ہاتھ دھو کر گھر بیٹھنے کے دن


کہتے ہیں کہ خوشیوں، غموں اور آفات کو جھیلنا پارٹ آف لائف ہے جبکہ ہر حال میں خوش رہنے کی کوشش“ آرٹ آف لائف“ ہے۔ وقت تو ہوتا ہی گزرنے کے لئے ہے اسے ہنس کے گزاردیں یا رو کر: مانا کہ اس وقت دنیا کو شدید رنج و خوف سے سابقہ ہے مگر یہاں مایوسی اور خوف کی بجائے حوصلے اور احتیاط کی ضرورت ہے۔ بھلے فریب سہی، خود اور دوسروں کو مایوسیوں سے نکال کر خوش رکھنے کی کوشش کی جائے۔ یہ آ فت انہونی نہیں بلکہ ہر دور میں ایسی آزمائشیں آتی رہی ہیں۔

اب ہم اپنے زمانے اور اپنے حصے کی آزمائش بھگت رہے ہیں۔ ان حالات میں محض غموں کی تجارت کی بجائے تھوڑی سی تبسم فروشی بھی درکار ہے جو یقیناً حسنات میں شمار ہوگی۔ ہمارے ہاں“ ہاتھ“ سے منسوب بے شمار محا ورے رائج ہیں جو آج پورے گلوبل ویلیج پہ صادق آرہے ہیں۔ وہ یوں کہ کرونا نے سب سے پہلے چین میں ہاتھ دکھایا۔ پھر ایران پر ہاتھ صاف کیا اور پھر ہاتھ دھو کر پوری دنیا کے پیچھے پڑ گیا۔ ادھر عوام الناس پہلی بار ہاتھ دھو کر کسی کے پیچھے پڑنے کی بجائے ہاتھ دھو دھوکر اپنے اپنے گھروں میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنے پر مجبور ہوئے۔ اقبا ل سے ذرا سی معذرت کے ساتھ،

ایک ہی گھر میں جمع ہوگئے شہناز و اعجاز
نہ کوئی زوجہ رہی اور نہ کوئی خاوند مجاز

اب تو صرف اک چیز کثرت سے میسر ہے۔ وہی“ وقت“ جس کا عرصے سے شکوہ تھا۔ وہ وقت کہ جس کے گزرنے کا احساس نہیں ہوتا تھا اب گزرے نہیں گزر رہا۔ اب دل فرصت کے رات دن ڈھونڈنے کا خواہاں نہیں بلکہ آج دل مصروفیت کے رات دن ڈھونڈتا ہے۔

اپنے گھر کا منہ نہ دیکھنے اور گھر بیٹھ کر نہ کھانے کے قائل احباب کو بھی گھر بیٹھنا اوراپنے گھر سے کھانا پڑ رہا ہے۔ صفائی سے بیر رکھنے والی قوم بادلِ نخواستہ صفائی پہ آمادہ ہے یا پھر خود قدرت عازمِ تطہیر ہے۔ سوشل میڈیا کے لطائف قومی مزاج کے عین مطابق ہیں۔ کیا یہ درست نہیں کہ ہم یہ دیکھنے باہر آجاتے ہیں کہ سڑکوں پر کتنے لوگ پھر رہے ہیں۔ سب سے بے ہنگم نئی نسل ہے جو ہر لحاظ سے لا محدود ہونے کے ساتھ ساتھ کرکٹیریا کے بیکٹیریا کا شکاربھی ہے۔

ان کرونک حالات میں بھی کرکٹ ٹورنامنٹ جاری ہیں۔ اب کرونا کی ویکسین کی ایجاد سے پہلے یوتھ وارم کی دوا کی اشد ضرورت ہے جو انہیں گھر بیٹھنے کے قابل بنائے۔ شاید قوم کو اب آبادی میں اندھا دھند اضافے کا احساس ہوا ہو لیکن حالیہ لاک ڈاؤن میں اس اضافے کے دگنا ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ درجن بھر نور ہائے نظر کے حامل خاندا نوں کو اپنے ہی گھر میں رہنا محال ہوا ہے حتیٰ کہ واش روم جانے کی صورت میں اپنی چار پائی پر کپڑا رکھنا پڑرہا ہے۔

کسی نے لکھا ہے کہ ان حالات میں کرونا جائے نہ جائے، طلاق کی شرح بڑھنے کے آثار ضرور ہیں۔ گھر میں محصور شوہر اور شاعر کا دماغ یا تو چل جاتا ہے یا پھر چل پڑتا ہے۔ سیانے شوہر بار بار ہاتھ دھونے سے کترا رہے ہیں کہ کہیں دوسری شادی کی لکیر ہی نہ مٹ جائے۔ دوسری طرف کچھ سیانی بیویاں ہاتھ دھوتے شوہروں کے ہاتھوں میں برتن تھماتی بھی دیکھی جارہی ہیں۔ لاک ڈاؤن کا سنہری اصول ہے کہ کرونا سے ڈرنا نہیں اور بیوی سے لڑنا نہیں۔

فروری میں ویلنٹائن کے بعد مارچ اپریل میں کورنٹائن کے چرچے ہیں۔ دیر سے سونے اور دیر گئے تک سونے والے زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہوچکے ہیں۔ یہ بھی سنا ہے کہ بنوں میں اٹلی پلٹ شخص کے کرونا ٹیسٹ منفی آنے کی خوشی میں اہلِ خانہ کی فائرنگ سے کئی افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ اندر کے بت عین سلامت مگر باہر اذانوں کا شور معنی خیز ہے۔ اک عالم ِ وقت نے کرونا کے علاج کا دعویٰ کیا مگر کسی کو بتانے سے تاحال انکاری ہے۔

گویا ہم دافع البلیات اعمال کے کم اور داعی البلیات سرگرمیوں کے زیادہ خوگر ہیں۔ چودہویں صدی کے طاعون کے سدِباب کے لئے مصر اور شام میں کی گئی اجتماعی دعاؤں کے بعد مرض دگنا ہوگیا۔ پیروں اور عاملوں کے منتر بھی ہوا ہوئے۔ اب قریب کے پھونکوں کی بجائے صرف فلائینگ دم پھونکوں کی کچھ گنجائش باقی ہے۔ ہمسایہ ملک تو دو ہاتھ اورآگے نکلا کہ آج بھی گائے کے فضلات کو کرونا کا توڑ مانتا ہے۔ اور ہم بھی اس بحث میں الجھے ہیں کہ ملک میں وارد پہلا کرونا حاجی تھا یا زائر۔

ان سے تو شاعر بھلے کہ ہر وقت موت کی خواہش رکھنے کے باوجود غالب نے وبائے عام میں مرنا اپنی شان کے خلاف سمجھا اور وبائی علاقے سے بھاگ نکلے۔ اک خیال ہے وکلاء کے سوا سب طبقات متاثر و مہجور ہیں۔ ٹیچرزبھی کام، کاج اور اناج والے محاورے پہ کار بند ہیں البتہ پولیس اور ڈاکٹرز خوب تحسین سمیٹ رہے ہیں۔ ملکی تاریخ میں بارِاول پولیس کی گالیوں اور چھترول کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے۔ ان دنوں دانش و تحقیق بھی معراج پر ہے۔

گھرکی جملہ اشیاء کے اجزائے ترکیبی اوران کے تعددِ عناصرکی سائنس بھی زوروں پر ہے۔ بسکٹ اورچھلنی کے سوراخوں سے ٹوٹی سے پانی کے اخراج کی فزکس اورچھت کے ٹی آئرن اور ٹائلز کی کیمسٹری جاری ہے۔ اللہ کے ہر کام میں مصلحت ہے۔ آفات بھی انسان کو بزورِ شمشیر سدھارنے کا موجب ہیں۔ پہلے ادوار کی آفات بھی تبدیلی و ترقی کا موجب بنیں تھیں۔ بلیک ڈیتھ کے بعد ہی یورپ میں نئی دنیائیں دریافت ہوئیں۔ اب بھی ڈیڑھ اینٹ والی انسانیت کچھ کچھ ”نسلِ آدم“ لگنے لگی ہے۔

زمینی وسائل اور فطرت کی قدر کا احساس پیدا ہوتا ہے اور وباؤں کی وجوہات اور علاج دریافت ہوتے ہیں۔ ابھی دیکھیں کہ پوری دنیا میں فضائی، زمینی اور آبی آلودگی میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ حیران کن بات یہ کہ اوزون کی تہہ بھی بہتری کی جانب گامزن ہے۔ فضول خرچیاں اور غیر ضروری سرگرمیاں معطل ہیں۔ لبرل ازم کے متاثرین ہاتھ ملانے سے گئے بلکہ اب تو ان کے تمام کاموں میں صرف ”اللہ“ کی مرضی چل رہی ہے۔ اکھیوں کو اکھیوں کے آس پاس رکھنے کی خواہشات دم توڑ رہی ہیں بلکہ محبت کی کسوٹی میں بھی چھ فٹ کی دوری طے ہوچکی ہے۔

ان کی عقل پہ پڑا پردا ان کے چہروں پر آن پڑا ہے۔ جرائم کم ہوئے ہیں اور دیگر بیماریوں کا احساس بھی جاتا رہا ہے۔ سچ ہے کہ سردرد نہ رکے تو پاؤں پہ زور سے ہتھوڑی ماریں، فوراً رُک جائے گا۔ اس وبائی اعتکاف میں ہاتھ دھو کر گھر بیٹھنے کے سبب صفائی اور سماجی فاصلے کی باتیں کھوپڑی میں سمانے لگی ہیں۔ بِن بلائے مہمانوں، افسوسی حضرات اورمبارکبادی طبقات سے نجاتِ کاملہ کے ایام ہیں۔ انٹروورٹس لوگوں کے لئے تو بلی کے بھاگوں چھیکا ٹوٹا ہے مگر ایکسٹروورٹس کے سروں پر غم و اضطراب کے ہمالے ٹوٹ رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنے آپ کو، اپنے بزرگوں اور اہل وعیال کو شاید پہلی بار غور سے دیکھنے اور سمجھنے میں خاصی مدد مل رہی ہے جو عام حالات میں ممکن نہ تھی۔

آخر میں موجودہ صورت حال پر بھائی فیصل زمان چشتی کے چند اشعار

آنے جانے سے گئے چہرہ دکھانے سے گئے
کیسی پھیلی ہے وبا ء ہاتھ ملانے سے گئے
دور سے اپنے سلاموں کے جواب آتے ہیں
شہر والوں کو ہم احوال سنانے سے گئے
چند غیروں نے میرے زخم پہ مرہم رکھا
وہ جو اپنے تھے مِرے ملنے ملانے سے گئے
اب کے بربادی پہ اتنے ہوئے بے بس فیصل
اپنی ہستی کی بھی ہم خاک اڑانے سے گئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments