آم – سعادت حسن منٹو کا افسانہ


آم دینے کے بعد جب وہ کوٹھی سے باہر نکلتا تو اس کے چہرے پر تمتماہٹ ہوتی تھی۔ ایک عجیب قسم کی روحانی تسکین اسے محسوس ہوتی تھی جو کئی دنوں تک اس کو مسرور رکھتی تھی۔

منشی کریم بخش اکہرے جسم کا آدمی تھا۔ بڑھاپے نے اس کے بدن کو ڈھیلا کردیا تھا۔ مگر یہ ڈھیلا پن بدصورت معلوم نہیں ہوتا تھا۔ اس کے پتلے پتلے ہاتھوں کی پھولی ہوئی رگیں، سر کا خفیف سا ارتعاش اور چہرے کی گہری لکیریں اس کی متانت و سنجیدگی میں اضافہ کرتی تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بڑھاپے نے اس کو نکھار دیا ہے۔ کپڑے بھی وہ صاف ستھرے پہنتا تھا جس سے یہ نکھار ابھر آتا تھا۔

اس کے چہرے کا رنگ سفیدی مائل زرد تھا۔ پتلے پتلے ہونٹ جو دانت نکل جانے کے بعد اندر کی طرف سمٹے رہتے تھے، ہلکے سرخ تھے، خون کی اس کمی کے باعث اس کے چہرے پر ایسی صفائی پیدا ہوگئی تھی جو اچھی طرح منہ دھونے کے بعد تھوڑی دیر تک قائم رہا کرتی ہے۔

وہ کمزور ضرور تھا، پینسٹھ برس کی عمر میں کون کمزور نہیں ہو جاتا مگر اس کمزوری کے باوجود اس میں کئی کئی میل پیدل چلنے کی ہمت تھی۔ خاص طور پر جب آموں کا موسم آتا تو وہ ڈپٹی صاحب اور چھوٹے جج صاحب کو آموں کے ٹوکرے بھیجنے کے لیے اتنی دوڑ دھوپ کرتا تھا کہ بیس پچیس برس کے جوان آدمی بھی کیا کریں گے۔ بڑے اہتمام سے ٹوکرے کھولے جاتے تھے۔ ان کا گھاس پھوس الگ کیا جاتا تھا۔ داغی یا گلے سڑے دانے الگ کیے جاتے تھے۔ اور صاف ستھرے آم نئے ٹوکروں میں گن کر ڈالے جاتے تھے۔ منشی کریم بخش ایک بار پھر اطمینان کرنے کی خاطر ان کو گن لیتا تھا تاکہ بعد میں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔

آم نکالتے اور ٹوکروں میں ڈالتے وقت منشی کریم بخش کی بہن اور اس کی بیوی کے منہ میں پانی بھر آتا۔ مگر وہ دونوں خاموش رہتیں۔ بڑے بڑے رس بھرے خوبصورت آموں کا ڈھیر دیکھ کر جب ان میں سے کوئی یہ کہے بغیر نہ رہ سکتی، ”کیا ہرج ہے اگر اس ٹوکرے میں سے دو آم نکال لیے جائیں۔ “ تو منشی کریم بخش سے یہ جواب ملتا، ”اور آجائیں گے اتنا بے تاب ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ “

یہ سن کر وہ دونوں چپ ہو جاتیں اور اپنا کام کرتی رہتیں۔

جب منشی کریم بخش کے گھر میں آموں کے ٹوکرے آتے تھے تو گلی کے سارے آدمیوں کو اس کی خبر لگ جاتی تھی۔ عبداللہ نیچہ بند کا لڑکا جو کبوتر پالنے کا شوقین تھا، دوسرے روز ہی آدھمکتا تھا اور منشی کریم بخش کی بیوی سے کہتا تھا، ”خالہ میں گھاس لینے کے لیے آیا ہوں۔ کل خالو جان آموں کے دو ٹوکرے لائے تھے ان میں سے جتنی گھاس نکلی ہو مجھے دے دیجیے۔ “ ہمسائی نوراں جس نے کئی مرغیاں پال رکھی تھیں، اسی روز شام کو ملنے آجاتی تھی اور اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد کہا کرتی تھی، ”پچھلے برس جو تم نے مجھے ایک ٹوکرا دیا تھا، بالکل ٹوٹ گیا ہے۔ اب کے بھی ایک ٹوکرادے دو تو بڑی مہربانی ہوگی۔ “

دونوں ٹوکرے اور ان کی گھاس یوں چلی جاتی۔

حسب معمول اس دفعہ بھی آموں کے دو ٹوکرے آئے۔ گلے سڑے دانے الگ کیے گیے، جو اچھے تھے ان کو منشی کریم بخش نے اپنی نگرانی میں گنوا کر نئے ٹوکروں میں رکھوایا۔ بارہ بجے سے پہلے یہ کام ختم ہوگیا۔ چنانچہ دونوں ٹوکرے غسل خانے میں ٹھنڈی جگہ رکھ دیے گئے تاکہ آم خراب نہ ہو جائیں۔ ادھرسے مطمئن ہو کر دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد منشی کریم بخش کمرے میں چارپائی پر لیٹ گیا۔

جون کے آخری دن تھے۔ اس قدر گرمی تھی کہ دیواریں توے کی طرح تپ رہی تھیں۔ وہ گرمیوں میں عام طور پر غسل خانے کے اندر ٹھنڈے فرش پر چٹائی بچھا کر لیٹا کرتا تھا۔ یہاں موری کے رستے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا بھی آجاتی تھی لیکن اب کے اس میں دو بڑے بڑے ٹوکرے پڑے تھے۔ اس کو گرم کمرے ہی میں، جو بالکل تنور بنا ہوا تھا، چھ بجے تک وقت گزارنا تھا۔

ہر سال گرمیوں کے موسم میں جب آموں کے یہ ٹوکرے آتے، اسے ایک دن آگ کے بستر پر گزارنا پڑتا تھا۔ مگر وہ اس تکلیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتا تھا۔ قریباً پانچ گھنٹے تک چھوٹا سا پنکھا بار بار پانی میں تر کرکے جھلتا رہتا۔ انتہائی کوشش کرتا کہ نیند آجائے مگر ایک پل کے لیے بھی اسے آرام نصیب نہ ہوتا۔ جون کی گرمی اور ضدی قسم کی مکھیاں کسے سونے دیتی ہیں۔

آموں کے ٹوکرے غسل خانے میں رکھوا کر جب وہ گرم کمرے میں لیٹا تو پنکھا جھلتے جھلتے ایک دم اس کا سر چکرایا۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا۔ پھر اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کا سانس اکھڑ رہا ہے اور وہ سارے کا سارا گہرائیوں میں اتر رہا ہے۔

اس قسم کے دورے اسے کئی بار پڑ چکے تھے، اس لیے کہ اس کا دل کمزور تھا مگر ایسا زبردست دورہ پہلے کبھی نہیں پڑا تھا۔ سانس لینے میں اس کو بڑی دقت محسوس ہونے لگی، سر بہت زور سے چکرانے لگا۔ گھبرا کر اس نے آواز دی اور اپنی بیوی کو بلایا۔

یہ آواز سن کر اس کی بیوی اور بہن دونوں دوڑی دوڑی اندر آئیں۔ دونوں جانتی تھیں کہ اسے اس قسم کے دورے کیوں پڑتے ہیں۔ فوراً ہی اس کی بہن نے عبداللہ نیچہ بند کے لڑکے کو بلایا اور اس سے کہا کہ ڈاکٹر کو بلا لائے تاکہ وہ طاقت کی سوئی لگا دے۔ لیکن چند منٹوں ہی میں منشی کریم بخش کی حالت بہت زیادہ بگڑ گئی۔ اس کا دل بیٹھنے لگا۔ بے قراری اس قدر بڑھ گئی کہ وہ چارپائی پر مچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔ اس کی بیوی اور بہن نے یہ دیکھ کرشور برپا کردیا۔ جس کے باعث اس کے پاس کئی آدمی جمع ہوگئے۔

بہت کوشش کی گئی، اس کی حالت ٹھیک ہو جائے، لیکن کامیابی نصیب نہ ہوئی۔
ڈاکٹر بلانے کے لیے تین چار آدمی دوڑائے گئے تھے لیکن اس سے پہلے کہ ان میں سے کوئی واپس آئے، منشی کریم بخش زندگی کے آخری سانس لینے لگا۔ بڑی مشکل سے کروٹ بدل کر اس نے عبداللہ نیچہ بند کو جو اس کے پاس ہی بیٹھا تھا اپنی طرف متوجہ کیا اور ڈوبتی ہوئی آواز میں کہا، ”تم سب لوگ باہر چلے جاؤ۔ میں اپنی بیوی سے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ “

سب لوگ باہر چلے گئے۔ اس کی بیوی اور لڑکی دونوں اندر داخل ہوئیں، رو رو کر ان کا برا حال ہو رہا تھا۔ منشی کریم بخش نے اشارے سے اپنی بیوی کو پاس بلایا اور کہا، ”دونوں ٹوکرے آج شام ہی ڈپٹی صاحب اور چھوٹے جج صاحب کی کوٹھی پر ضرور پہنچ جانے چاہئیں۔ پڑے پڑے خراب ہو جائیں گے۔ “

اِدھر اُدھر دیکھ کر اس نے بڑے دھیمے لہجے میں کہا، ”دیکھو، تمہیں میری قسم ہے، میری موت کے بعد بھی کسی کو آموں کا راز معلوم نہ ہو۔ کسی سے نہ کہنا کہ یہ آم ہم بازارسے خرید کر لوگوں کو بھیجتے تھے۔ کوئی پوچھے تو یہی کہنا کہ دینا نگر میں ہمارے باغ ہیں۔ بس۔ اور دیکھو جب میں مر جاؤں تو چھوٹے جج صاحب اور ڈپٹی صاحب کو ضرور اطلاع بھیج دینا۔ “

چند لمحات کے بعد منشی کریم بخش مر گیا، اس کی موت سے ڈپٹی صاحب اور چھوٹے صاحب کو لوگوں نے مطلع کردیا۔ مگر دونوں چند ناگزیر مجبوریوں کے باعث جنازے میں شامل نہ ہوسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments