کورونا وائرس اور دنیا کو درپیش چیلنجز!


کورونا وائرس کے باعث متاثرین کی تعداد پوری دنیا کے مما؛لک میں کب اور کتنی بڑھ جائے تاحال کوئی بھی پشین گوئی کرنا قبل از وقت ہے حالات تشویشناک حد تک دن بدن کروٹیں بدل رہے ہیں کرہ ارض پر موجود دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ ہو جہاں اس وائرس نے تباہی کی داستان رقم نہ کی ہو۔ دنیا بھر میں اس قزاق اجل کے باعث دنیا کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں کاروباری مراکز پر جہاں قفل لگ چکے ہیں وہیں اب تک یہ وائرس دنیا بھر میں اژدھا بن کر پانچ ملین افراد کو نگل چکا ہے۔

وبائی امراض اس عالم موجودات کے لئے کوئی نئی حقیقت نہیں بنی آدم ہر بیس ’پچیس یا پچاس ساٹھ برس کے بعد کسی نہ کسی متعدی وائرس کا ضرور شکار ہوا ہے 1918 ء اور 1919 ء کے دوران ہسپانوی بخار کی مہلک وبا کے ہاتھوں پانچ کروڑ لوگ لقمہ اجل بن گئے تھے یہ تعداد چار سالوں تک جاری پہلی عالمی جنگ میں مارے جانیوالے افراد سے تین گنا زیادہ تھی۔ انسان کو اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات کے درجہ سے نوازا ہے اور انسان صدیوں سے ایسے پوشیدہ وائرس کی یلغار سے نبرد آزما رہا ہے تاریخ کے در پر کھڑے ہو کر جھانک لیں جب بھی کوئی متعدی وائرس کرہ ارض پر آباد انسان پر حملہ آور ہوا انسان نے اپنی عقل و فراست سے ہمیشہ اسے مات دی اور ہمیشہ قدرت کی نوازشوں کے طفیل انسانیت نے فتح حاصل کی۔

کورونا وائرس سے بچنے کا فی الحال انسان نے ایک ہی حل نکالا ہے چونکہ اس متعدی وائرس کی ابھی تک کوئی ملک دوا ایجاد نہیں کر سکا لہذا سماجی دوری کو اپنا کر اسے مات دی جائے تاکہیہ وائرس اپنی موت آپ مر جائے۔ پوری دنیا اس وقت اس کورونا وائرس کی زد میں ہے اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اس وبا سے بچاؤ کے لئے اس کا علاج تلاش کرنے میں مصروف عمل ہے تاکہ اس وائرس کے حملہ سے انسانیت کو بچایا جا سکے۔ حال میں ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ایک جذباتی بیان میں کہا ہے کہ اس وقت میرے لئے ملک کی معیشت بچانے سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اپنی عوام کو موت سے کیسے بچایا جائے ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان قابل غور اور فکرمند اشارہ ہے کورونا وائرس آج نہیں تو کل اپنی بساط بھر تباہ کاریوں کے بعد اپنے انجام کو پہنچ جائے گا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے جو معیشت بچانے کی بات کی ہے اس سے اندازہ لگانا دشوار نہیں کہ کورونا کے بعد دنیا کو معاشی ابتر صورتحال کے پیش نظر معیشت کو دوبارہ استحکام دینے کے لئے شدید جنگ لڑنا پڑے گی۔

آج پوری دنیا کی معاشی رفتار کو بریک لگ چکی ہے دنیا بھر کے تجارتی مراکز تالے کی زد میں ہے اور تقریبا دنیا کی نوے فیصد آبادی لاک ڈاؤن کے حصار میں ہے اس وائرس کے باعث دنیا ایک بڑے جیل خانہ میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے۔ دنیا کی معاشی رفتار کو جس انداز میں اس وائرس نے بری طرح متاثر کیا ہے اب معشعیت کو دوبارہ پٹری پر لانے کے لئے دنیا کو طویل جدوجہد کرنا پڑے گی تیز رفتار ترقی کے حامل ممالک بھی کی معیشت بھی اس وائرس کے حملہ کے باعث پستی کی جانب گامزن ہو چکی ہے اور ترقی پذیر غریب ممالک کے لئے تواپنی معیشت کو سنبھالا دینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا کیونکہ یہ ممالک تو پہلے عالمی مالیاتی اداروں کے قرض کی بیساکھیوں کے سہارے چل رہے ہیں۔

اس وقت صورتحال یہ کہ اس وبا سے نبرد آزما ہوتے ہوئے دنیا اس جنگ کو جیتنے کے لئے اپنے تمام تر وسائل استعمال کر رہی ہے معدوم ہوتی معاشی رفتار کے اثر سے براہ راست پوری دنیا متاثر متاثر ہو رہی ہے۔ کورونا وائرس کے خاتمہ کے بعد پوری دنیا کے اقتصادی حالات مزید خراب ہو جائیں گے ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق چھوٹے کاروببار کرنے والوں کو از سر نو شروعات کرنا پڑیں گی بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہو گا۔ ورلڈ بنک کے چیف اکنامسٹ برائے مشرقی ایشیاء ادیتہ مٹو نے چین کے حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس وائرس کے منفی نتائج کی صورت میں مشرقی ایشیائی ممالک کے تقریبا ایک کروڑ دس لاکھ افراد غربت کی عمیق کھائی میں دھکیل دیے جائیں گے۔

دنیا کو اس وائرس کے نتائج کے بعد دنیا غیر معمولی معاشی جنگ کا شکار ہو جائے گی دنیا میں شدید اقتصادی مسائل پیدا ہو جائیں گے جس کے باعث دنیا کو معاشی استحکام دینے کے لئے کھٹن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اس کورونا وائرس سے نجات پانے کے بعد دنیا کو ایک شدید معاشی بحران سے لڑنا ہوگا۔ کورونا وائرس کی موجودگی اگر مزید طوالت اختیار کر گئی تو تین قسم کی غیر یقینی صورتحال کا سامنا دنیا کو کرنا پڑے گا پہلی یہ کہ اس وائرس سے مزاحمت کے لئے دنیا کوئی ویکسین تیار کر پاتی ہے یا نہیں اگر کوئی دوا ایجاد نہ کی گئی تو شدید گرمی میں یہ وائرس چھپ تو جائے گا لیکن موسم سرما میں دوبارہ ظاہر ہونے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا اگر امیونٹی بڑھتی ہے تو کورونا کا اثر محدود ہو جائے گا اگر امیونٹی نہ بڑھی تو یہ وائرس بار بار حملہ آور ہوگا۔

اس غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر یہ طے کرنا مشکل ہے کہ اس وائرس کی مدت قلیل ہو گی یا یہ طویل مدتی ہو گا۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر یہ وائرس لمبے عرصہ تک رہا تو معاشی طور پر دیوالیہ ہونے والے ممالک کے لئے معیشت کو سنبھالنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ عالمی سطح پر جو لاک ڈاؤن ہے اس سے تقریبا دنیا کی دو تہائی آبادی متاثر ہو رہی ہے تمام عوامی ادارے‘ اسکول ’کالجز‘ بازار ’تفریح گاہیں‘ مسجد ’مندر‘ چرچ ’گوردواروں‘ کارخانوں ’کاروبار پر تالہ پڑ چکا ہے زندگی پورے طریقے سے مفلوج ہو کر رہ گئی ہے۔

اس وائرس سے نمٹنے کے لئے پوری دنیا کے انسانوں کو ادراک ہو چکا ہے کہ اگر احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کیا گیا تو خود کو موت دینے کے مترادف ہو گا۔ بڑی تشویشناک صورتحال ہے اگر اس وائرس کے خاتمہ پر لاک ڈاؤن کھل گیا تو متوسط اور نچلے درجے کے طبقے کے لئے اپنی زندگی ایک نئے زاویے اور اپنے کاروبار زندگی کو صفر سے شروع کرنا پڑے گا جو کہ بہت تکلیف دہ صورتحال ہو گی۔ دنیا یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس وائرس کی واپسی کے بعد انہیں کس قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہیاور کاروبار زندگی کے لئے کس قسم کی جدوجہد کرنا پڑے گی۔

ایک بات تو طے ہے کہ اس وبائی مرض سے نجات کے بعد انسان ایک نئی دنیا سے روشناس ہوگا جو موجودہ دنیا سے یکسر مختلف ہو گی لیکن یہ مرحلہ اسی صورت درپیش ہو گا جب زندگی برقرار رہے گی لہذا پہلی ترجیح تو انسان کو سمجھنی چاہیے کہ پوری احتیاط سے کام لیتے ہوئے عالمی ادارہ صحت کی تما ہدایات اور مشوروں پر عمل کرنا انتہائی ضروری ہے جو حکومت کے توسط سے ہم تک پہنچ رہی ہیں بہرحال دنیا کو نئے سرے سے زندگی کی شروعات کرنے کے لئے بڑی جدوجہد کے ساتھ اس مختلف دنیا میں قدم رکھنا ہو گا جو کہ دنیا کے لئے مشکل ترین چیلنج ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments