رب تعالیٰ کی نوکری


سچ تو یہ ہے کہ ہم بندے رب تعالی کے خادم ہیں۔ ملازم پھر بھی اپنی قابلیت پر مالک سے مطالبہ کرسکتا ہے جبکہ خادم صرف اور صرف اپنے مالک کے کرم پر منحصر ہوتا ہے۔ انسان رب تعالی کے بندے یعنی خادم ہیں۔ عجیب بات ہے ایک کمپنی اپنے لئے ملازم کا انتخاب کرتی ہے تو اس کے لئے ایسا معیار مقرر کرتی ہے جو سب سے بہتر ہو تاکہ کمپنی ترقی کرسکے۔ رب تعالی نے بھی اپنی ایک کمپنی بنا رکھی ہے جس کا نام ”رزق کا وعدہ“ ہے۔ اس کمپنی کے لئے رب تعالی پھر کچھ خاص خادمین کا انتخاب کرتا ہے جو کمپنی کے معیار پر پورا اتر رہے ہوتے ہیں۔

اس کمپنی کے لیے معیار امین ہونا اشد ضروری ہے تاکہ حق حقدار تک پہنچ سکے۔ پھر اپنی تمام مخلوق میں رب تعالی کچھ لوگوں کا انتخاب کرلیتا ہے جو اس کمپنی میں بطور ملازم کام کرتے ہیں۔ ہوتا یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا انتخاب تو ہوجاتا ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ خود کو اوروں سے افضل سمجھنے لگتے ہیں۔ یا اپنی انا اور غرور میں اس قدر بلند ہوجاتے ہیں کہ ان سے کام کی توفیق چھن جاتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ وہ اس ملازمت میں غفلت برتنے کی وجہ سے ملازمت سے خارج کردیئے جاتے ہیں۔ اور ان کی جگہ نئے لوگوں کا انتخاب ہوتا ہے۔

کسی بھی غریب انسان حتی کہ جانوروں، پرندوں اور حشرات تک کو رزق دینے والی ذات اسی وحدہ لاشریک ذات ہے۔ مگر وہ یہ کام اپنی اشرف المخلوقات حضرت انسان سے کروانا چاہتا ہے۔ تاکہ جو سہرا اشرف المخلوقات والا حضرت انسان پر رب تعالی نے سجایا ہوا ہے اس کی لاج برقرار رہے۔

کچھ دوست ایسے ہوتے ہیں جو جانتے بھی ہیں کہ ہمارے اردگرد غریب و دیہاڑی دار طبقہ ہے۔ کچھ سفید پوش حضرات بھی ہیں جو مانگنے سے شرم محسوس کرتے ہیں۔ اور وہ دوست یہ بھی جانتے ہیں کہ میرے کہنے سے کچھ مخیر حضرات میری بات مان کر ان کی مدد بھی کرنے کو تیار ہوجائیں گے۔ مگر افسوس وہ اپنی عزت اور انا کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر اس ذہن سازی کو اپنے لئے توہین سمجھتے ہیں۔

اگر یہی کام کوئی ملٹی نیشنل کمپنی انہیں سونپتی کہ جاؤ شہر کے گھر گھر میں ہماری کمپنی کی تشہیر کرکے ہماری ردی کوڑی کی پروڈکٹ اتنے داموں بیچ آنی ہے۔ اور اس کے بدلے ہم آپ کو 40، 50 ہزار دیں گے تو یقین جانئے وہ شہر کا ایک گھر بھی نہیں چھوڑیں گے۔ اور اتنی محنت کریں گے کہ کمپنی کا مالک خوش ہوکر ان کا گریڈ بڑھا دے۔

مگر وہی انسان جب رب تعالی کی کمپنی کی تشہیر کی بات کرتا ہے، رب تعالی کے دیے ہوئے مال سے کچھ نکال کر غریبوں میں بانٹنے کے لئے ذہن سازی کی بات کرنے کی باری آتی ہے تو شرمانے لگتا ہے۔ اس کا ساڑھے پانچ فٹ قد آسمان کی بلندیوں سے کسی گہری کھائی میں گرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے۔

مگر خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو رب تعالی کی نوکری کرتے ہیں اور پھر رب تعالی بھی انہیں ایسے انعامات سے نوازتا ہے کہ دونوں جہانوں میں لوگ اس پر رشک کرنے لگتے ہیں۔

میری ان رضاکاروں سے خصوصی درخواست ہے کہ رب تعالی کی نوکری کرتے ہوئے نہ غرور کریں اور نہ ہی غفلت برتا کریں۔ جب دو ٹکے کی کمپنی کے لئے گھر گھر جاکر لوگوں کی باتیں سن کر برداشت کر لیتے ہو تو پھر رب تعالی کی مخلوق کے لئے اور اس رب کی نوکری کے لئے اگر لوگوں کی باتیں سن میں لیں تو کون سی قیامت آ جانی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments