امریکہ، لاک ڈاؤن اور نیا عالمی اسٹیج


26 دسمبر 2004 کو بِحرہ ہند میں آنے والا سونامی، 14 ممالک میں دولاکھ ستائیس ہزار سے زائد زندگیاں نگل گیا۔ اگر کہا جائے کہ یہ سونامی دنیا کی تاریخ میں آنے والی بدترین قدرتی آفات میں سر فہرست ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ تاریخ شاہد ہے کہ جنگوں، قدرتی آفات اور مہلک امراض نے دنیا بھر میں سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر تباہی پھیر دی۔

اس وقت دنیا بھر میں کورونا وائرس کے وار نہ صرف تیزی سے جاری ہیں بلکہ امریکہ اور یورپ میں اس وائرس کے قہر نے شدت اختیار کرلی ہے۔ دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت یورپ اور امریکہ میں اس بیماری میں مبتلا افراد کی تعداد اور اموات میں خوفناک رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے یہاں تک خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس وائرس کے پھیلاؤ پر قابو نہ پایا گیا تو امریکہ دنیا میں کورونا کے پھیلاؤ کے اصل مرکز میں تبدیل ہوسکتا ہے۔

اس وقت امریکہ کی تمام پچاس ریاستوں میں کورونا سرائیت کرچکا ہے۔ متاثرہ افراد کے لحاظ سے (تا وقت تحریر) تین لاکھ سے زائد کی تعداد کے ساتھ امریکہ دنیا میں پہلے نمبر پر آچکا ہے۔ جبکہ میڈیا کی جانب سے آنے والی خبروں کے مطابق مرنے والوں کی تعداد 8 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جو ممکن ہے کہ حقیقی تعداد سے کم ہو۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ آنے والی خبریں یہ ہی پیغام دے رہی ہیں کہ اس وقت سب سے ابتر صورتحال امریکہ اور یورپی ممالک میں ہے جہاں یہ وائرس تیزی سے انسانی جانیں کھا رہا ہے۔

جب ہم دنیا میں ممالک کے درمیان تعلقات کی بات کرتے ہیں تو ان کی دشمنی یا دوستی ’مفاد پرستی‘ پر ہوتی ہے، محبت یا مذہب کی بنیاد پر نہیں۔ تاریخ سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ ’مفادات‘ کی بنیاد پر بہت سخت فیصلے کیے گئے۔ ’مفاد پرستی‘ پر مبنی ایسا ہی ’دھوکا‘ لگتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ بھی ہوگیا۔ جو کچھ اس وقت امریکہ میں کورونا کے باعث ہورہا ہے یہ سب اس اسکرپٹ کا حصہ تھا ہی نہیں جو امریکہ کو بتایا گیا۔ 4 فروری کو صدرٹرمپ نے ایک خطاب میں کہا تھا کہ امریکہ میں نوکریاں عروج پر ہیں، آمدنی میں اضافہ ہورہا ہے، غربت میں تیزی سے کمی آرہی ہے، اعتماد بڑھ رہا ہے اور امریکہ تیزی سے ترقی کررہا ہے۔

صدر ٹرمپ کے خطاب سے ایسا لگتا تھا کہ شاید یورپی ممالک کے باشندوں پر سفری پابندی کے ساتھ انہوں نے کورونا کے امریکہ میں داخلے پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ لیکن ڈیڑھ ماہ میں صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی اور تیزی سے کورونا کے کیسز سامنے آمنے لگے۔ اس وقت امریکی معیشت کی اگر بات کی جائے تو بے روزگاری کی شرح 50 سال کی بلندترین سطح پرہے۔ ماہر معاشیات کے مطابق آنے والے مہینوں میں یہ تناسب دو گنا بڑھنے کا امکان ہے جس کے بعد تقریبا ہر ماہ ایک ملین نوکریاں ختم ہوجائیں گی۔

امریکہ میں ایک طرف 50 لاکھ سے زائد افراد بے روزگار ہوچکے ہیں تو دوسری طرف بینک آف امریکہ کے ماہر اقتصادیات کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں امریکا میں نوکریاں، دولت اور اعتماد سب ختم ہوجائے گا۔ صورتحال کچھ یوں ہو گئی کہ وہ کیمائی اورحیاتیاتی ہتھیار جو چین کو دنیا کی طاقتور معیشت بننے سے روکنے کے لیے استعمال کیے جانے تھے ان کی زد میں خود امریکہ آگیا۔ اب صورتحال تیزی سے بد سے بدتر کی طرف جارہی ہے۔ لگتا ہے کہ امریکا سے سپر پاور کا تاج لینے کی تیاری مکمل کرلی گئی ہے۔

امریکہ اسرائیل تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ امریکہ کی اسرائیل میں دلچسپی، لگاؤ اور سپورٹ پہلے دن سے پوری دنیا پر روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ امریکا میں پوری ایک لابی ہے جو اسرائیل کے لیے کام کرتی ہے۔ اس لابی کا نہ صرف امریکا کی معیشت بلکہ سیاسی سماجی یہاں تک کہ فلم اورمیڈیا انڈسٹری پربھی مکمل کنٹرول ہے۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی معیشت اس وقت یہودیوں کے ہاتھوں میں ہے۔ ان کے مقاصد اور مفادات کیا ہیں یہ ہم کومستقبل میں جاکر دیکھنا ہوں گے۔ اسرائیل ہمیشہ گریٹر اسرائیل کی بات کرتا ہے جس کا مطلب مشرق وسطیٰ (لبنان، فلسطین، اردن جبکہ سعودی عرب، مصر، عراق اور شام کا ایک بڑا حصہ اور ترکی کا کچھ علاقہ) پر حکمرانی ہے اور مشرق وسطیٰ پر حکمرانی کا مطلب دنیا پر حکمرانی یعنی کے سپر پاور!

سویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی دنیا میں دو سپرپاورز کا تصور بھی تاریخ کا حصہ بن گیا۔ سویت یونین جس کو سپر پاور سمجھا جاتا تھا وہ بھی کئی ممالک میں تقسیم ہوگیا اور دنیا میں صرف امریکہ کی اجارہ داری قائم ہوگئی۔ امریکی صدر کو دنیا کا سب سے طاقتور صدر مانا جانے لگا اورمستحکم معیشت، ٹیکنالوجی اور منظم سیاسی نظام کے باعث امریکہ نے ’بگ باس‘ کا کردار ادا کرنا شروع کیا۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ فروری تک صدر ٹرمپ نہ صرف ’سب اچھا ہے‘ کی رٹ لگائے رہے بلکہ حکومتی سطح پر کورونا ٹیسٹنگ اور اس سے بچاؤ کے لیے اقدامات کا آغاز بہت دیر سے کیا جس کے باعث امریکہ میں کورونا کیسز کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ہلاکتوں میں اضافہ ہونے لگا۔

اس وقت دنیا بھر میں لاک ڈاؤن ہے۔ لوگ گھروں میں محسور ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک، شہروں، گلیوں، محلوں میں کہاں کیا ہورہا ہے ہم صرف میڈیا کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں۔ رپورٹ کیے گئے کس واقعے کی کیا حقیقیت ہے، حقائق کو کتنا توڑ مروڑ کے پیش کیا جارہا ہے، لاک ڈاؤن میں گھر بیٹھا ایک عام آدمی یہ جاننے سے قاصر ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ’بگ باس‘ شو کی طرح تمام شرکا (ممالک اور عوام) کو نیا کام، نیا ٹاسک دینے کے لیے لاک ڈاؤن کے تحت گھروں اور کمروں میں بند کرکے دنیاکا سیٹ تبدیل کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔

کورونا وائرس نے دنیا پر بسنے والے ہر شخص کے معمولات زندگی بدل کر رکھ دیے۔ ہوسکتا ہے ان میں سے بہت سی تبدیلیاں عارضی ہوں لیکن اگر ماضی میں جھانکیں تو پتا چلتا ہے کہ موضی امراض اور بیماریوں نے تاریخ انسانی پر طویل المدتی ا اثرات مرتب کیے ہیں جس نے آبادی کے ایک تہائی حصے کو ختم کردیا۔ 1343 میں چنگیز خان کے دور میں منگولیا میں ’بلیک ڈیتھ‘ کے نام سے آنے والی وبا پہلے چین آتی ہے، پھر یہ ہندوستان سے ہوتی ہوئی یوکرین پہنچتی ہے، وہاں سے اسپین کا سفر کرتے ہوئے یورپ میں اپنا گھر بناتی ہے۔

مطلب منگولیا سے پھیلنے والی اس وبا نے سب سے زیادہ تباہی اور بربادی یورپ میں مچائی۔ اس وبا کے باعث دنیا بھر میں دو کروڑ بیس لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے جس میں ستر فیصد ہلاکتیں یورپ میں ہوئیں۔ بالکل اس ہی طرح چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس کی یہ وبا مختلف ممالک کا سفر کرتی ہوئی دنیا کے 200 ممالک تک پھیل چکی ہے۔ لیکن اشارے کچھ یوں کہتے ہیں کہ جنہوں نے مستقبل میں ’سپر پاور‘ بننا ہے اس کا ’ہاٹ ٹارگٹ‘ یورپ اورامریکہ ہیں۔

تو پھر تیار رہیں لاک ڈاؤن کے بعد پرانی دنیا میں ایک نئی سپر پاور، بدلتے حالات اور معاملات کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کے لیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments