وائے ٹو کے۔ سے کووڈ 19 تک


اکیسویں صدی کی ابتدا بیسویں صدی کی آخری دو دہائیوں میں انفارمیشن ٹیکانالوجی کی بام عروج سے مزین تھی اور یہ سفر اپنی انتہائی بلندیوں کو پہنچ جانے کو بیتاب بھی تھا۔ تبھی 1999 ء میں ماہرین کمپیوٹر و انفارمیشن ٹیکنالوجی ایک ایسے آئی ٹی بگ کی وجہ سے پریشان تھے جو نئے ہزاریے کی ابتدا کے ساتھ تاریخ میں تبدیلی کی وجہ سے کریش ہونے کے خدشے سے دوچار تھا کہ جونہی اکیسویں صدی کی ابتدا ہوگی تو ہمارا کمپیوٹرائزڈ نظام نئی تاریخ کی تبدیل کو کس طرح اپنے اندر سمو پائے گا اور ایک کمپیوٹر وائرس جیسے ماہرین Y 2 K (یعنی سال دو ہزار بگ) کانام دے رہے تھے، کا خطرہ پیدا ہوا۔

خدشہ تھا کہ جونہی یکم جنوری کی تاریخ تبدیل ہوگی اور سال کے دو ڈیجٹس سنہ دو ہزار کو کمپیوٹر نظام میں صفر صفر سے تبدیل کریں گے تو کیا ہمارا کمپیوٹر نظام اس تبدیلی کو قبول کر پائے گا جس نہیں اگر تو یہ قبول کر پایا تو کوئی خطرہ نہیں اور اگر کہیں ایسا نہ ہوا تو دنیا بھر کے کمپیوٹر کریش کر جائیں گے اور اگر یہ کریش کر گے تو دنیا ایک نا ختم ہونے والی تباہی سے دوچار ہوجائیے گی جس سے بینکنگ سے لے کر مواصلات ٹریفک سے لے کر ذرائع آمد و رفت بشمول فضا میں اڑتے جہاز اور خلا میں موجود ہمارے مواصلاتی نظام کی ریڑھ کی ہڈی یعنی ہمارے فضا میں چھوڑے گئے مواصلاتی و دفاعی سیارے سب بے وقعت اور یکسر ناکارہ ہو جائیں گے۔

آئی ٹی ماہرین کی شب و روزانہ محنت اور اس ناقابل حد تک وسیع و عریض نظام کا انحصار اب ایک چیلنج کی صورت آئی ٹی ماہرین کے سر پر سوار تھا اور وہ اس نظام کو بچانے کے لئے نے نئے پروگرام مرتب کر رہے تھے۔ 31 دسمبر 1999 ء رات بارہ بجے ان کی محنتوں اور کاوشوں کے نتجے کا وقت تھا جب کمپیوٹر نے تاریخ تبدیل کرنا تھی۔ گویا ہر کوئی دانتوں میں انگلیاں دبائے سانسوں کو روکے بارہ بجے کا انتظار کر رہا تھا کہ جو پروگرام کمپیوٹر کو دیا گیا ہے۔ آیا وہ کامیاب ہوتا ہے جس نہیں اس نظام کو پہلے چیک کرنا ممکن ہی نہ تھا۔ لہذا 31 دسمبر 1999 ء ہی کا وقت اس نظام کے چلنے اور اس کے کارگر ہونے یا ناں ہونے کو وقت تھا۔

خدا خدا کرکے بارہ بجے رات جب کمپیوٹر ہر تاریخ تبدیل ہوئی اور ماہرین کا نیا پروگرام کمپیوٹر نے قبول کر لیا اور تاریخ کے تبدیلی کے صفر نے کمپیوٹرائزڈ نظام کی دیگر فیڈنگز کو متاثر نہ کیا اور نظام کامیابی سے چلتا رہا تو سب نے سکھ کا سانس لیا یہ مرحلہ آئی ٹی ماہرین کا سب سے بڑا امتحان تھا جو کامیابی سے مکمل ہوا۔

اب ہم اکیسویں صدی میں کامیابی سے داخل ہو گئے تھے اور خیال تھا کہ اگلے مراحل میں یہ کامیاب سفر اب اور مزید نئی جہتوں کے ساتھ افق کی بلندیوں کو چھوئے گا اور انسان دنیائے کمپیوٹر و آئی ٹی میں مزید سنگ میل عبور کریں گے اور ایسا ہی ہوا اور ہو رہا ہے۔ مگر نئی صدی کی ابتدا جس ہیجان اور پریشانی کے لمحات سے شروع ہوئی اس کا سفر ابھی ختم ہونے ہی والا نتھا کہ 11 ستمبر 2001 ء کا دن آگیا اور امریکہ میں ٹوؔن ٹاورز سے دو مسافر جہاز ٹکرا دیے گے جس سے آسمانوں کو چھوتی یہ دونوں عمارتیں زمین بوس ہو گئیں۔

یہ دہشت ایک دہائی کے بعد دوسری دہائی تک دنیا بھر کے باسیوں کے لئے امن و سکون سے ہنوز دلی دور است کا بگل بجائے چلی جارہی تھی کہ صدی کی تیسری دہائی کی ابتدا ہوئی۔ امریکہ طالبان امن معاہدہ نے کچھ حوصلہ بخشا ہی تھا کہ چین سے ایک نیا طوفان بپا ہوا۔

یہ طوفان کسی انسان کا دیا ہوا نہیں تھا۔ نہ ہی اس کے پیدا ہونے کے کوئی زمینی یا جغرافیائی مضمرات تھے۔ یہ طوفان ایک وبائی بیماری کی صورت میں نازل ہوا ہے اور آج یعنی تادم تحریر دنیا بھر کے 120 سے زیادہ ممالک کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ اس نئے طوفان کا مؤجب ایک بے خلیاتی جرثومہ یعنی ایک وائرس ہے جس کانام کرونا وائرس ہے اور حرف عام میں اسے حیاتیاتی اور طبی ماہرین نے کووڈ 19 کا نام دیا ہے۔ کرونا وائرس پر ایک جامع تحریر گزشتہ کالم میں آچکی ہے۔ لہذا اس کی ہیئت پر بات یہاں زیر بحث نہیں۔

کووڈ 19 نے نیو ورڈ آرڈر اور تہذیبوں کے تصادم جیسے اکیسویں صدی کے بارے ابتدائی نظریات اور ان پر بحث کی جہت اس گفتگو اور سمت کو یکسر تبدیل کردیا ہے۔

آج اس وقت تک تو گفتگو کا محور کرونا کووڈ 19 کی تباہ کاریاں ہیں۔ ابتک اس وبا سے اڑھائی لاکھ نفوس اپنی زندگیوں کی بلی چڑھا چکے ہیں اور دس لاکھ سے اوپر تک کے انسان اس کے حملے سے برہ راست متاثر ہو چکے ہیں اور فی الحال اس کا وار کسی دم بھی تھمنے کو دکھائی نہیں پڑ تا جس رفتار سے اس وائرس کی وبا انسانوں کو متاثر کرتے ہوئے ان کی زندگیوں کے چراغ گل کیے جارہی ہے۔ ماہرین کے اندازے ہیں کہ جب تک اس کا زور تھمے گا چار سے پانچ لاکھ زندگیاں، انسانی زندگیاں اس کی بھینٹ چڑھ چکی ہوں گی۔ اللہ تعالی ان اندازوں کو غلط ثابت فرمائیں۔ وبائیں جب پھوٹتی ہیں تو ان سے متاثر ہونے والوں میں کوئی امیری غریبی کی تمیز نہیں رہتی بلکہ سب ہی ان کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔ یہ وائرس چین سے چلا اور یورپ سے امریکہ تک جا پہنچا ابتک کوئی بھی ملک یا بر اعظم ترقی یافتہ یا ترقی پذیر اس کی زد سے باہر نہیں۔

اب تک ہم پوسٹ نائین الیون ورلڈ کی بات کیا کرتے تھے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ 9 / 11 نے انسانی رہن سہن اور بین الاقوامی میل جول، سفری معاملات دنیا کی اقتصادیات اور سب سے بڑھ کر دنیا میں امن و امان کی صورت حال کو ابتر کیا حتی کہ ہر شے کو نئی راہ دی۔ اب کووڈ 19 کے بعد ہم دنیا کی ایک نئی جہت دیکھ رہے ہیں۔ ترقیافتہ ممالک کو ایک مرتبہ پھر موجودہ صورت حال نے ایک بڑی اقتصادی اور معاشی ضرب دی ہے اور اس ضرب کے اثرات یقیناً چھوٹے اور ترقی پذیر ممالک کی معاشیات پر بھی آئیں گے بلکہ آنا شروع ہوگے ہیں۔

پوسٹ کووڈ 19 ورلڈ آرڈر کی اصل صورت کیا ہوگی اس کا فیصلہ تو کرونا وار کے ختم ہونے پر ہی ہوگا مگر ایک بات طے ہے کہ آنے والے دنوں میں دنیا بھر کے انسان اپنی زندگیوں کے تمام شعبہ جات میں بہت بڑی سماجی، اخلاقی، اقتصادی، معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں دیکھیں گے۔ یہ تبدیلیاں کتنی سہل یا مشکل ہوں گی۔ ایسا کہنا بھی ابھی قبل از وقت ہے۔ لیکن یہ سہل تو ہر گز نہ ہوں گی بلکہ انتہائی مشکل صورت حال کے پیدا ہونے کے قوی امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔

دنیا میں بڑی طاقتوں کے مفادات بہت حد تک بدل چکے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک جو بڑی طاقتوں کے مفادات کے آلہ کار تھے اور ان کے لئے بھی ترقی یافتہ ممالک کی تبدیل شدہ ضروریات و مفادات بدلتی دنیا کی صورت حال میں شدید دباؤ اور معاشی بہرانوں کا خدشہ ہوگا کیونکہ ان ممالک کی اہمیت اور ضرورت تبدیل ہو چکی ہوگی ترقی پذیر ممالک خصوصا وہ ممالک جو بڑی طاقتوں کے زیر اثر رہے ہیں۔ ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔

یہ بات طے ہے کہ انسانی معاشرے ہمیشہ ہی جنگوں اور وباؤں کے بعد تبدیل ہوئے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ دنیا اس وبا سے کتنی جلدی نجات پاسکے گی اور اس کے بعد جب ہم اس کی تباہ کاریوں پر نوحہ کنائی کر چکیں گے اور کس قدر جلد اس شاک یا ٹرامہ باہر نکلیں گے تو آنے والے حالات ہمارے سامنے کیسی دنیا بنا چکے ہوں گے۔ یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ پوسٹ کووڈ 19 ورلڈ آرڈر کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور اس نئے پوسٹ کووڈ 19 ورلڈ آڈر میں ہمارے لئے کیسی دنیا ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments