کورونا وائرس اور انفرادی اقدامات


نیا سال 2020 شروع ہوا تھا۔ ہر طر ف گہما گہمی تھی۔ لوگ ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ نئے سال کے ہدف مقرر کر رہے تھے۔ ادارے اور کمپنیاں اپنے ملازمین کو نئے سال کے پلان اور ٹارگٹ بتا رہے تھے۔ قاسم علی شاہ فاؤنڈیشن لاہور کے پلیٹ فارم سے نئے سال کی پلاننگ کے سلسلے میں ہمیں بھی ایک لیکچر سننے کا موقع ملا۔ اور عملی زندگی کے اہداف کی تکمیل کا مصمم ارادہ لے کر ہم بھی دوسرے لوگوں کی طرح زندگی کی بھول بھلیوں میں کھو گئے۔

آج کل ذرائع آمدورفت اور ذرائع مواصلات کی تیزی، انٹرنیٹ، کیبل، ٹی وی اور اخبارات کی بھرمار سے وقت گزرنے کا احساس ہی نہیں ہورہا تھا۔ کہ فروری کے وسط میں عام آدمی تک بھی کورونا نامی وبا کی خبر پہنچنا شروع ہو گئی۔ پھر کیا ہو ا دن بدن ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں دواکی“ تفتان کے راستے سے یہ وبا پاکستان میں بھی داخل ہو گئی۔ جہاں پی ایس ایل میچز کا انعقاد زوروں پر تھا۔ اور اس سے پہلے انٹرنیشنل کبڈی کے مقابلے منعقد ہوئے تھے اور پاکستان کی ٹیم نے نمایاں کامیابی حاصل کی تھی۔

27 فروری کو ابھی نندن وردھمان کی عمدہ چائے کا ایک سال مکمل ہونے پر سرپرائز ڈے منایا گیا۔ اور اس کے بعد 23 مارچ کی پیریڈ کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔ جس میں ایف 16 طیارے کے حادثے میں ونگ کمانڈر نعمان اکرم شہید ہو گئے۔ ادھر کورونا کے وار تیز ہو گئے۔ سندھ کے بعد پنجاب اور دوسرے صوبے بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ مساجد میں اضافی اذانوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ حج، عمرہ، طواف کعبہ، جمعہ، نماز باجماعت، تراویح پر پابندی لگ گئی۔ سازشی تھیوریوں، تاریخ کے دہرائے جانے، بلیک ڈیتھ کی وبا اور ڈارون تھیوری کی بات چل پڑھی۔ جتنے منہ اتنی باتیں ہونے لگیں۔

وقت کا پہیہ آہستہ چلتا دکھائی دینے لگا۔ سلام ڈاکٹر کا نعرہ بلند ہوا، ڈاکٹر اسامہ اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران شہید ہو گئے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کا محکمہ حرکت میں آگیا۔ پاک فوج ہمیشہ کی طرح مشکل وقت میں قوم کے دوسرے اداروں کے ساتھ کام کرنے لگی۔ پریس کانفرس پہ پریس کانفرس، خطاب پہ خطاب، نوٹیفیکیشن پہ نوٹیفیکیشن، اجلاس پہ اجلاس ہونے لگے۔ نہیں ہوا تو مستحقین تک امداد پہنچنے کا کام نہیں ہوا۔ اس سے مجھے تاریخ پہ تاریخ کا فلمی ڈائلاگ یا د آگیا۔

بہرحال موبائیل ایپ بن گئیں۔ مستحقین کی لسٹیں بننا شروع ہو گئیں۔ سماجی بہبود کی تحریکیں بشمول، اخوت، خدمت میدان عمل میں اتر آئیں۔ لیکن جو بھی تنظیمیں یا افراد لوگوں کی امداد کرتی ہیں ان سی گزارش ہے کہ میڈیا کوریج کا کم سے کم استعمال کیا جائے تا کہ لوگوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ مسلح افواج نے اپنی تنخواہ سے کورونا متاثرین کی مدد کی، وزیر اعظم نے کورونا امدادی فنڈ اکاؤنٹ کھولنے کا اعلان کیا۔ سوشل میڈیا بشمول واٹس ایپ، فیسبک، ٹویٹر اور دیگر بلاگ میں اتنی ہدایات آنا شروع ہو گئیں کہ ایک عام کا ان پر عمل کرنا تو در کنا ر ان تمام ہدایات، فتوے، کالم، وائس میسج ”یوٹیوب وڈیوز کا پڑھنا، سنسنا اور دیکھنا بھی مشکل ہے۔ عام آدمی تو اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کی فکر میں رہتا ہے۔ وہ تو خدا کو بھی بھول جاتا ہے ۔ بقول فیض؎

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے

ورک فرام ہوم اعلی ٹیکنالوجی سے منسلک لوگ تو کر سکتے ہیں۔ لیکن غریب کے بس کی بات نہیں۔ لاک ڈاؤن سے بیماری کے علاوہ بھوک سے ہلاکتوں کا بھی خطرہ ہے۔ میں کل ایک ضروری کام کے سلسلے میں لاہور کے ایک مشہور چوک سے گزر ہوا جہاں ہمیشہ پھول بکتے تھے وہاں میں نے فیس ماسک اور دستانے بکتے دیکھے۔ کاروبار زندگی بند ہو چکا ہے۔ اس بہار کے پھول بغیر نمائش کے ہی مرجھا رہے ہیں۔ رمضان المبارک کی آمدآمد ہے۔ ان دنوں شادیاں اور دیگر تقریبات عروج پر ہوتی تھیں۔

لیکن اس وبا کے باعث ایک خوف کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ آج کل جس چیز کی طرف دھیان کر یں وہاں کورونا کا ذکر ہے۔ ٹاک شوز، نیوز، اخبارات، کالم، شاعری، اشتہارات ہر جگہ کورونا ہے کورونا ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا میں بھی اسی کا چرچا ہے۔ امیر جان صبوری کے مطابق؎ شہرخالی جادھ خالی کوچہ خالی۔ یہ وائرس پوری دنیا میں بغیر کسی ملک، مذہب اور قومیت کا فرق کیے حملے کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن غریب اور ترقی پذیر ممالک کے لیے خصوصی امداد کا اعلان کر رہے ہیں۔

پوری دنیا میں سائنس اور تحقیق کے ادارے اس وائرس کے خلاف ویکسین کی تیاری میں دن رات مصروف ہیں امید ہے جلد ہی دنیا کے کسی کونے سے کوئی خوشخبری سنائی دے گی۔ تاہم اس وائرس کی وبا کے باعث پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں۔ شرح سود کم ہوگئی ہے۔ خاندان اکٹھے رہنا شروع ہو گئے ہیں۔ معاشرتی برائیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کچھ لوگ آخری ایام، مسیحا اور دجال کی آمد کا ذکر رہے ہیں۔ مختصراً ایک بے بسی اور ہیجانی کیفیت کا دور ہے۔

نفسانفسی کا عالم ہے۔ ہر لمحے دنیا کے کسی نہ کونے سے کورونا سے ہلاکتوں کا ذکر سننے کو ملتاہے پہلے ہر شخص وقت کی کمی کاگلہ کرتا تھا۔ اللہ تعالی نے یہ گلہ دور کر دیا ہے۔ بزرگ کہتے ہیں کہ پہلے بھی جنگیں ہوئیں آفات آئیں لیکن سماجی فاصلے نہیں تھے۔ لوگ ایک دوسرے سے مل کر اپنے دل کا اظہار کر لیتے تھے۔ لیکن آج کل تو ہاتھ ملانے پر بھی پابندی ہے۔ لوگ پرانے زمانوں اور پتھر کے وقت کی بات کر رہے ہیں۔ دنیا کی آبادی کم کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ مختصراً؎

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے

یہ ایک امتحان کا دور ہے۔ قومی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں، ہمیں اللہ پر توکل ہے اور احتیاط کی کوئی ضرورت نہیں، وہ غلط کہتے ہیں، سرکار دو عالم ﷺ کا فرمان ہے کہ، اونٹ کا گھٹنہ باندھو اور پھر توکل کرو۔ یاد رکھیں کہ اللہ سبحانہ و تعالی سے استغفار اور دعاؤں کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے دی گئی حفاظتی تدابیرپر عمل کرنا ہی صحیح راستہ ہے، اور خاص طور پر جبکہ مسلمان ڈاکٹر ہی اس کو تجویز کر رہے ہوں۔

کلونجی، شہد، لیموں، تازہ پھل اور سبزیوں کا استعمال کریں، ہلکی ورزش کریں، بھر پور نیند کا مزہ لیں۔ اپنی پسند یدہ کتابیں پڑھیں۔ کسی ایک انفرادی مہارت میں عبور حاصل کریں۔ بغیر تحقیق کیے میسج اور وڈیوز فارورڈ نہ کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالی ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ اور پوری دنیا سے اس وبا کا خاتمہ ہوتا کہ زندگی ایک دفعہ پھر مسکرائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments