پرندوں کی دعا اورلاک ڈاؤن


یہ شہر کا مرکزی پارک تھا۔ بہار کی آمد آمد تھی اور عام دنوں میں بھی یہاں بے پناہ رش ہُوا کرتا تھا۔ شہر کے نئے تعمیراتی ڈھانچے نے جستہ جستہ پڑے ہوئے قدرتی خطوں کو نگلنا شروع کیا تو شہر کے کچھ سمجھ دار ذہنوں نے شہر کے بیچوں بیچ کئی ایکٹر پر مشتمل ایک باغ کی بنیاد ڈالی جوبعدازاں سرکاری تحویل میں آکر پارک بن گیا۔ پارک کے دائیں ہاتھ مرکزی شہر اورکچھ اہم سرکاری دفاتر تھے جب کہ بائیں ہاتھ پوش علاقہ تھا۔ یہ پوش علاقہ غربت کی منزلیں طے کرتے کرتے آج ایک قابلِ رشک بستی بن چکا تھا۔

عالی شان بنگلے، وسیع لان اور خوبصورت گاڑیوں میں پھرتے عام صورت مالکان جو اپنے ملازموں سے الجھ الجھ کر یا تو خود کو ذیا بیطس کا مریض بنا بیٹھے تھے یا پھر ماتحتوں کی بددعائیں ان کے ذہنوں کا سکون غارت کرچکی تھیں اور ان میں سے بیشتر یاتو ذہنی مریض تھے یا پھر ذہنی مریضوں کے ہمسائے۔ دولت اپنے اطراف اور مجبوری اُوپر کی جانب پھیلتی ہے۔ اسی لیے آپ دیکھیں گے کہ یہ بنگلے دولت سے حاملہ ہو ہو کر اپنے ارد گرد کا قدرتی سبزہ کھا گئے تھے اور ان کی جگہ مصنوعی پودوں نے لے لی تھی۔

تاہم پارک کے عین سامنے ہونے اور بورژوا کلاس کی سماجی جمالیات کی ضرورت کے طفیل یہ پارک، ان کا دفتر اور گھروں کے بعد تیسرا مسکن بن چکا تھا۔ ریٹائرڈ سرکاری افسر شارٹس پہنے ہوئے دو دو کی ٹولیوں میں گھومتے ہوئے اولاد کی بے وفائی کا غم غلط کرتے دکھائی دیتے، شادی شدہ فربہ گھریلو خواتین اپنے شوہروں کی نظرِ التفات حاصل کرنے کے لیے پارک میں سب سے زیادہ چکر لگاتے دکھائی دیتیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں مختلف جگہوں پر کسرت کرتے دکھائی دیتے اور ان میں سے کچھ واقعی کسرت ہی کررہے ہوتے۔

اردگرد کی چھوٹی اور قدرے معاشی طور پر کمزور بستیوں کے لوگ بالخصوص نوجوان روزانہ کی بنیاد پر نجانے کن سنہرے خوابوں کی آس میں یہاں آتے کچھ کامیاب ہوجاتے اور باقی اسی پارک کے درختوں پرناکام محبتوں کے نام لکھتے لکھتے فکرِ معاش میں غرق ہوجاتے۔ پارک میں گھومنے والا کم زور سماجی طبقہ بھلے جو بھی کرلیتا دُور سے اُن کی غربت پہچان میں آ جاتی۔ غربت ہاتھ کی لکیر میں جب کہ غربت کا احساس پیشانی پر لکھا ہُوا ایک ایسا سچ ہوتا ہے جواخبار کی شہہ سُرخی کی طرح سے دُور سے دکھائی دے دیتا ہے اور بدلنے والے اپنی منزلوں کا رُخ اس سُرخی کی روشنی میں کہیں اور موڑ دیتے۔

یوں تو کئی ایکٹر پر پھیلے اس پارک میں جہاں سرکار کی جانب سے واک کرنے کے لیے راستے مختص تھے وہیں تتلیوں اور سنہری خوابوں کی معیت میں نجانے کتنے ہی قدموں نے یہاں ان دِکھے راستوں کی بنیاد ڈال دی تھی۔ ان راستوں پہ چلنے والوں کے دلوں کی دھڑکنیں اور سرگوشیاں اگر سارے میں پھیلے درخت اور پرندے انسانی زبان میں پھیلا دیتے تو پارک پر کب کا تالا پڑ چکا ہوتا۔ پارک کے بیچوں بیچ ایک چھوٹی سی مصنوعی جھیل بھی بنائی گئی تھی۔

جس میں چھوٹی بڑی بطخیں تیرتی پھرتیں۔ یہ بطخیں پارک کا سب سے خوش حال طبقہ تھیں ان کے علاوہ پارک میں لگے درختوں پر مختلف رنگوں اور نسلوں کی سینکڑوں پرندے بھی رہتے تھے۔ جھیل کے ساتھ کچھ مردہ درختوں کی شاخوں کو تراش کر چُن دیا گیا تھا جن پر دھاتی برتن لف تھے۔ پارک کا عملہ اور روزکے آنے والے ان دھاتی برتنوں میں پرندوں، بطخوں اور دیگر مخلوق کے لیے کچھ نہ کچھ لے آتے اور ان برتنوں میں ڈال لیتے۔ پرندے گویا کہ ان کے منتظر ہوتے اور صبح کے وقت یہاں ایک جنگ کا سماں ہوتا۔

پرندوں کا اس قدر شور ہوتا کہ ان کے قریب بیٹھنا مشکل ہوجاتا۔ شاید اسی وجہ سے پارک میں بیٹھنے کے لیے بنچ اس جھیل سے خاصے دُور ایستادہ کیے گئے تھے۔ بہار کی آمد آمد تھی۔ پرندے پریشان تھے کہ رفتہ رفتہ پارک میں آنے والوں کی تعداد کم ہونا شروع ہوگئی تھی۔ ان پرندوں کو شہر کے دوسرے حصوں میں رہنے والوں پرندوں کے وسیلے سے یہ معلوم ہوا تھا کہ یہ معاملہ صرف پارک تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ باقی شہر میں بھی لوگ اپنے گھروں سے کم کم ہی نکلتے ہیں۔

بات پریشانی کی تھی۔ اس کی وجہ یہ نہیں تھی پرندوں کو اپنے رزق کی فکر تھی بلکہ پرندوں کا اب انسانوں سے دل لگ گیا تھا۔ انسانی آبادیوں میں رہنے والے پرندوں میں بھی وہی انسانوں والی خصوصیات آجاتی ہیں جیسے کہ آرام طلبی، اگر رزق پارک میں مل ہی رہا ہے تو دوردراز گھوم پھر کر دانہ دنکا تلاش کرنے کی مصیبت کون اپنے سر لے۔ ایسے ہی دیگر چڑیاں اور چھوٹے پرندے جو گرمیوں کی آمد پرانڈے دیتے ہیں اور سہتے ہیں وہ بھی سرما کے اختتام اور بہار کی آمد پر انسانوں کے یوں غائب ہو جانے پر سخت حیران اور پریشان تھے۔

تازہ ترین صورتِ حال پر بحث کرنے کے لیے پارک میں موجود سب سے قدیم درخت کی سب سے اونچی شاخ پر رہنے پرندے نے ایک اجلاس بلایا۔ سب پرندے اجلاس میں موجود تھے سوائے کوؤں اور چیلوں کے کہ ان دونوں کے نزدیک بستی میں زندگی سے زیادہ موت ضروری ہے اور ان کا رزق باقیات سے ہی جڑا ہوتا ہے۔ تاہم دیگر پرندوں کے لیے تو یہ ایک اہم مسئلہ تھا۔ ان پرندوں میں مینا، مختلف رنگوں کی چڑیاں، بلبل، کوئل، کبوتر، طوطے، فاختہ اور چھوٹے باز تک شامل تھے۔

ان پرندوں میں اگرچہ چیل اور الو بھی شامل تھے لیکن ان پرندوں کا مسکن یہ پارک نہ تھا تاہم یہ بھی پارک کے باسیوں سے قربت رکھتے تھے۔ اجلاس میں انسانوں کے یک دم غائب ہوجانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ شہر کی غلہ منڈی، سبز ی منڈی اور دیگر دکانیں اور مارکیٹیں بھی بند تھیں۔ سڑکوں پر اِکا دُکا لوگ دکھائی دیتے یا پھر وردیوں میں گھومتے لوگ دکھائی دیتے۔ پرندے اس بات پر کافی پریشان تھے کہ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ عام طور پر پرندوں کو طوفانوں اور آفات کے بارے میں علم ہوجاتا ہے لیکن اس مرتبہ معاملہ کچھ اور تھا۔

ایک چھوٹا یا کمزور پرندہ بولا کہ میں سنا ہے کہ انسانوں کو کوئی بیماری لگ گئی ہے جس کی وجہ سے وہ پرندوں کی طرح مر رہے ہیں۔ پرندوں کا سربراہ جو اس باغ کا سب سے پرانا باسی تھا نے پوچھا کہ کیا سب انسان مر گئے؟ نہیں ایک اور پرندہ بولا نہیں مرے کبھی کبھار دکھائی دے جاتے ہیں پچھلے دنوں اندرونِ شہر میرا چکر لگا میں نے انسانوں کو اپنے گھروں کی چھتوں پر کھیلتے کودتے پتنگ اڑاتے پایا۔ لیکن گلیوں بازاروں میں وہی ہُو کا عالم تھا۔

ایک مینا بولی پارک کی ساتھ والی بستی میں تو نجانے کیا ہوگیا ہے میں نے کسی کو باہر نکلتے نہیں دیکھا۔ سب پرندوں نے اپنے اپنے تجربات شیئر کیے۔ سب سے دکھی کردینے والی داستانیں ان پرندوں نے سنائیں جن کے مسکن ہسپتالوں میں تھے یا وہاں سے انہیں کچھ بھیانک اطلاعات ملی تھیں۔ بوڑھے سردار پرندے نہیں کچھ دیر سوچا اور پھر بولا، ”دوستو! انسان ہمارا سب سے قدیم ساتھی ہے“، ابھی اس نے بات مکمل نہیں کی تھی کہ ایک فاختہ نے فوراً لقمہ دیا ساتھی نہیں شکاری کہیے۔

بوڑھے پرندے نے ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خاموش رہو۔ بے شک انسانوں نے ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا۔ یہ بھی درست ہے کہ انسانوں کا منظرسے غائب ہوجانے سے فضا میں آلودگی کم ہوگئی ہے، پھولوں کا رنگ گہرا ہوگیا ہے، سبزہ روندنے والے قدم نہیں رہے۔ لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے ہمیں دیکھنے والی آنکھیں نہیں رہیں۔ ہمارا نغمہ سننے والے کان نہیں رہے۔ ہمارے گیتوں کے سامعین ختم نہیں ہونے چاہیں۔ یہ دنیا کتنی خاموش، بے رنگ اور پھیکی پھیکی لگ رہی ہے۔

آؤ میرے ساتھیو! اللہ سے مل کر دعا کرتے ہیں کہ ہمارے قدیم ساتھی کو نئے دکھوں اور تکلیفوں سے نجات دِلا، بے شک انسان ہمیں تنگ کرتا ہے ہمارے مسکنوں کو تباہ کرتا ہے ہمارا شکار کرتا ہے۔ لیکن اے مالک یہ انسان تیرا لاڈلا بھی تو ہے۔ تو نے ہمیں اور پوری کائنات کو اس کی خوشی کے لیے تو بنایا بے شک انسان نا شکرا ہے پر تُو تو معاف کرنے والا ہے۔ اے اللہ پھر سے وہی رنگ بحال کردے۔ سب پرندو ں نے کہا آمین۔ ٹھاہ! یک دم کہیں سے ایک فائر ہُوا سب پرندے اُڑ گئے اور فاختہ تڑپتی ہوئی درخت کے قدموں میں جا گری۔ ابھی چند منٹ قبل ہی حکومت نے لاک ڈاؤن کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments