فرمائیں۔

“There were clear signs of preferential, discriminatory treatment of some flood-affected communities over others in the same areas in the distribution of tents, food, medical supplies and other necessities. The skewed nature of aid distribution was attributed largely to the traditional feudal system, in which some landlords – many of them connected to or representing political parties – favoured their own political constituents over those of their opponents in directing or facilitating aid distribution.”
(https://www.tandfonline.com/doi/full/10.1080/15423166.2012.719331)

ترک صدر کی اہلیہ کی طرف سے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے تحفے میں دے گئے ہار Necklace کی کہانی تو سب کو معلوم ہو گی۔ ایسی صورت میں دنیا کا ہم پر اعتبار اٹھ جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ اب بھی مختلف حلقوں سے آوازیں آ رہی ہیں کہ امدای اشیاء سیاستدانوں کی بجائے فوج کے ذریعے تقسیم کی جائیں۔

کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے راہنما کرے کوئی (غالب)

2۔ معاشرتی نا ہمواری ہمارے معاشرے کا بہت بڑا نا سور ہے۔ پاکستان میں سیاسی طاقت اور دولت کا ارتکاز ایک ہی سکے کے د و رخ ہیں۔ وطنِ عزیز بد ترین معاشرتی ناہمواری کا آئینہ دار ہے۔ ہمار ے ہاں معاشرتی ناہمواری کی شرح 1 : 30 کی ہے جب کہ برطانیہ میں یہ شرح 1 : 13 کی ہے۔ یعنی ہمارے ہاں امیر کے تیس روپے کے مقابلے میں غریب صرف ایک روپیہ کماتا ہے۔ یہ شدید قسم کی معاشرتی نا ہمواری ) (Gross social inequality نے مختلف طبقات کو جنم دیا ہے جن کی دلچسپیاں، مشاغل، لائف اسٹائل، تعلیمی ادارے اور رہائشی کالونیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

یہ جغرافیائی تفریق (Geographical segregation) شاید دنیا کے کم معاشروں میں پائی جاتی ہو۔ گزرتے وقت کے ساتھ معاشرتی تفاوت کی یہ لکیر مزید گہری اور ناقابل ِ عبور ہوتی جا رہی ہے۔ آفات کے دنوں میں یہ لکیر مزید واضح ہو جاتی ہے۔ جب کوئی بحرانی کیفییت سامنے آتی ہے تو اس کا سب سے زیادہ اثر معاشرے کے نچلے طبقے پر پڑتا ہے۔ کیوں کہ یہ طبقہ زیادہ غیر محفوظ حالات ( (Vulnerable conditions میں رہنے پر مجبور ہے۔

مثلاً دنیا کے سب سے زیادہ غریب لوگ سیلابی علاقوں اور زلزلے کی زد میں آنیوالی مخدوش عمارتوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ یہ عمارتیں ایک جھٹکے میں زمیں بوس ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح اگر موجودہ تناظر میں دیکھا جائے تو معاشرے کا کمزور ترین طبقہ زیادہ گنجان آبا د علاقوں میں رہائش پذیر ہے جہاں کرونا کے پھیلنے کے خطرات بہت زیادہ ہیں۔

3۔ فرقہ و اریت ہمیں دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ پچھلی کئی دہائیوں سے مختلف مذہبی فرقے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور اپنے فرقے کو سچا ثابت کرنے کے لیے شد و مد سے د ست و گریباں ہیں۔ 1980 ء کی دہائی میں فرقہ واریت ایک وبا کی شکل اختیار کر گئی جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ لقمہء اجل بن گئے اور ہمارے معاشرتی تعلقات زنگ آلودہ ہو گئے۔ لوگ ایک دوسرے کو فرقے کی بنیاد پر تعلقات قائم کرتے ہیں اور یوں مذہبی اقرباپروری نے جنم لیا۔

فرقہ بازی کی وجہ سے بعض اوقات میرٹ کا قتل ہوتا بھی دیکھا گیا ہے جس سے مذہب بیزاری جنم لیتی ہے۔ کرونا جیسی آفت کے دو ر میں بھی فرقہ واریت کے اثرات نظر آ رہے ہیں۔ پچھلے کئی دنوں سے مختلف فرقے ایک دوسرے کو کرونا پھیلانے کا ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ مصیبت کی گھڑی میں اس طرح کی الزام تراشی ایک ”گلے سڑے“

(Corrosive community) معاشرے کی عکاس ہے۔ یہ مذموم مہم ہمیں مزید کمزور کرے گی اور نفرت کی دیواریں اونچی ہوں گی۔ اقبال نے ہمیں بہت پہلے خبردار کیا تھا۔

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

4۔ غربت ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی لعنت ہے۔ دولت کا غیر فطری ارتکاز، ڈالر کی بڑھتی ہوئی قد ر و قیمت اور روپیہ کی گرتی ہوئی ساکھ نے غریب کا جینا د و بھر کر دیا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ صورتِ حال مزید سنگین ہوتی جا ر ہی ہے جس کی وجہ سے بہت سے پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ اس وقت کم و بیش چالیس فی صد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہی ہے۔ میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کہ آفات کا سب سے زیادہ شکار معاشرے کا نچلا طبقہ ہوتا۔

معاشرے کا کمزو ر ترین طبقہ ُپر۔ خطر جگہوں (Hazard prone spaces ) میں رہنے پر مجبور ہے۔ مثلًا دنیا کے بیشتر لوگ جو سیلاب کی تباہ کاریوں سے متائثر ہوتے رہتے ان میں سے اکثریت سیلابی علاقوں (Flood prone areas) میں رہنے پر مجبور ہے کیوں کہ ایسے علاقے ان کے مویشییوں کے لیے مفت چارہ مہیا کرتے ہیں جس کی قیمت وہ سیلاب کی صورت میں چکاتے ہیں۔ ایسی بات نہیں ہے کہ یہ لوگ ان خطرات سے آگاہ نہیں ہیں۔ انسانی نفسیات کے ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسان بنیادی طور پر Risk aversive ہے۔

دراصل سماجی اور مالی مجبوریاں انہیں محفوظ جگہوں پر Relocate ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ دوسری آفات کی طرح کرونا بھی معاشرے کے کمزو ر طبقے کو سب سے زیادہ متائثر کرے گا۔ خدشہ ہے کہ اس کی وجہ سے پید ا ہونے والی صورتِ حال کے نتیجے میں مزید لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ بات یہیں پر آ کر ختم نہیں ہو جاتی۔ اگر کمزور طبقے کا خیال نہ رکھا گیا تو وہ روح او ر جسم کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے لاک ڈاؤن جیسی بندشوں کو توڑ کر باہر آ جائیں گے جس کے نتائج سے ہم سب بخوبی آ گاہ ہیں۔

5۔ گورننس کا اچھا معیار آفات کے اثرات کو کم کر سکتا ہے۔ ہر معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بحرانی حالات سے فائدہ اٹھانے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔ مصیبت زدہ عوام کی مجبوریوں سے کھیلنے والے ایسے مٹھی بھر افراد ایک ایسے ”معاندانہ معاشرے“ Anatgonistic community ) ( کی بنیاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں افراد اپنی بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو سکتے ہیں۔ ضروریاتِ زندگی کی اشیاء اور دوائیوں کی ذخیرہ اندوزی، نا جائز منافع خوری اور امداد کے نام پر فراڈ جیسے مکروہ اور بھیانک دھندے کی بروقت اور موئثر سر کوبی صرف اور صرف اچھے طرزِ حکمرانی کے ذریعے ممکن ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمار ا سیاسی ڈھانچہ

(Political apparatus) اپنی پوری صلاحیت استعمال کرنے سے قاصر ہے۔ نو آبادیاتی دور کا افسر شاہی نظام اور بلدیاتی حکومتوں کی عدم موجودگی میں ان اقدامات کو ان کی صحیح روح کے مطابق عملی جامہ پہنانا ناممکن لگتا ہے۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ کسی بھی معاشرے کے اخلاقی نظام کو بہتر بنانے کے لیے صرف او ر صرف ترغیب اور اخلاقی تعلیم کافی نہیں ہے۔ اگرچہِ ترغیب (Pro۔ social modelling) کے اثرات سائنسی طور پر ثابت ہوئے ہیں لیکن اس کی بنیاد پے ایک اعلٰی اخلاقی نظام نہیں کھڑا کیا جا سکتا جب تک کہ سزا ا ور جزا کا موئثر اور سخت عدالتی نظام موجو د نہ ہو۔ اگر حکومت سماج دشمن عناصر کی بر وقت سر کوبی نہیں کرتی تو حالات بگڑ سکتے ہیں اور عام استعمال کی اشیاء لوگوں کی پہنچ سے دور ہو جا ئیں گی۔

حکومت کو تاجروں کو سخت پیغام دینا ہو گا اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام عام حالات کی نسبت زیادہ سخت کرنا ہو گا۔ اس سلسلے میں سول سوسائٹی سے مدد لی جا سکتی ہے کیوں کہ قانون نافظ کرنے والے اد ارے لاک ڈاؤن پر عملدرآمد کرانے میں روبہء عمل ہیں۔ وفاق او ر صوبوں کے درمیان کھینچا تانی بھی کرو نا کے اثرات کو د و چند کر سکتی ہے۔

6۔ تقدیر پر اندھا یقین (Fatalism) انسان کو سست اور کاہل بنا دیتا ہے اور وہ مسائل کی تہہ تک پہنچنے کی بجائے انھیں خدا کی مرضی قرار دے کر فرار کی راہ اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مذہب کی غلط تشریح کی وجہ سے ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ اب بھی اس آفت کو خدا کا امتحان سمجھ کر صرفِ نظر کر رہے ہیں۔ اگر ان کی بات کو صحیح مان لیا جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ امتحان صرف معاشرے کے کمزور طبقے سے کیوں لیا جاتا ہے؟

طاقتور طبقہ اس امتحان سے نبرد آز ما ہونے میں کیونکر کامیاب ہو جاتا ہے؟ بہت سے لوگوں سے یہ بھی کہتے سنا گیا کہ کرونا ان کا کچھ نھیں بگاڑ سکتا۔ ایسی سوچ انھیں احتیاتی تدابیر اختیار کرنے سے روکتی ہے۔ اس طرح کا غیر سائنسی رویہ معاشرے کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے جس کی کچھ مثالیں ہمارے سامنے آنا بھی شروع ہو گئی ہیں۔ پاکستانی معاشرے پر تحقیق کے بعد سامنے آیا ہے کہ یہاں زیادہ تر لوگ آفات کو عقائد کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس معاملے میں ہمیں اپنی ا صلاح کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ اگرچہ آفات انسانی طاقت اور وسائل سے باہر ہوتی ہیں، مگر احتیاتی تدابیر کے ذریعے ان کی شدت اور اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے۔

خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
(اقبال)

اوپر بیان کی گئی معاشرتی فالٹ لائنیں ہمارے مسائل کی مکمل عکاس نہیں ہیں۔ لیکن یہ چند بڑے مسائل ہیں جن کی طرف میں نے نشاندہی کی ہے۔ اگرچہ کرونا کی وجہ سے دنیا کے حالات بہت دگرگوں ہیں لیکن میرا یقین ہے کہ انسان کو سب سے زیادہ خطرہ انسان سے ہے۔ اس تحریر کا مقصد قارئین کے دل میں خوف و ہراس پیدا کرنا نہیں ہے اور نہ ہی قنوطیت کو ابھارنا ہے۔ دراصل یہ ہماری سماجی حقیقتیں ہیں جن سے اعرض کرنے کے تباہ کن اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ مسائل کا صحیح معنوں میں ادراک کیے بغیر اُن کا دیر پا حل ممکن نہیں ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اگر مربوط حکمتِ عملی کے ساتھ چلیں تو نہ صرف کرونا جیسی آفت کو شکست دے سکتے ہیں بلکہ ایک نئے مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے ہیں۔

اٹھ کہ خورشید کا سامانِ سفر تازہ کریں
نفسِ سوختہِ شام و سحر تازہ کریں (اقبال)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments