جاوید چوہدری، اپنے خدا کو جھوٹ سے ثابت نہ کریں


پاکستان میں اٹلی کے سابق سفیر ستیفانو پونتکورو۔ ان دنوں ٹویٹ پر اٹلی کا بھر پور دفاع کر رہے ہیں۔ وہ ہر فیک نیوز کا قلع قمع توکرتے ہی ہیں لیکن اب تو وہ ہمارے دانشوروں کے لتے لینا بھی شروع ہوگئے ہیں۔ چند دنوں پہلے انہوں نے جاوید چودھری کے کالم کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ جاوید چودھری صاحب نے اپنے ایک کالم میں کورونا کو اسلام کا سب سے بڑا مبلغ ثابت کیا ہے۔

موصوف لکھتے ہیں “میں فرانس اور اٹلی بہت گیا ہوں،  میں چینیوں کو بھی جانتا ہوں،  یہ لوگ جسمانی صفائی میں بہت پست ہیں،  چینی اوسطاً مہینے میں ایک بار نہاتے ہیں،  فرانس اور اٹلی میں بھی نہانے بلکہ ہاتھ منہ دھونے کی روایت نہیں،  آپ کسی دن صبح کے وقت میٹرو میں سفر کر کے دیکھ لیں،  آپ کو لوگ بالخصوص خواتین تھوک سے آنکھیں صاف کرتی نظر آئیں گی، یہ لوگ صبح اٹھتے ہیں، کپڑے پہنتے ہیں اور ہاتھ منہ دھوئے بغیر باہر نکل آتے ہیں، یہ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد دونوں وقت ہاتھ نہیں دھوتے۔ یہ لوگ جسمانی صفائی میں ہم سے بہت پیچھے ہیں… اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے دنیا میں جب بھی کوئی بیماری پھیلتی ہے تو یہ اس کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں جب کہ ہم مسلمان ہر بار وباؤں سے بچ جاتے ہیں، ہم مسلمان اس بار بھی بچ رہے ہیں۔ آخر میں کورونا کے بارے فرماتے ہیں۔ ۔ یہ مبلغ اسلام بھی ہے، اس نے پوری دنیا کو بتا دیا کہ مذہب صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے اسلام۔ لہٰذا کرونا صاحب تسی گریٹ ہو، تسی زندہ باد ہو۔۔۔

اس پیرا گراف سے پتہ چلتا ہے کہ چودھری صاحب کا اطالوی ثقافت کے بارے علم تو کمزور ہے ہی لیکن دوسری جانب کالم میں پیش کئے گئے تخیل پر بھی ان کی اپروچ ڈھیلی ہے، جو وائرس دنیا میں ستر ہزار جانیں لے گیا ہے اس کے بارے زندہ باد جیسے الفاظ کسی مضحکہ خیزی سے کم نہیں ہیں۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر وائرس اتنا بڑا مبلغ ہے تو پھر تو ہر مسلمان کو آگے بڑھ کے اس وائرس کو گلے لگا لینا چاہیے اور ایک دفعہ بیمار ہو کر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔

چودھری صاحب نے لکھا کہ مسلمان اس وائرس سے بچ گئے۔ ان کو اتنا بھی نہیں پتہ کہ چین کے بعد دوسرا ملک ایران تھا جو اس وائرس کی لپیٹ میں آیا۔ سعودی عرب میں حرمین شریفین کوبھی بند کرنا پڑا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یہ مبلغ اسلام مسلمان ممالک کا رخ ہی نہ کرتا لیکن یہ کم بخت نگوڑا اب ہر مسلمان ملک میں داخل ہو رہا ہے۔ ہمارے ممالک میں مساجد بند کرا چکا ہے۔ ہمیں جمعہ کے اجتماعات سے محروم کر چکا ہے۔ بریلویوں کا عرس، شیعہ کی مجلس، وہابیوں کا تبلیغی اجتماع کوئی بھی فرقہ کوئی بھی مسلک کوئی بھی مکتبہ فکر اس کی نحوست سے محفوظ نہیں۔ یہ مبلغ خانقاہوں، درگاہوں، مسجدوں اور امام بارگاہوں کی روشنیاں ماند کرگیا ہے۔

یہ مبلغ ہماری مذہبی روایات پر بھی حملہ آور ہوا۔ شادی نکاح، ختنہ، جنازہ، ختم درود، ایصال ثواب، گیارہویں، تو ایک طرف ہمیں ہاتھ تک نہیں ملانے دے رہا۔ ہمارے مذہبی بزرگ جو اپنے مریدوں سے ہاتھ چومواتے تھے، پاﺅں پر انہیں جھکاتے تھے وہ بھی گوشہ تنہائی میں چلے گئے۔ جن کے گھر کے باہر میلہ لگتا تھا۔ جن سے اپنے درد کی دعا لینے والوں کی بھیڑ ہوتی تھی، وہ بھی اب لیموں کا کاڑھا پی کر آن لائین پھونکیں مار رہے ہیں۔ ہمارے ملنگوں کے جھاڑ پھونک، دم دعا، نذر نیاز، نذرانہ چندہ چادرمنت سب پر تالا لگ گیا۔ ہمارے عمرے طواف کی رونقیں تو گئی ہی تھی اب تو ہم سب مل کر اس سال کے حج کے لئے دعا گو ہیں۔

جاوید چودھری صاحب کے کالم پر اطالوی ڈپلومیٹ نے لکھا کہ اٹالین کلچر پر بات کرتے ہوئے آپ کے مشہور اینکر کو اتنا بھی نہیں پتہ کہ وہ کیا بات کر رہا ہے۔ استیفانو صاحب کیا کریں کہ چودھری صاحب ایسا لکھنے میں حق بجانب ہیں کیونکہ جس معاشرے میں مطالعہ کا شوق نہ ہو اور جس ملک میں اسی فیصد لوگ لائبریری نہ جاتے ہوں۔ وہاں اگر آپ نے ہردلعزیز لکھاری بننا ہے تو وہ لکھنا پڑتا ہے، جو لوگ پڑھنا چاہتے ہیں۔ نامور مقرر بننے کے لئے وہ تقریر کرنی ہوتی ہے جو لوگ سننا چاہتے ہیں۔

اسی طرح سوشل میڈیا پر لائیکس بڑھانے ہیں کے لئے وہ جھوٹ شیئر کرنا پڑتا ہے جس سے آپ کے اپنے لوگوں کا نظریہ یا مذہب سچ ثابت ہوجائے مثلاً آپ کئی سال پرانی لاطینی امریکہ کے کسی الیکشن احتجاج کی ویڈیو نکالیں اور لکھیں کہ اٹلی میں تمام مذاہب کے ماننے والے لوگ مسلمانوں کے طریقے پر سر بسجود ہوگئے۔ آپ لکھیں کہ لوگوں نے اٹلی میں روپے سڑکوں پر پھینک دئیے۔ آپ لکھیں کہ اٹلی کے وزیر اعظم نے روتے ہوئے کہا، میرے ہاتھ کھڑے ہیں۔ اب تو میں کسی آسمانی مدد کا انتظار کروں گا۔

آپ لکھیں کہ چین میں دھڑا دھڑ قرآن تقسیم ہونا شروع ہو گئے۔ آپ لکھیں کہ اٹالین حکومت نے لوگوں کو اسلام قبول کر لینے کا حکم دے دیا۔ آپ لکھیں کہ اٹلی حکومت نے مسلمان شہریوں سے اذان دینے کی التجا کر دی۔ وغیرہ وغیرہ پھر دیکھیں آپ کی پوسٹس کی شیئرنگ بڑھ جائے گی اور لائیکس بھی آ جائیں گے۔

کورونا وائرس کیا آیا۔ ہر جغادری کو اپنا نظریہ سچ ثابت کرنے کا موقع مل گیا۔ ہندو کہنے لگا، دیکھا ثابت ہو گیا ہمارا دھرم ہی سچا ہے۔ آج سے صدیوں پہلے سے ہم کسی سے ہاتھ نہیں ملاتے، دونوں ہاتھ جوڑ کر نمستے کرتے ہیں۔ مسیحی پادریوں نے ٹویٹ کیا، دکھ کی ابتدا ہونے کو ہے۔ مسیح آنے کو ہے۔ مسلمان فیس بک مجاہد کہنے لگا، میں نہ کہتا تھا کہ بچت صرف وضو کرنے میں ہے۔

اور ان سب سے بڑھ کر شور ملحد نے مچایا۔ کہنے لگا دیکھا میرا نظریہ سچ ثابت ہوا۔ کوئی خدا نہیں ہے۔ تمام پنڈت، مولوی، پادری، اور دیگر مذاہب کے بڑوں کی نظریں کافروں کی لیبارٹریوں کی جانب ہیں کہ کب اس کا علاج دریافت ہو اور دنیا کو نجات ملے۔ ثابت ہوا کہ انسان کورونا وائرس ہو کوئی دوسری افتاد ایک دوسرے سے جڑنے اور ایک دوسرے کے دکھ میں شامل ہوکر اسے ڈھارس دینے کی بجائے اپنے اس نظریے کو سچا ثابت کرنے میں صرف کر دیتا ہے، جس کا فیصلہ اس کی پیدائش کے چند منٹ بعد ہی دوسروں نے کر دیا ہوتا ہے

آج کل کے دانشور کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اب دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ اب آپ اپنے لوگوں کو خوش کرنے کے لئے الف لیلوی کہانیاں نہیں لکھ سکتے۔ ایک کلک سے آپ کا سارا کالم ترجمہ ہو جاتا ہے۔ آپ کا سارا علم اس وقت صفر ہو جاتا ہے۔ جب آپ اس ملک میں رہنے والے کسی بھی شہری سے مکالمہ کرتے ہیں۔ آج دنیا میں وہی عالم ہے جو رنگ نسل اور مذہب کی عصبیت سے نکل کر سوچے اور لکھے۔ جہاں تک بات ہے ہمارے مذہب کی تو آج کے مبلغ کو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ ہمیں اپنے خدا کو ثابت کرنے کے لئے کسی قسم کی جھوٹی تشریحات کا سہارا نہیں لینا چاہیے۔ ہمارے سامنے صحابہ کی مثال موجود ہے۔ حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ اب اگر کوئی مجھے جنت لا کر دکھا دے تو بھی میرے ایمان میں ایک رتی برابر اضافہ نہیں ہوگا کیونکہ مجھے پہلے ہی اپنے نبی ﷺ محترم کی بات پر حق الیقین ہے کہ جنت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments