کشمیر کے مسلم تشخص پر آخری وار



پانچ اگست کو گزشتہ برس بھارتی حکومت نے کشمیریوں کے سیاسی اور آئینی تشخص پر شب خون مارا۔ ابھی یہ زخم ہرا ہی تھا کہ بھارتی حکومت نے ڈومیسائل کا قانو ن ہی بدل ڈالا۔ یعنی جلتی پر تیل ڈال دیا۔ اس تبدیلی کے ذریعے بھارتیہ جنتا پارٹی کی کشمیر دشمنی میں جو کسر رہ گئی تھی وہ بھی پوری ہوگئی۔ اب باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے بھارتی باشندوں کو ریاست میں زمین خریدنے اور دیگر وسائل ہتھیانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ یہ بھارتی حکومت کا کشمیریوں کا تشخص چھیننے، اکثریتی آبادی کو اقلیت میں بدلنے کا ایک اور لیکن کاری وار ہے۔

بھارتی حکومت کشمیریوں کا مسلم اکثریتی تشخص چھیننے کے کئی دھائیوں پرانے منصوبے کو تیزی سے مکمل کررہی ہے۔ بھارتی یونین میں موجود واحد مسلمان ریاست جموں وکشمیر انتہا پسند ہندووں کو روز اول سے کھٹکتی تھی۔ وہ مناسب وقت اور موقع کی تاک میں تھے۔ مودی کے دوبارہ انتخاب اور بھاری اکثریت سے کامیابی نے انہیں موقع فراہم کیا کہ وہ بھارتی آئین کی دفعہ 370 مہں تبدیلیاں کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر یں۔ بھارت نے کبھی اپنے وعدوں سے پھرنے میں کوئی دیر نہیں کی ’وہ مہاراجہ یری سنگھ سے کیا گیا ریاست کی نیم خود مختاری کا وعدہ ہو، شیخ عبداللہ سے کیا گیا ریاستی تشخص کو برقرار رکھنے کا وعدہ ہو، اقوام متحدہ سے کیا گیا مسئلہ کشمیر کے حل کا اور حق خوداردی دیے جانے کا وعدہ ہویا ریاست کے عوام کے ساتھ کیا گیا ان کے حقوق کے تحفظ کا وعدہ ہو۔ بھارتی حکمرانوں کے نزدیک وعدہ اگر وفا ہوجائے تو پھر وہ وعدہ ہی کہاں۔

بھارت نے جابرانہ کرفیو، لاک ڈاون اور انٹرنٹ بندش کے ذریعے کشمیریوں کی آواز کو دبا رکھا ہے اور بے شرمی سے ریاست کے مسلم تشخص کوختم کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں اٹھایا جانے والا تازہ ترین قدم دہلی کی طرف سے لایا جانے والا متنازعہ ڈومیسائل قانون ہے۔ جس کا مقصد ہندوستان بھر سے لوگوں کی مقبوضہ وادی میں آباد کاری میں تعاون ہے۔

پانچ اگست 2019 سے قبل اکثر مقامی وسائل پرریاست کا حق تھا۔ قانون ساز اسمبلی اپنے قوانین بنانے کی مجاز تھی۔ حکومت اگرچہ کٹھ پتلی تھیں مگر ریاست کا تشخص، زمین، وسائل اور نوکریاں محفوظ تھیں۔ کہنے کے لئے تو قانون ساز اسمبلی اب بھی موجود ہے مگر اب جموں و کشمیر ایکٹ 2019 کے بعد دہلی براہ راست بھی قانون سازی کر سکتا ہے۔ متنازعہ ڈومیسائل قانون کے مطابق اب جموں وکشمیر میں موجود نوکریاں (خواہ جریدہ ہوں یا غیر جریدہ) صرف کشمیریوں کا حق نہیں ہوں گی۔ درجہ 4 اور اس سے نیچے کی نوکریاں جیسے جونیر اسسٹنٹ اور کانسٹیبل وغیرہ، جو صرف کشمیریوں کا استحقاق تھیں اور کشمیری پشتیی باشندگان کے علاوہ کسی کو نہیں مل سکتیں تھیں ان پر شب خون مارنے کے لئے ڈومیسائل کا قانون لایا گیا ہے۔

نئے قانون کے مطابق کوئی بھی شخص جو پندرہ سال سے مقبوضہ کشمیر میں رہائش پذیر ہو یا 7 سال سے یہاں پڑھائی کررہا ہو اور میڑک یا انٹرمیڈیٹ میں سے کوئی امتحان دے چکا ہو، ڈومیسائل کا حقدار ہو گا۔ وہ بچے جن کے والدین میں سے کوئی ایک مرکز کا ملازم ہو، انڈین سول سروس، یا مرکز کے زیرانظام نیم خودمختار اداروں، پبلک بینکوں، مرکزی یونیورسٹیوں یا مرکز کے تسلیم شدہ تحقیقاتی اداروں میں ملازم ہو اور دس ( 10 ) سال کا عرصہ ملازمت مکمل کر چکے ہو ڈومیسائل کا حقدار ہوگا۔ درجہ 5 اور اس سے اوپر کی تمام نوکریوں کے لئے بھی کشمیریوں کے علاوہ ہندوستان کے تمام شہری اہل ہیں۔

محکمہ بحالیات کے ریکارڈ میں درج تمام مہاجرین بھی ڈومیسائل کے حقدار ہوں گے۔ نیز وہ بچے جن کے والدین مزکورہ بالا شرائط پوری کرتے ہوں خواہ بچے خود کشمیر میں ریائش پذیر نہ ہوں، بھی اہل ہوں گے ۔ علاقے کے تحصیلدار ڈومیسائل جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔

ریاست کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت نے اس قانون پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ نئے قانون کے تحت ڈومیسائل مستقل باشندہ ریاست کے علاوہ آباد کاروں کو بھی مل سکے گا اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی حکومت ریاست کا اسلامی تشخص اور ڈیموگرافی تبدیل کرنے کی سازش میں مصروف ہے۔ مزید خدشہ اس بات کا ہے یہ قانون ان سیکیورٹی فورسز اور ان کے بچوں کو بھی ریاست کے وسائل میں حصے دار بنا دے گا جنہوں نے گزشتہ دس سال سے مظلوم کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رکھے ہیں۔ یہ قانون ہر کشمیری کے لئے ناقابل قبول ہے یہاں تک کہ دہلی نواز سیاست دان بھی سراپا احتجاج ہیں۔

عمرعبداللہ نے اپنے ٹویتر پیغام میں اس قانون کے لئے ایسے وقت کے انتخاب پر حیرت کا اظہار کیا ہے جب دنیا بھر میں حکومتیں اپنے عوام کے ساتھ مل کر کرونا کی وبا کے مقابلے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ دیگر قائدین نے بھی یک زبان ہو کہ بھارتی حکومت کی نیت اور وقت کے انتخاب ہر شبے کا اظہار کیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوں پر بہت مشکل وقت آن پڑا ہے۔ انہیں اقلیت میں بدلنے کی راہ میں تمام رکاوٹیں دور کردی گئیں ہیں۔

آزاد کشمیر میں بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ بھارت سے اچھی توقع رکھنا ہی عبث ہے۔ بھارت کے ان ارادوں کو قائد اعظم محد علی جناح نے قیام پاکستان سے قبل ہی بھانپ لیا تھا۔ تبھی انہوں نے شیِخ عبداللہ پررئیس الحرار چودھری غلام عباس کو فوقیت دی تھی۔

آج غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان کی فراست، کے ایچ خورشید کی عظمت اور مجاہد اوّل سردار عبدالقیوم خان کی شجاعت کو سلام پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔ انہوں نے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کر کے ہماری نسلوں کی حفاظت کا انتظام کیا۔ آج نہ صرف آزادکشمیر کی تمام نوکریوں اور پیشہ اداروں میں داخلے کا حق ہمارا اپنا ہے بلکہ پاکستان کی اعلی سول سروسز اور پروفیشنل اداروں میں بھی ہمارا کوٹہ مختص ہے۔ آج اسی بغاوت کا ثمر ہے کہ آزاد خطے میں لوگ سکون کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مگر حقیقی سکون تب تک ممکن نہیں جب تک ہمارے بہن، بھائی اور بچے مقبوضہ علاقے میں زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے بھی محروم ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کے مکروہ چہرے اور بھیانک عزائم کو دنیا کے سامنے لانے کے لئے ہم میں سے ہر ایک اپنا کردار نبھائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments