ساحل پر لیٹی ہوئی عورت


شکاری مرگول آنکھوں سے اندھا تھا۔

اس کے اندھا ہونے کے پیچھے بھی ایک پراسرار داستان تھی۔ ہوا یو ں کہ ابھی یہ نگر آباد ہی ہو رہا تھا جس میں وہ رہتا ہے کہ وہ ایک تیز رفتار ہرن کے پیچھے بھاگتا ہوا یہاں تک پہنچا۔ وہ ہانپ رہا تھا اور ہرن یہاں پہنچ کر پہاڑی کے نیچے اوجھل ہوگیا۔۔۔ وہ سرحد تھی اور اس سے آگے جانے کاقانوناً حکم نہ تھا۔۔۔ اور قانون صرف انسان کے لیے ہے جو مہذب ہے، پڑھا لکھا ہے، اپنا اور سماج کا اچھا برا سمجھ سکتا ہے۔ اس چوکڑیاں بھرتے ہرن کے لیے نہیں جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں بغیر ضروری کاغذات کے داخل ہوجاتا ہے۔

لہٰذا مرگول وہاں رک گیا۔ اس نے پہاڑ کے دامن میں ایستادہ ایک تختی دیکھی جس پر لکھا تھا، ’’بغیر اجازت نامہ کے آگے بڑھنا قانوناً منع ہے۔۔۔‘‘ اور یہ قانون دونوں ملکوں کے حکام کی مرضی سے بنا تھا۔۔۔

مرگول کو اپنی شکست کابڑی شدت سےاحساس ہوا۔ بے بسی پر افسوس ہوا اور انسان ہونے پر ندامت ہوئی۔۔۔ گہری سانس لیتا ہوا، داہنے ہاتھ میں وزنی بندوق تھامے کیچڑ سے لت پت اپنے شکاری بوٹوں کو دیکھنے لگا اور اس کے جسم سے پسینہ یوں پھوٹ پڑا جیسے چشمے سے پانی ابل پڑتا ہے۔ اس نے اپنے اردگرد نظریں گھماکر دیکھا۔ دائیں طرف ایک اونچی سرمئی پتھروں والی پہاڑی تھی جس پر ہری بھری بوٹیاں اگی تھیں۔۔۔ سامنے دور، دور تک سرسبز میدان پھیلاتھا جس میں اونچے گھنے درخت جھوم رہے تھے۔ بائیں جانب وسیع گہرا سمندر تھا جس کا پانی دیوانوں کی طرح ساحل سے سرٹکرا رہا تھا۔ اور پیچھے وہ جنگل تھا جسے وہ پھلانگ کر آیا تھا۔۔۔ اور اس سارے ماحول میں نیلےآسمان کے تلے ایک نیا نگر تعمیر ہو رہا تھا جس میں انسانی ضروریات کی تمام چیزیں مہیا کی جارہی تھیں۔ فصیل ابھی آدمی کے قد تک ہی اونچی ہوئی تھی اور نگر کا بڑا دوار کھڑا کیا جارہا تھا۔

اس نے دیکھا کہ سب اچھا ہے اور اس نے وہیں رہنے کا ارادہ کرلیا۔ اور وہیں رہنے لگا۔۔۔ کچھ ہی دنوں کے بعد وہ اس دنیا کاایک حصہ بن گیا اور نگر کے دوسرے لوگ اسے جاننے لگے اور وہ ان سے واقف ہوگیا۔۔۔ لہٰذا وہ سورج نکلتے ہی نگر دوار سے باہر نکلتا اور اپنی بندوق کے بل بوتے پر شکار کرکے شام کو واپس لوٹ آتا۔

ایک شام جب وہ کچھ خرگوش مار کر لوٹ رہا تھا۔ اس نےایک بڑا ہی عجیب منظر دیکھا کہ ایک سیاہ فام الف ننگی عورت سمندر میں سے نکلی اور ساحل کی ریت پر اپنے پاؤں کے نشان چھوڑتی ہوئی پہاڑ کی طرف بڑھنے لگی۔ عورت کا جسم بلا کا پرکشش تھا اور ڈوبتے ہوئے سورج کی روشنی میں اس کے جسم کا انگ، انگ چمک رہا تھا۔ مرگول کے ذہن میں اتھل پتھل سی ہوئی اور اچانک اس نے دیکھا کہ مرے ہوئے خرگوشوں میں سے ایک خرگوش نے آنکھیں کھولیں، ایک انگڑائی لی اور پھر اس کی رسی کا حلقہ کھول کر یہ جا، وہ جا جنگل کی طرف بھاگ گیا۔

مرگول اچھا شکاری تھا، مگر قدرت بھی بڑی ستم ظریف چیز ہے۔۔۔ کہ آدمی کو سب کچھ نہیں دیتی۔۔۔ لہٰذا مرگول قوت مردمی سے محروم تھا۔۔۔ لیکن خرگوش کی اس حرکت نے اس کے جسم میں ایک عجیب طرح کی پھریری پیدا کی اور وہ محسوس کرنے لگا کہ وہ اس احساس سے دوچار ہوا ہے جس سے زندگی بھر اس کا سابقہ نہیں پڑا تھا۔۔۔ وہ خوش ہوا اور دیوانہ وار اس عورت کے پیچھے بھاگا۔۔۔ عورت بلا کی تیز رفتاری سے چلنے لگی وہ ہانپتا ہوا اس کے پیچھے جارہا تھا۔ سورج پہاڑ کے پیچھے غروب ہوگیا اور سارے میں دھندلکا پھیل گیا اور اس دھندلکے میں وہ عورت پہاڑ کی ایک کھوہ میں داخل ہوئی اور نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ وہ لپک کر کھوہ کے دہانے تک پہنچا اور اس نے دیکھا اندر گہری تاریکی ہےاور کچھ دکھائی نہیں دے رہا۔ اس نے پکارا۔

’’اے عورت تو کہاں ہے۔۔۔ ہم تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ تو ہماری زندگی کے لیے لازم ہوگئی ہے۔۔۔‘‘

’’اے شکاری مرگول اندر مت آنا۔ کھوہ کے دہانے سے آگے کی زمین تم پر آگ برسائے گی اور تو اپنے اندر کے جذبے اور باہر کی آگ میں جل کر راکھ ہوجائے گا۔۔۔ اگر تو مجھے پانا چاہتا ہے تو برس ہابرس تک تجھے تگ و دو کرنا ہوگی اور پھر کہیں جاکر تو وصل کی مسرت پائے گا،‘‘ کھوہ کے اندر سے سیاہ فام عورت کی مترنم آواز سنائی دی جو اس کی جسمانی کشش سے بھی زیادہ پرکشش تھی۔

مرگول کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بندوق تڑپ اٹھی۔ اس کا جسم مارے غصہ کے کانپ اٹھا اور اس نے زمین پر سے پتھر اٹھایا اور کھوہ کے اندر دے مارا اور غصہ میں چیخا۔

’’میں مرد ہوں اور یہ میرا شیوہ نہیں۔ تم نے اگر اپنے آپ کو میرے حوالے نہ کیا تو مجبوراً مجھے اپنی بندوق سے کام لینا ہوگا۔‘‘

اندر سے ایک کراہ سنائی دی۔ اور پھر ایک غضب ناک آواز، ’’تم نے مجھ کو پتھر سے مارا۔۔۔ اب تم پر لازم ہے کہ ہر روزاسی وقت مجھ پر آکر پتھر کی ضرب لگاؤ۔ اور اگر تم نے اپنے معمول میں ناغہ کیا تو میرا قہر تم پر نازل ہوگا۔ اور تو زندہ نہ بچے گا۔ اس کے بعد آسمان پر بجلی چمکی اور بادل گرجے اور سب طرف تاریکی پھیل گئی۔۔۔ اور مرگول خوف زدہ ہوگیا۔ اس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بندوق اور کندھے سے لٹکتے ہوئے مردہ خرگوش بارش میں بھیگ گئے اور وہ ٹھٹھرتا ہواوہاں سے چلا اور اپنے گھر پہنچ کر دم لیا۔

Surendra Prakash (2nd-from-Left)

اگلی صبح مرگول پورا مرد تھا۔۔۔ اور اس کے بعد اس نے یکے بعد دیگرے کئی عورتوں سے اپنے تعلقات قائم کیے اور زندگی کی بے پناہ مسرت سے ہم کنار ہوا۔ وہ بہت خوش تھا کہ اب وہ جانور کی آہٹ اور پرندے کی آواز پر گولی مار کراسے ڈھیر کرسکتا تھا۔ شام کو جب وہ جنگل سے شکار کرکے واپس لوٹتا تو معلوم کے مطابق بلاناغہ کھوہ کے دہانے پر کھڑا ہوکر زمین پر سے ایک پتھر اٹھاتا اور پھر اسے کھوہ کے اندر دے مارتا۔ تب اندھیرے میں سے عورت کے دبے، دبے قہقہہ کی آواز سنائی دیتی اور وہ خوفزدہ سا اپنے گھر کی طرف بڑھ جاتا۔۔۔ شہر تب تک پوری طرح آباد ہو چکا تھا۔

یہ معمول کئی برسوں تک چلتا رہا۔۔۔ کہ ایک دن سورج نہ نکلا۔ سب طرف کہرہ چھایا ہوا تھا۔ گہری دھند تھی کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دیتا  تھا۔ مرگول کے بستر پر شہر کی خوبصورت ترین عورت شب باشی کے لیے موجود تھی جو ابھی بیدار نہ ہوئی تھی کہ اس کاجسم گہرے سکھ میں ڈوبا ہوا تھا۔

مرگول نے اس کے خوبصورت، سڈول، چکنے جسم پر اپنے ہاتھ پھرائے وہ کسمساکر ذرا سا مسکرائی اور بدستور سوتی رہی۔۔۔ مرگول نے سوچا آج وہ شکار پر نہیں جائے گا کہ جانور اور پرندے سب اپنی اپنی رہائش گاہوں میں دبکے پڑے ہوں گے۔ اس نے عورت کے گرم گرم جسم سے اپنے آپ کو لپیٹ لیا اور سر اس کی چھاتیوں دے کر پھر سو گیا۔۔۔ اور بے خبر ہوگیا۔۔۔ شام ہونے سے پہلے، پہلے بارش بھی شروع ہوگئی۔

اگلے دن جب مرگول شکار کو جانے لگا تو اس نے اس کھوہ کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھا۔ الف ننگی سیاہ فام عورت دہانے پر کھڑی تھی۔ اس کا چہرہ غضب ناک تھا۔ اور ٹکٹکی باندھے مرگول کی طرف دیکھ رہی تھی۔ مرگول غیرارادی طور پر، جیسے کسی جادو نےاسے جکڑ رکھا ہو، آہستہ آہستہ کھوہ کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔ اور پھر عورت کے بالکل مقابل کھڑا تھا۔ اس میں بولنےتک کی طاقت نہ تھی۔

’’تم نے کل اپنے معمول کو توڑ دیا شکاری مرگول۔۔۔ تم نے کل جو پتھر مجھ پر نہ مارا اس پتھر کا کیا ہوا۔۔۔؟ اور میرے جسم کا وہ حصہ جس پر کل چوٹ نہ پڑی اس کا کیا ہوگا۔۔۔؟ میں نےتمہارے جسم کو جو طاقت دی وہ قدرت نے تمہیں عطا نہیں کی تھی۔ شرط تھی کہ تم بلاناغہ مجھ پر پتھر برساؤ گے۔ تم نے وعدہ خلافی کی۔ لہٰذا سزا کے لیے تیار ہوجاؤ۔۔۔ یہ لمحے جو تم گزار رہے ہو، یہ سانسیں جو تم لے رہے ہو۔۔۔ تمہاری زندگی کی آخری سانسیں ہیں۔۔۔‘‘ عورت نے اسے قہر آلود نظروں سے دیکھتےہوئے کہا۔

اور مرگول نے دیکھا کھوہ میں سے نکل کر ایک سیاہ ناگ، عورت کے اشارے کا منتظر ہے۔ موت مرگول کی آنکھوں کے سامنے ناچنے لگی۔

’’رحم۔۔۔ رحم۔۔۔ اے عورت۔ کہ کل گہری دھند تھی اور اس وقت شدید بارش۔ جب مجھے یہاں تمہاری پرستش کے لیے آنا تھا۔۔۔ میں آج دو پتھر تم کو مار دوں گا،‘‘ مرگول گڑگڑایا۔

پتھر تو دو چھوڑ چار بھی مارے جا سکتے ہیں۔ لیکن وہ لمحہ جو اس پتھر کے مقدر کے ساتھ وابستہ تھا۔۔۔ واپس نہیں آسکتا۔۔۔ بہرحال سزا تو تمہیں بھگتنا پڑے گی۔ عورت نے جواب دیا اور کالا ناگ آہستہ آہستہ مرگول کی طرف بڑھنے لگا۔

’’نہیں۔۔۔!‘‘ مرگول چیخا۔۔۔ ’’میں زندہ رہنا چاہتا ہوں۔‘‘

’’تو پھر زندگی کے برابر عزیز چیزتمہیں دینا ہوگی،‘‘ عورت نے کہا۔

’’وہ کیا ہوسکتی ہے؟‘‘ سانپ بالکل قریب پہنچ گیا تھا۔ اور پلٹ کر عورت کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔

’’قوت مردمی یا بینائی۔۔۔!‘‘ عورت بڑی مدھم اور ملائم آواز میں بولی۔

مرگول نے ایک لمحہ کچھ سوچا اور پھر کہا۔۔۔ ’’بینائی۔‘‘

عورت نے اپنے دائیں ہاتھ کی پہلی انگلی آسمان کی طرف اٹھا دی۔۔۔

کالارنگ اچھلا اور دوسرے ہی لمحے اس کے ہونٹ مرگول کی کنپٹی سے چپک چکے تھے۔ ایک شدید درد کا احساس ہوا اور پھر اس کے بعد جیسے اس کے خون میں انگارے بھر دیے گئے ہوں۔ اور پھر ایک دم سب طرف تاریکی پھیل گئی۔۔۔ کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔۔۔ نہ عورت، نہ سانپ، نہ پہاڑ، نہ سمندر اور نہ جنگل۔۔۔ مرگول سسک سسک کر رو رہا تھا۔

شکاری مرگول آنکھوں سے اندھا تھا۔۔۔ مگر وہ جانوروں کی آہٹ اور پرندے کی آواز کی سیدھ میں گولی مارتا تھا اور اس کا نشانہ کبھی خطا نہ ہوتا تھا۔۔۔ اور وہ قوت مردمی سے مالامال بھی تھا۔

ایک شام وہ شکار سے لوٹ رہا تھا کہ مقررہ وقت پر کھوہ کے دہانے پر پہنچ کر رکا۔ حسبِ معمول اس نے زمین پر سے ایک پتھر اٹھایا اور اندازے سے کھوہ میں دے مارا۔ خلافِ معمول اندر سے کوئی آواز نہ آئی۔ نہ ہلکے ہلکے قہقہے کی اور نہ ہی کراہ کی۔ وہ بہت حیران ہوا۔ اتنے برسوں میں آج پہلی بار کھوہ میں سناٹا تھا۔ وہ بےاختیار پکار اٹھا۔

’’اے عورت تو کہاں ہے؟ میں نے اپنا معمول پورا کیا۔ لیکن تمہاری طرف سے کوئی جواب نہ ملا۔ کیا اجازت ہے کہ میں اپنا شکار لے کر اپنے گھر چلا جاؤں؟‘‘

لیکن پھر بھی کوئی جواب نہ ملا۔ وہ پہاڑی کی طرف سے سمندر کی طرف مڑا اور نگردوار کی طرف بڑھنے لگا۔۔۔ اس کے شکاری بوٹوں کے نیچے ساحل کی ریت دب، دب جاتی تھی۔ وہ حیرانی اور خوف ملے جذبات میں ڈوبا ہوا، آہستہ آہستہ قدم بڑھارہا تھا۔ اندازے کے مطابق صحیح سمت میں جارہاتھا کہ اچانک کسی چیز سے ٹکرا گیا۔ بڑی مشکل سے اپنا توازن قائم رکھ سکا اور پھر ذرا ہٹ کر آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن اس بار گر ہی گیا۔ اس کے ہاتھ جس چیز پر پڑے وہ ایک سرد جسم تھا۔ جو بالکل اکڑ چکا تھا۔ اس نے ٹٹول، ٹٹول کر دیکھنا شروع کیا۔ سر سے چہرہ۔۔۔ چہرہ سے گردن۔۔۔ گردن سے سینہ۔۔۔ سینہ ابھرا ہوا سخت کسی عورت کا، پھر پیٹ اور پیٹ کے عین وسط میں ناف کی گہرائی۔۔۔ اور اس کے نیچے بال۔۔۔ اور بالوں کے جنگل میں۔۔۔ وہ ڈر سا گیا۔

لیکن اس نے اپنے ہاتھ سڈول رانوں پر پھسلاتے ہوئے نازک پاؤں کی اکڑی ہوئی انگلیاں پکڑلیں۔

’’کون ہے یہ۔۔۔؟‘‘ اس نے پھسپھساکر اپنے آپ سے پوچھا۔ ’’کہیں۔۔۔ کہیں!‘‘ اور پھر جیسے ہی اس کے ذہن میں وہ خیال بجلی کی طرح کوندا۔۔۔ اس کے منہ سے ایک دل دوز چیخ نکل گئی اور اسے اچانک احسا س ہوا کہ وہ قوتِ مردمی سے ایکایکی محروم ہوگیا ہے۔ وہ گھگھیا کر اٹھا اور اپنا شکار وہیں چھوڑ کر نگر کی طرف بھاگا۔۔۔ آج اس کی بندوق اسے بہت وزنی لگ رہی تھی۔

نگر کی سرائے کے قریب سے گزرتے ہوئے اسے گھوڑوں کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی۔ اس کا دل اس سے زیادہ تیزی سے دھڑک رہا تھا۔۔۔ وہ اپنے مکان میں داخل ہوا، بندوق اس نے ایک طرف پھینکی اور بغیر کپڑے اور جوتے اتارے بستر پر دھم سے گرا۔

صبح سارے نگر میں یہ خبر گرم تھی کہ کل رات ایک اجنبی سفید گھوڑے پر سوار نگر کی سرائے میں اترا۔۔۔ اس نے گھوڑا کھونٹے سے باندھا اور اس کے سامنے ہری گھاس بکھیردی۔ گھوڑا اسے دیکھ کر گردن ہلاتا ہوا ہنہنایا۔۔۔ اور اجنبی سرائے میں داخل ہوا۔ اس نے اپنے جھولے میں سے گھر کی کشیدکردہ شراب کی بوتل نکالی، سرائے کے طعام خانے سے بھنا ہوا گوشت لیا اپنے کمرے میں پلنگ پر لیٹ کر گرم گرم بھنے ہوئے گوشت کے ساتھ شراب پی اور تکان سے چوراونگھنے لگا۔ پھر سوگیا۔۔ ۔ ایسا سویا کہ آج صبح نہ اٹھا اس کی لاش پر مکھیاں بھنبھنارہی ہیں اور باہر کھونٹے سے بندھا گھوڑا اپنے کھر سے زمین کریدتا ہوا ہنہنا رہا ہے۔

جب یہ خبر شکاری مرگول نے سنی تو وہ کانپ اٹھا۔۔۔ اسی وقت شہر کی حسین ترین اور متمول ترین عورت کی ملازمہ اس کے لیے آج رات اس کے ساتھ گزارنے کا پیغام لے کر آئی۔ اس نے اسے دتکار دیا اور اپنی بندوق لیے ساحل کی طرف لپکا۔

ساحل پر کہیں بھی عورت کا وہ جسم اسے نہ ملا۔ کل کا پھینکا ہوا شکار بھی اسے نہ ملا تو وہ اندازے سے پہاڑی کھوہ کی طرف بڑھا۔۔۔ وہاں جاکر اس نے بے تحاشہ پکارنا شروع کیا۔۔۔ ’’اے عورت۔۔۔ اے عورت!‘‘ لیکن کھوہ میں سے کوئی آواز نہ آئی پھر اس نے پاگلوں کی طرح پتھر اٹھا اٹھاکر کھوہ میں مارنے شروع کیے۔ مگر پھر بھی اسے کوئی جواب نہ ملا۔۔۔ اور وہ جنگل کی طرف جانے کی بجائے نگر کی طرف آہستہ آہستہ بڑھنے لگا۔

اس شام تک سارے شہر میں یہ افواہ پھیل گئی کہ ساتھ والے ملک میں ایک عجیب و غریب بیماری پھیل گئی ہے کہ جو رات کو سوتا ہے وہ زندہ نہیں اٹھتا۔۔۔ اور لوگ وہاں سے بھاگ، بھاگ کر ادھر اُدھر جارہے ہیں۔۔۔ اتنے میں ایک اور خبر ملی کہ نگر کی سرائے کے باہر بندھا ہوا سفید گھوڑا بھی آخری بار ہنہنایا پھر کھڑے ہی کھڑے اس کی آنکھ جھپکی اور دھڑام سے ایسا زمین پر گرا کہ اٹھ نہ سکا۔

سارے شہر میں بتیاں جل اٹھی تھیں۔ اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر گلیوں اور بازاروں میں نکل آئے تھے۔۔۔ کوئی سونے کے لیے تیار نہ تھا۔ سب اس خدائی قہر پر تبادلہ خیالات کر رہے تھے، عورتیں دروازوں کی اوٹ میں کھڑی تھیں اور بچے منہ اٹھا اٹھاکر بڑوں کی باتیں سن رہے تھے۔

کسی طرح بھی وہ رات کٹ گئی۔ سویرے سمندر کے پانی پر کچھ لاشیں تیرتی دکھائی دیں۔ وہ ساتھ والے ملک کے لوگوں کی تھیں۔ سب حیران تھے کہ آخر انھیں نیند اتنی کیوں پیاری ہے کہ جانِ عزیز کھودیتے ہیں۔

اندھا شکاری مرگول شہر کی گلیوں میں دیواروں کو ٹٹولتا ہوا اس طرح سر جھکائے دھیرے دھیرے چل رہا تھا جیسے اس نے اپنے اندر کوئی بڑا ہی بھیانک راز چھپا رکھا ہے۔۔۔ وہ اندھا قوتِ مردمی اور بینائی سے محروم آدمی۔۔۔ آخر کس کام کا تھا۔۔۔؟ مگر وہ سونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ مرنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ اس نے اپنی بندوق بے دلی سے کندھے پر رکھی تھی۔

رات بھر سارا شہر بیدار رہا۔۔۔ وہ پہلی رات تھی ایسا لگا کوئی میلہ سا لگا ہے۔ کئی جگہوں پر الاؤ جلادیے گئے ان کے گرد لوگ کھڑے، بیٹھے باتیں کرتے رات کے گزرجانے کے منتظر رہے۔ بچے اگر اونگھنے لگتے تو انھیں جھنجھوڑ دیا جاتا، ’’اے بچے سونا نہیں۔ سونا نہیں میرے بچے۔‘‘ کبھی ماں اور کبھی باپ کی آواز سنائی دیتی، نوجوان تو بس بیدار رہ کر خواب دیکھنے میں مشغول تھے۔

اسی طرح کئی دن بیت گئے۔ اب نیند نے لوگوں کو بری طرح سے پریشان کرنا شروع کردیا تھا۔ اتنا بھی ہوش لوگوں کو نہ رہا تھا کہ رات کو بتیاں جلائی ہیں تو دن میں بجھادیں۔ سارا کاروبات ٹھپ ہوگیا تھا۔ باہر والے شہر میں آتے ہوئے ڈرتے تھے۔ اور شہر والے وہی ایک دوسرے کے چہرے دیکھتے دیکھتے ایک دوسرے سے اوب گئے تھے۔ انھیں کسی سے کوئی دلچسپی نہ رہ گئی تھی۔ سوائے بیدار رہنےکے اور اپنی جان بچانے کے۔

پھر ایکاایکی بچوں نے گردنیں لڑھکانی شروع کیں۔ اب انھیں تھپڑمار مارکر بیدار رکھنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ عورتوں نے اپنے بال رسیوں سے باندھ کر مکان کے چھتوں کی کڑیوں سے باندھ دیے تھے کہ جب نیند کا جھٹکا لگے درد سے وہ بیدار ہوجائیں۔ مرد اپنی انگلیوں کو دانتوں تلے دباتے رہتے اور اس طرح وہ اس موت سے اپنے آپ کو محفوظ کیے ہوتے تھے۔ جو چپ چاپ سوتے میں آکر انسان کو دبوچ لیتی ہے۔۔۔ مگر اب بیداری بھی ایک مصیبت بننے لگی تھی۔

لگاتار بیداری بھی موت کا باعث بننے لگی۔ میدانوں میں بھاگتے ہوئے آدمیوں کی آنکھیں مسلسل بیداری کی وجہ سے سرخ ہونےلگیں۔۔۔ عورتیں اپنے بالوں کے جھٹکوں کا درد اب محسوس نہ کرپاتیں اور بچوں پر تھپڑوں کی بارش بے اثر ہوگئی۔ لوگ کھڑے کھڑے گرتے اور پھر مرجاتے۔

مسئلہ اب نیندکی اَن دیکھی موت کا نہ تھا۔ بڑا مسئلہ تھا بیداری کی موت۔ شہر کے سیانے جن میں ابھی دم تھا اکٹھے ہوئے اور انھوں نے ان کے بارے میں سوچ بچار کرنا شروع کیا جو عالمِ بیداری میں مرنے لگے تھے۔ کہ ان کی قوتِ برداشت اب ساتھ نہ دے رہی تھی۔ اور وہ اپنی پوری آنکھیں کھولے جو کہ مسلسل بیداری کی وجہ سے سرخ ہوچکی ہوتیں، کھڑے کھڑے مرجاتے۔۔۔ یہ بات تو سب سمجھ ہی چکے تھے۔ کہ موت کا کوئی علاج نہیں۔۔۔ وہ نیند میں بھی آسکتی ہے اور بیداری کی حالت میں بھی، لہٰذا سیانوں نے یہ قرار دیاکہ جو عالم ِبیداری میں مرجائے اسے شہید کا درجہ دیا جائے اور جو نیند کے غلبہ سے سرجھکادے اسے کایر کی موت سمجھا جائے اور اب کون تھا جو کایر کی موت مرنا پسند کرتا۔

اندھے شکاری مرگول نے اپنی آخری کوشش کی اور کھوہ کے دہانے پر جاکر ایک پتھر زمین سے اٹھایا اور اندر دے مارا۔۔۔ مگر۔۔۔ مگر اندر سے کوئی ردِّعملہ محسوس نہ ہوا۔ وہ مارے نیند کے بے حال ہوا جارہا تھا۔ کئی روز سے اس نے شکار کی شکل تک نہ دیکھی تھی۔ اس کی بندوق کی نال زمین سے گھسٹ رہی تھی۔ اور وہ جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ ایک ایک قدم بڑی مشکل سے اٹھاتا ہوا، اسکا سرلٹک کر سینے پر آگرا تھا کہ اسے ایکاایکی محسوس ہوا کہ اب اور نہیں۔ وہ خوفزدہ ہواٹھا۔

’’نہیں۔۔۔یں۔۔۔یں!‘‘ وہ چیخا۔ ’’میں نے زندہ رہنے کے لیے اپنی بینائی تک قربان کردی۔۔۔ اور نامردی کی زندگی قبول کی۔۔۔ میں۔۔۔ میں مرنا نہیں چاہتا۔‘‘

اس نے اپنی بندوق اوپر اٹھائی جس میں اسے خاصی دقت محسوس ہوئی تھی اور پھر ایک خیال اس کے ذہن میں ایک کوندہ کی طرح لپک گیا۔ اس نے بندوق کی نال اپنے ٹخنے پر رکھی اور لبلبی دبادی۔’’دھائیں‘‘ کی دل دہلادینے والی آواز فضا میں گونجی۔۔۔ درختوں پر سے کچھ پرندے چیختے ہوئے اڑےاور جنگل میں چھپا ہوا وہ خرگوش جو مرنے کے بعد مرگول کے کندھے پر سے اچھل کر جنگل کی طرف بھاگ گیا تھا۔ اپنے کان کھڑے کرکے ایک جھاڑی سے دوسری جھاڑی کی طرف بھاگا۔۔۔

مرگول مارے شدید درد کے چیخ اٹھا۔ اس نے ٹٹول کر اپنے ٹخنے کو محسوس کیا اس کی انگلیاں کسی سیال سے لتھڑگئیں۔۔۔ وہ خون تھا۔۔۔ مگر اب نیند نام کی کوئی چیز اس کے وجود میں موجود نہ تھی۔۔۔ اسے یہ معلوم ہوا کہ بیدار رہنے کے لیے ایک زخم کی سخت ضرورت ہے۔۔۔ وہ یہ اطلاع دینے کے لیے شہر کی طرف لپکا۔

اندھا شکاری مرگول لنگڑاتا ہوا شہر کے نگر دوار میں داخل ہوا۔۔۔ اس سارے چکر میں اسے کافی دن لگ گئے تھے۔ شہر میں لوگ دھڑا دھڑ شہید ہو رہے تھے۔ اسے یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ یہ دن ہے یا رات۔ سب طرف سناٹا تھا۔۔۔ اس کے ٹخنے میں شدید درد تھا۔ اور وہ کچھ دیکھ نہیں سکتاتھا۔ جابجا اس کے پاؤں شہیدوں کی لاشوں سے ٹکراجاتے۔ وہ گرتا پڑتا، شہر کے وسط میں پہنچا۔ ٹٹول ٹٹول کر چبوترے پر چڑھا اور اپنی پوری طاقت جمع کرکے اپنی بندوق کندھے پر رکھ کر بالکل فوجیو ں کی طرح کھڑا ہوگیا۔ اس نے لوگوں کو پکارنا شروع کیا۔

’’اے شہر کے رہنے والو۔۔۔ میں نےزندگی کا راز پالیا ہے۔ اور میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایک بار میں جنگل سے شکار کرکے لوٹ رہا تھا کہ میں نے ایک سیاہ فام عورت کو بالکل برہنہ سمندر میں سے نکل کر پہاڑی کی طرف جاتے دیکھا۔۔۔ اور پھر جو کچھ ہوا اسے بتانے کی ضرورت نہیں۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ اگر آپ سب زندہ رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو بیدار رہنا ہوگا۔۔۔ اور بیدار رہنے کے لیے ایک زخم کی ضرورت ہے۔۔۔ اور زخم۔۔۔‘‘

وہ اچانک خاموش ہوگیا۔ اسے محسوس ہوا کہ اس کی بات کوئی نہیں سن رہا ہے۔ کہیں کوئی حرکت نہیں۔ کہیں کوئی آواز نہیں۔ کہیں کوئی سننے والا نہیں۔ تب اس نے ایک بار پھر بلند آواز میں کہا۔

’’کیا آپ میری آواز سن رہے ہیں!‘‘

مگر اسے کوئی جواب نہ ملا۔ وہ اپنی اندھی آنکھوں سے فضا میں گھورتا رہا۔ حتی کہ اس کی آنکھیں پانی سے بھر گئیں اور آنکھوں کاپانی اس کے رخساروں تک بہنےلگا۔۔۔

شکاری مرگول اندھا تھا۔ وہ یہ دیکھ تو نہ سکا کہ اب شہرمیں اس کی آواز سننے والا کوئی نہیں بچا۔۔۔ لیکن اس نے یہ بات محسوس کرلی تھی۔ شہر بالکل ویران پڑا تھا۔ مکانوں کی چھتوں پر دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ اور فضا میں گدھ اور چیلیں اپنے پر پھیلائے خاموشی سے اڑ رہی تھیں۔

وہ دھیرے دھیرے چبوترے سے اترا۔ اور لنگڑاتا ہوا شہر کے دروازے سے باہر نکل گیا۔ اس کی ناک نے پہلی بار سڑی ہوئی لاشوں کا تعفن محسوس کیا اور وہ ڈر کر تیزی سے قدم بڑھانے لگا۔ سمندر کے ساحل کی نرم ریت اس کے پاؤں کے نیچے دب دب جاتی تھی کہ اچانک وہ کسی چیز سے ٹکراگیا۔ وہ ایک خرگوش کا مردہ جسم تھا۔۔۔ اس نے اسے اپنے ہاتھوں میں اٹھالیا۔ نرم نرم بالوں سے بھرا ہوا سرد جسم وہ اسے اپنی گود میں لے کر وہیں بیٹھ گیا۔۔۔ اور سمندر کی طرف منھ کرکے وسعت کو محسوس کرنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔ اسکی بندوق اس کے قریب پڑی تھی۔ اسے اپنا وجود بے کار محسوس ہونے لگا۔ اپنی بندوق سمیت اور ٹخنے کے زخم سمیت وہ انتظار کرنے لگا سمندر کی اس لہر کا جو تیزی سے اچھل کر آئے گی اور اسے اپنی بانہوں میں بھر کر سمندر کی گہرائی میں لے جائے گی۔ اچانک اسے پہاڑی کی کھوہ میں سے کسی عورت کی چیخ سنائی دی۔ وہ ادھر پلٹا لیکن اب اس میں بالکل سکت باقی نہ تھی کہ وہ کھوہ کے دہانے پر جا کر پتھر اٹھاتا اور اندر دے مارتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments