کووڈ 19 اور انسانیت کی بقا



نوول کورونا وائرس کی عالمی وبا نے اس وقت پوری دنیا میں اپنی دہشت پھیلائی ہوئی ہے۔ موجودہ ہولناک صورتحال میں دنیا کی توجہ کا واحد نقطہ یہی ہے کہ کیسے جلد از جلد کووڈ۔ 19 پر قابو پایا جائے اور عالمگیر صحت عامہ کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ اعداد و شمار کی روشنی میں صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے تاحال نوول کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد بارہ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ اموات کی تعداد بھی انہتر ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ ماسوائے چین، پاکستان سمیت دیگر دنیا میں ہر گزرتے روز متاثرہ مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ابھی یہ تعداد مزید بڑھے گی۔ عالمی سطح پر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں صحت عامہ کے تحفظ کے لیے کی جانے والی تیاریوں اور اقدامات پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ مغربی ترقی یافتہ ممالک جو تمام شعبہ جات میں اپنی ترقی پر نازاں تھے، اس وقت نوول کورونا وائرس کے سامنے بے بس نظر آ رہے ہیں۔ یورپی ممالک کی فضاوں میں خوف کا راج ہے اور واحد خواہش کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں کامیابی ہے۔

دنیا کے معتبر طبی جریدے ”دی لانسیٹ“ کے دو ہزار اٹھارہ میں جاری اشاریوں میں نوول کورونا وائرس کی تباہ کاریوں سے شدید متاثرہ ممالک امریکہ، برطانیہ اور اٹلی صحت عامہ کی معیاری سہولیات کی فراہمی کے اعتبار سے دنیا کے اولین تیس ممالک میں شامل ہیں جبکہ اس وبا کو شکست دینے والا چین فہرست میں اڑتالیسویں درجے پر ہے۔ لیکن امریکہ سمیت کئی دیگر ممالک میں موجودہ وبائی صورتحال نے سنگین نقائص کی نشاندہی کی ہے اور اشاریوں اور عملی اقدامات میں واضح تضاد نظر آیا ہے۔

دنیا بھر میں صحت عامہ کے نظام کے لیے نوول کورونا وائرس کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں۔ اس وقت عالمی سطح پر کووڈ۔ 19 کے انسداد کے لیے ٹریلین ڈالرز صرف کیے جا رہے ہیں لیکن سوال یہی ہے کہ کیا یہ رقوم پہلے ہی لازمی تیاریوں کے لیے استعمال نہیں ہونی چاہیے تھی؟ مثلاً شدید متاثر ملک اٹلی کی ہی اگر بات کی جائے تو یہاں گزشتہ تین برسوں سے صحت کے اخراجات میں مسلسل کمی آ رہی تھی۔ فنڈنگ میں کمی سے مراد یہ بھی ہے کہ نوول کورونا وائرس کے حملے سے قبل بھی اٹلی کو ڈاکٹرز اور نرسوں کی شدید کمی کا سامنا تھا۔

برطانیہ میں جہاں اس وقت سینکڑوں لوگ وائرس کے باعث اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، یہاں قومی ہیلتھ سروے کے مطابق گزشتہ برس پندرہ فیصد سے زائد افراد کو علاج معالجے کے حصول کے لیے اٹھارہ ہفتے سے زائد کا انتظار سہنا پڑا۔ جبکہ سال دو ہزار بارہ میں جب یہ نظام متعارف کروایا گیا تھا اُس وقت لوگوں کی یہ تعداد آٹھ فیصد تھی۔

امریکہ کی بات کی جائے تو یہاں صحت عامہ کے لیے دیگر دنیا کی نسبت سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی جاتی ہے لیکن اس وقت نوول کورونا وائرس سے متاثرہ سب سے بڑے ملک کی حیثیت سے ملکی اسپتالوں میں صورتحال انتہائی سنگین ہے۔ ماہرین اسے امریکہ میں ”ہیلتھ سسٹم“ کی بڑی ناکامی قرار دے رہے ہیں اور حالیہ برسوں میں سامنے آنے والے سلسلہ وار حکومتی فیصلوں کی بابت سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ان میں سال 2018 میں صدر ٹرمپ کی جانب سے قومی سلامتی کونسل کے ڈائریکٹوریٹ برائے گلوبل ہیلتھ سیکیورٹی اینڈ بائیو ڈیفنس کی تحلیل بھی شامل ہے کیونکہ اس ادارے کے قیام کے مقاصد میں وبائی صورتحال یا عالمی وبا کی روک تھام میں معاونت فراہم کرناشامل تھا۔

عالمی سطح پر مختلف ممالک میں نوول کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ نے طبی نظام کی قابلیت سے متعلق بھی اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔ چین میں شدید متاثرہ شہر ووہان میں ابتدائی مرحلے میں طبی عملے اور بستروں کی کمی کا مسئلہ تھا۔ چار فروری کو ووہان میں دستیاب بیڈز کی تعداد صرف تین سو پانچ تھی جبکہ مصدقہ مریضوں کی تعداد انیس سو سے زائد تھی۔ ملک میں جشن بہار کی وجہ سے اکثریتی فیکٹریوں میں پیداواری سرگرمیاں بھی معطل تھیں۔

اس باعث آغاز میں طبی سازوسامان کی پیداوار اور ترسیل کا عمل سست روی کا شکار ہوالیکن چینی حکومت کے بر وقت اور مضبوط فیصلوں کی بدولت صنعتی اداروں میں پیداواری سرگرمیاں بحال کی گئیں، عارضی اسپتالوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور ملک بھر سے بیالیس ہزار سے زائد طبی عملہ صوبہ حوبے اور ووہان روانہ کیا گیا جس کی وجہ سے صورتحال پر قابو پایا گیا۔ یہاں صحت کے شعبے میں چینی نظام کی خوبی اور برتری بھی کھل کر سامنے آئی جس کی بناء پر چین نے نوول کورونا وائرس کو شکست دی ہے۔

انسداد عالمی وبا میں طبی عملہ اور طبی سازوسامان کلیدی عوامل ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور اٹلی کی نسبت چین میں آبادی کے تناسب سے اسپتالوں میں بیڈز کی تعداد نمایاں طور پر کم ہے، اسی طرح طبی عملہ بھی کم ہے اور فی کس دو سو تیرہ افراد کے لیے ایک طبی ماہر دستیاب ہے۔ لیکن یہاں اہم بات موجود وسائل کے موثر اور درست استعمال کی ہے۔ چین نے وبا کے خلاف جنگ میں طبی سازوسامان کی تیز رفتار پیداوار، ادویات کی فراہمی اور طبی عملے کی موزوں تعیناتی سمیت دیگر افرادی، مالیاتی اور تیکنیکی وسائل کو احسن انداز سے استعمال میں لایا جو دنیا میں ایک کامیاب ماڈل ثابت ہوا۔

اس وقت چین وبا کے خلاف جنگ میں فتح سمیٹنے کے ساتھ ساتھ انسداد وبا کی عالمی کوششوں میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کو نا صرف طبی سازوسامان فراہم کر رہا ہے بلکہ چینی طبی ماہرین مشاورت و رہنمائی کے لیے مختلف ممالک میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

نوول کورونا وائرس نے عالمگیر سطح پر صحت عامہ کے کمزور نظام میں بہتری کے لیے ایک مضبوط جواز فراہم کیا ہے اور عالمی حکمرانوں کو باور کروایا ہے کہ اپنی ترجیحات میں ضروری تبدیلی لائیں تاکہ کل پھر کسی نوول کورونا وائرس کے باعث پریشانی میں مبتلا نہ ہونا پڑے۔ وبائی صورتحال نے پوری انسانیت کو یہ درس بھی دیا ہے کہ آپسی اختلافات، سیاسی مفادات اور باہمی تنازعات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے مشترکہ اقدامات، عالمگیریت کے موجودہ دور کا بنیادی تقاضا ہیں اور اسی میں ہی انسانیت کی بقا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments