اپوزیشن اور مقتدر حلقے کپتان کی مدت پوری کروانا چاہتے ہیں


کورونا وائرس کے خوف نے سب کو گھروں میں محصور کیا ہوا ہے۔ گھروں میں بیٹھے سمجھدار لوگوں نے طرح طرح کی مصروفیات ڈھونڈ لی ہیں۔ کالم نگاری میں میرے استاد محترم عمار مسعود بھائی نے بھی ”بیگم کا ناشتہ“ بنا کر جان خلاصی کروا لی اور اب کافی سکون میں ہیں۔ اسی طرح باقی دوست احباب بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ کوئی گھر والوں کو ”بار بی کیو“ میں اپنی مہارت دکھا رہا ہے تو کچھ برگر، پیزا اور کیک میں خوشنودی کے پہلو ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت نے ذمہ داری سے لاک ڈاؤن پر مکمل عمل کیا ہے جس سے ابھی تک اس وبا کی صورتحال قابو سے باہر نہیں ہوئی اور امید ہے کہ اگلے دو ہفتے اسی طرح خیریت سے گزر گئے تو صورتحال قابو میں رہے گی۔

کہا جا رہا ہے کہ شاید پاکستان اپنے علاقائی، طبی اور جینیاتی اسباب کی وجہ سے اس وبا سے محفوظ رہے۔ امید ہے کہ شاید اللہ پاک کو ہی ہم گناہ گاروں پر ترس آ جائے، ہماری توبہ و استغفار قبول ہو جائے۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں اندازے مختلف ہیں مگر میرا گمان ہے کہ انشا اللہ پاکستان میں یہ وبا کنٹرول میں ہی رہے گی۔

کورونا وائرس نے ہماری معاشی صورتحال بھی کافی حد تک پریشان کن کر دی ہے۔ عالمی بینک کے مطابق اس سال پاکستان کی شرح ترقی مزید کم ہو کر 1.1 فیصد تک آ سکتی ہے۔ اس شرح نمو پر بیروزگاری اور مہنگائی کا ایسا طوفان آئے گا کہ پھر شاید کوئی بھی مقدس نہ رہے۔

چند ماہ پہلے چوہدری شجاعت نے اردو نیوز سے انٹرویو میں عمران خان کو مشورہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حالات کو سنبھالیں ایسا نہ ہو کہ چند ماہ بعد کوئی وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے لئے بھی تیار نہ ہو۔ ملکی صورتحال واقعی ایسی ہو چکی ہے کہ اب اپوزیشن بھی عمران خان سے استعفیٰ طلب نہیں کر رہی بلکہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ عمران خان مدت پوری کریں۔

موجودہ حکومت کے عرصۂ اقتدار کو تقریباً بیس ماہ ہو چکے ہیں۔ دور اپوزیشن میں ہٹلر کی نازی پارٹی کے مظالم کا ذکر حقارت سے کرنے والے عمران خان وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالتے ہی مسولینی اور ہٹلر کی فسطائیت کے راستے پر چل پڑے ہیں۔ اقتدار میں آتے ہی ظلم کے وہی طور طریق اور ہتھیار استعمال کرنے شروع کر دیے جو آمروں کا خاصا رہے ہیں۔

مشرف دور میں آرڈیننس کے ذریعے وجود میں آنے والا قومی احتساب بیورو (نیب) اس وقت موجودہ حکمرانوں کے ظلم و استبداد کے آلہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ یہ تمام دورانیہ نہ صرف مخالفین سے انتقام لینے میں گزارا بلکہ اس عرصۂ حکومت میں عمران خان نے آ بیل مجھے مار کے مصداق چومکھی جنگ کا طبل بھی بجا دیا۔

پہلے چور، ڈاکو کی تکرار کے بعد اپوزیشن کی تمام اعلی قیادت کو پابند سلاسل کیا اور پھر آزادیٔ صحافت کی جنگ لڑنے کی سزا دینے کے لیے میر شکیل الرحمٰن کو 34 برس پہلے خریدی گئی زمین کے بظاہر من گھڑت الزام پر گرفتار کر لیا گیا۔ جسٹس فائز کے خلاف ریفرنس سے عدلیہ کے ساتھ بھی محاز آرائی کی گئی۔ اس عرصۂ اقتدار میں اگر کسی چیز پر توجہ نہیں دی گئی تو وہ صرف حکومتی کارکردگی پر نہیں دی گئی۔

کہا جاتا ہے کہ بحرانوں سے نپٹنے کی صلاحیت سے ہی قابلیت کو پرکھا جا سکتا ہے۔ عمران خان جب سے اقتدار میں آئے ہیں عوام میں ان کی کارکردگی کے حوالے سے سوالیہ نشان موجود ہیں۔ معاشی گراوٹ اور بدانتظامی اپنی جگہ پر مگر حالیہ دنوں میں کورونا وائرس پر لاک ڈاؤن فیصلہ میں تاخیر سے ان میں فیصلہ سازی کا فقدان واضح طور پر نظر آیا۔ اس بحران میں سول اور عسکری قیادت بھی چکی کے دو پاٹوں کی طرح الگ الگ نظر آئے۔ موجودہ حکومت بنتے ہی کرپشن سکینڈل سامنے آنا شروع ہو گئے تھے۔

دواؤں کی قیمتوں میں اربوں روپے کا گھپلا حکومت کے آغاز میں ہی سامنے آ چکا۔ حالیہ آٹا، چینی تحقیقاتی رپورٹ کا سامنے آنا معنی خیز ہے مگر اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ ایسے ہی سامنے آئی ہے جیسے ماڈل ٹاؤن واقعہ کی جوڈیشل کمیشن رپورٹ دھرنے کے دنوں میں سامنے آئی تھی۔ ان رپورٹس کا مقصد صرف حکومت کو کمزور کرنا ہوتا ہے۔

سیاسی صورتحال بہت دلچسپ ہو چکی ہے۔ الیکشن سے پہلے جس کپتان کو ”تبدیلی کا اوتار“ بنا کر پیش کیا گیا تھا اب وہ ہٹ دھرم، نکٹھو اور فرعون کا لقب پا چکے۔ رات کی تاریکی میں جاگتی آنکھوں کے سامنے آر ٹی ایس بند کر کے معرض وجود میں آنے والی حکومت فیصلہ سازی کا اختیار کھو چکی ہے۔ ”وزیراعظم سلیکٹ“ کہنے پر تالیاں بجانے والے عمران خان اس وقت عملی طور پر عنانِ حکومت سے الگ نظر آتے ہیں۔ حکومتی معاملات پر ان کی گرفت بہت کمزور ہو چکی ہے۔

وہ رسمی سربراہ ضرور ہیں مگر جن اقدامات کا وہ تقاریر میں اعلان کرتے ہیں اگلے ہی دن اس سے الٹ عمل ہو رہا ہوتا ہے۔ کورونا صورتحال پر کوآرڈینیشن میٹنگز کی سربراہی بھی وہیں پر ہو رہی ہے اور وزراء سمیت تمام صوبوں کے چیف سیکرٹریز بھی ادھر ہی رپورٹ کر رہے ہیں جہاں سے لاک ڈاؤن بڑھنے کی پریس ریلیز آئی تھی۔ ایسی کمزور حکومت ہی ہمارے اصل مالکوں کے مفاد میں ہوتی ہیں۔ اس لیے ایسی من پسند حکومتوں کو گھر بھیجنے کی بجائے ان کی مدت پوری کروائی جاتی ہے۔

میرے باخبر دوست کا کہنا ہے کہ کرپشن سکینڈلز کے باوجود حکومت کہیں نہیں جا رہی مگر کپتان کو بتا دیا گیا ہے کہ اب ان کی مرضی نہیں چلے گی۔ ہو سکتا ہے عمران خان کو کچھ ساتھی قربان کرنے پڑیں لیکن اب ان کا مؤقف تبدیل ہوتا نظر آئے گا۔ اب انھیں معاشی ترقی میں سڑکوں کی اہمیت کا احساس بھی ہو گیا ہے اور کورونا لاک ڈاؤن بھی اچھا لگنے لگ گیا ہے۔

موجودہ صورتحال میں حیران کن طور پر پیپلز پارٹی کا تاثر اچھا ہو رہا ہے اور کوئی کرپشن سکینڈل بھی سامنے نہیں آ رہا۔ اس میں عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ عمران خان کا بیانیہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے اور ملکی حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اپوزیشن فوری طور پر حکومت ہٹانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ استعفیٰ مشکلات سے راہ فرار کہلائے گا اس لیے اب کپتان کے پاس بچت کا ایک ہی راستہ ہے کہ وہ ڈیلیور کریں، ڈیلیور کریں اور بس ڈیلیور کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments