بین الافغان مذاکرات کی راہ میں کھڑی رکاؤٹیں



بین الافغان مذاکرات مسلسل ڈیڈ لاک کا شکار ہے۔ اس کی بنیادی وجہ، دوحہ معاہدے پر کابل انتظامیہ کی جانب سے عمل درآمد نہ کیے جانا قرار دیا جارہا ہے۔ کابل انتظامیہ نے دوحہ مذاکرات کے معاہدے پر دستخط کے بعد دونوں اطراف سے قیدیوں کے تبادلے کی شق کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا، جس کے بعد بین الافغان مذاکرات کا اہم ترین مرحلہ شروع نہیں کیا جاسکا۔ کابل انتظامیہ نے اس حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا لیکن ان تحفظات کو امریکا سمیت کئی ممالک و افغان طالبان نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا کیونکہ دوحہ مذاکرات پر دستخط کرنے کے بعد کابل انتظامیہ پر لازم ہوگیا تھا کہ وہ معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بناتی، اہم ترین اَمر یہ بھی ہے کہ قیدیوں کے تبادلے کا عمل پہلی بار نہیں ہوا ہے بلکہ 2011 سے کئی مراحل میں قیدیوں کے تبادلے ہوتے رہے ہیں۔

بڑے پیمانے پر قیدیوں کے تبادلے کو متنازع بنانے سے افغانستان میں امن عمل متاثر ہوا۔ زلمے خلیل زاد نے اس حوالے سے کابل انتظامیہ سے معاہدے پر عمل درآمد کرنے کے لئے خصوصی طور پر ملاقات کی، لیکن کابل انتظامیہ نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا، جس کے بعد امریکی وزیر دفاع مائیک پومپو نے افغانستان کا دورہ کیا اور جب واپس آئے تو انہوں نے کابل انتظامیہ کو دی جانے والی ایک ارب ڈالر کی امداد روک دی۔ یہ کابل انتظامیہ کے لئے دھچکا تھا۔

انہوں نے اخراجات میں کمی کے نام پر سیکورٹی کو کم کرنا شروع کردیا، تاہم امریکا کی جانب سے امداد روکنے کی حکمت عملی کام کرگئی اور کابل انتظامیہ نے قیدیوں کی رہائی کے لئے رضامندی ظاہر کرتے ہوئے قیدیوں کی رہائی و تبادلے کا اعلان کیا تاہم ذرائع کے مطابق قیدیوں کا تبادلہ کابل انتظامیہ کی ڈھٹائی و افغان طالبان کی ٹیم کی شرائط پوری نہ ہونے کے باعث بار بار موخر ہوجاتا ہے، واضح رہے کہ افغان طالبان کے نمائندے نے بگرام ائیر بیس پر اپنے قیدیوں کو شناخت کے بعد اپنی تحویل میں لینا تھا۔

افغان طالبان، کابل انتظامیہ، امریکا، قطر اور ہلال احمر کی مشترکہ ویڈیو کانفرنس میں طے کیا گیا تھا کہ قیدیوں کی رہائی اس فہرست کے مطابق ہوگی، جو افغان طالبان نے امریکی حکام کو فراہم کیے تھے، پانچ ہزار قیدیوں کو افغانستان کی جیلوں سے نکالنے کا عمل 31 مارچ سے شروع کیے جانے پر اتفاق رائے پیدا ہوا لیکن کابل انتظامیہ نے ایک بار پھر قیدیوں کی رہائی موخر کردی، افغان طالبان سے بین الافغان مذاکرات کے لئے ایک کمیٹی بھی قائم کردی گئی۔

ذرائع کے مطابق افغان طالبان کے ساتھ بین الافغان مذاکرات کے لئے کابل انتظامیہ ن 21 رکنی ٹیم بنائی جس میں پانچ خواتین بھی شامل ہیں، جس کی سربراہی افغان انٹیلی جنس کے سربراہ معصوم استنکزئی کو مقرر کیا، تاہم افغان طالبا ن نے حکومتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کردیا ہے کہ بین الافغان مذاکرات میں افغانستان کے تمام افغان دھڑوں کو نمائندگی نہیں دی گئی۔ افغان طالبان کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دوحہ معاہدے کے مطابق کابل انتظامیہ غیر سرکاری سطح پر ایک فریق کے طور پر شامل تو ہوسکتی ہے لیکن افغان طالبان کے ساتھ بین الافغان مذاکرات کا مینڈیٹ ان کو نہیں دیا گیا، بین الا افغان مذاکرات میں تمام افغان اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیے جانا معاہدے کے مطابق ہے۔ ، افغان طالبان کے بیان اور کابل انتظامیہ کی جانب سے حکومتی مذکراتی ٹیم کو لے کر بین الافغان مذاکرات میں مزید تعطل کا خدشات پیدا ہورہے ہیں۔ ، جو افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔

دوحہ معاہدے کے مطابق کابل انتظامیہ پانچ ہزار قیدیوں اور افغان طالبان جواباً ایک ہزار قیدی رہا کرنا ہے، جس کے بعد متفقہ طور پر بین الافغان مذاکرات کا مرحلہ شروع ہونے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ امریکی وزیر دفاع مائیک پامپو کا کہنا تھا کہ ”میں نے افغانستان کا سفر ایک ایسے وقت پر کیا جب کہ ایک مخصوص وجہ سے زیادہ سفر نہیں کیے جا رہے۔ میں وہاں یہ یقینی بنانے گیا تھا کہ افغان راہنما وہاں پر امریکی مفاد، (اور) برسوں میں مدد کے پُرعزم مشن نے جو کردار ادا کیا اُسے سمجھتے ہیں، اور اُن پر اُن وعدوں پر عمل درآمد کرنے پر زور دینا تھا جو انہوں نے مشترکہ اعلامیے میں کیے ہیں۔

یعنی افغان قیادت نے بہت سے وعدے کر رکھے ہیں، وہ چیزیں جن کا وہ پاس کریں گے، اور جن کو ابھی تک انہوں نے عملی جامہ نہیں پہنایا۔ میں وہاں اُن سے اس کے بارے میں بات کرنے گیا تھا کہ یہ وعدے پورے کرنے میں ہم کیسے مدد کر سکتے ہیں۔ میں ایمانداری سے بات کروں گا، یہ بہت مایوس کن تھا۔ وہاں۔ ایک سیاسی بحران چل رہا ہے جس کے حل کی کوشش کرنے اور ایک ایسی ٹیم سامنے لانے پر زور دینے کے لیے میں وہاں گیا جو سرجوڑ کر بیٹھ سکے اور تمام افغانیوں کے ساتھ وسیع تر بات چیت کر سکے (اور) جو پرانے مسائل کے مجموعے کو حل کرنے کے لیے بین الافغانی مذاکرات کر سکے۔

مائیک پامپو کا مزید کہنا تھا کہ میں نہ صرف صدر غنی اور ڈاکٹر عبداللہ سے ملا بلکہ میں سکیورٹی لیڈروں سے مِلا، میں مُلا برادر سے دوحہ میں مِلا۔ اِن میں سے ہر ایک سمجھتا ہے کہ یہ (مسئلہ) بندوقوں اور گولوں سے میدان میں حل ہونے والا نہیں ہے۔ یہ سیاسی عمل کے ذریعے حل ہوگا اور یہ وقت اُس سیاسی عمل کو شروع کرنے کا ہے جس میں تمام افغان میز کے ارد گرد مل بیٹھیں۔ میں اب بھی پرامید ہوں کہ ہم وہاں پہنچ سکتے ہیں۔ وقت ہی سب سے اصلی جوہر ہے“۔

افغانستان میں اس وقت سیاسی بحران بھی موجود ہے، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ شروع سے ہی بین الافغان مذاکرات کے لئے دوحہ معاہدے پر مکمل عمل درآمد کے حق میں تھے، یہاں تک انہوں نے اپنے اقتدار کی قربانی دینے کا بھی اعلان کیا گیا، تاہم دوسری جانب اشرف غنی انتظامیہ نے غیر ذمے دارنہ رویہ اختیار کیا۔ امن کے لئے تمام فروعی مفادات سے بالاتر ہو کر صرف افغانستان میں قیام امن کے لئے جلد ازجلد بات چیت کی ضرورت تھی، لیکن کابل انتظامیہ نے تاخیری حربے استعمال کیے ۔ جس کو عالمی سطح پر پذیرائی نہیں مل سکی۔ بالاآخر امریکی دباؤ پر کابل انتظامیہ کو ڈھیر ہونا پڑا، لیکن خدشات موجود ہیں کہ بین الافغان مذاکراتی عمل میں اب بھی کئی دشوار طلب مراحل باقی ہیں۔

کرونا وائرس کی خطرناک وبا کے باعث ایران۔ پاکستان سمیت کئی ممالک نے قیدیوں کی رہائی کے اقدامات کیے ہیں، تاکہ وبا سے قیدیوں کو نقصان پہنچنے سے روکا جاسکے۔ کابل انتظامیہ نے بھی کرونا وبا کے ؛پیش نظر قیدیوں کو رہائی دینے کا فیصلہ کیا تاہم دوحہ معاہدے کے مطابق افغان طالبان کی رہائی کے لئے پس و پش سے کام لینے کے عمل سے افغانستان کے دیگر اسٹیک ہولڈرز کو بھی مایوسی کا سامنا ہوا۔ پاکستان نے اس حوالے سے کابل انتظامیہ کو مشورہ بھی دیا کہ وہ دوحہ مذاکرات پر من و عن عمل کریں لیکن کابل انتظامیہ نے پاکستان کی نیک نیتی و خلوص کا جواب انتہائی غیر سفارتی انداز میں دیا، جو کہ افسوس ناک عمل تھا۔

پاکستا ن نے امریکا، افغان طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان اہم ترین سہولت کار کا موثر و مثبت کردار ادا کیا، جس کا عالمی برادری نے اعتراف بھی کیا اور امریکا نے بھی تسلیم کیا۔ ان حالات میں کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کا عمل شروع ہوچکا ہے، افغانستان میں امن کی اشد ضرورت ہے، ایران نے بھی افغان مہاجرین کی فوری واپسی کا عمل شروع کردیا، جب کہ پاکستان سے بھی افغان مہاجرین کی واپسی کا عمل شروع تھا کہ کرونا وائرس کی وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور دنیا بھر کی توجہ عالمی وبا کو روکنے و پھیلاؤ کو ختم کرنے پر مرکوز ہوگئی۔

ایران سے افغان مہاجرین کے واپسی کے عمل پر تحفظات کا اظہار کیا گیا کیونکہ ایران کورونا وائرس کی وجہ سے شدید متاثرہ ملک بن چکا ہے، دوسری جانب عالمی و امریکی پابندیوں کے سبب ایران کو اپنے عوام کے انتظامات کرنے کے لئے سخت دشواریوں کا سامنا ہے تو دوسری جانب کرونا وائرس نے ایران میں تباہی مچا دی، جس کے باعث ایران کو افغان مہاجرین کی میزبانی میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔

بین الافغان مذاکرات کی جلد ازجلد شروعات و افغانستان میں قیام امن کی بحالی اس وقت اشد ضرورت ہے۔ 40 برسوں کی جنگوں اور خانہ جنگیوں نے افغانستان کا انفرا اسٹرکچر بُری طرح تباہ کردیا ہے، معیشت کی بحالی کے لئے افغانستان کو سخت دشواریوں کا سامنا ہے۔ ان حالات میں کہ اب کرونا وائرس نے دنیا بھر میں تباہ کاریاں کا پھیلاؤ بڑھا دیا ہے، ترقی یافتہ ممالک معاشی چینلجز کا سامنا کررہے ہیں، ان حالات میں افغانستان کے لئے مالی امداد کی کمی سے معاملات میں مزید مسائل جنم لیں گے۔

لہذا افغانستان کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو دوحہ معاہدے پر جلد از جلد عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ انہیں افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے لئے زمینی حقائق کو مد نظر رکھنا ہوگا کہ اس وقت پوری دنیا خطرات میں گھری ہوئی ہے اگر افغانستان میں امن و مستقبل کا فیصلہ کرنے میں سست روئی سے کام لیا گیا تو اس سے سراسر نقصان عوام افغان کو ہوگا۔ توقع ہے کہ افغانستان کے اسٹیک ہولڈر بین الافغان مذاکر ات کے لئے اپنی اَنا کو پس پشت کرکے افغان عوام کے لئے مثبت و محفوظ فیصلے کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments