دنیا کے بعد کورونا کیسا ہوگا؟ چڑیا کی نوسہیلیاں خطرے میں ہیں‎


دنیا کے دانشور سر الگ الگ رکھ کر بیٹھے غور کررہے ہیں (سر جوڑ کر بیٹھنے پر دنیا بھر پابندی ہے ) کہ اس کورونا کے بعد دنیا کیسی ہوگی؟ گو کہ یہ کوئی اتنا مشکل سوال نہیں۔ اس کا جواب تو ہم جیسے بھی آسانی سے دے سکتے ہیں کہ کورونا کے بعد دنیا بغیر کورونا کے ہوگی یعنی کورونا نہیں ہوگا۔ زمینی مخلوق پھر کرہ ارض کو بگاڑنے میں جٹ جائے گی۔ جو کورونا کی غذا بن چکے ہوں گے باقیات زیرزمین کردیں گے تاکہ مسقبل میں زمین سے پٹرول بناکر واپس نکالیں اور کام میں لائیں۔

لیکن صاحبوں اصل سوال یہ نہیں کہ کورونا کے بعد دنیا کیسی ہوگی۔ سوال تو یہ ہے کہ دنیا کے بعد کورونا کیسا ہوگا؟ غور تو اس پر کرنا چاہیے کہ تمام انسانوں کو چٹ کر جانے کے بعد تو کورونا کے پاس کوئی کام ہی نہیں رہے گا۔ پھر کیا یہ بھی قرنطینہ میں جائے گا۔ یا زمین سے کسی دوسرے سیارے پر ہجرت کرنا ہوگی۔ اب اگر اس کو زمین سے ہجرت کرنا ہوگی تو اس کے لیے زمین والوں کی معلومات کے مطابق دیگر سیاروں پر تو ایسی کوئی چیز نہیں پائی جاتی جس کا درجہ حرارت اس کے لیے موافق ہواور کورونا اس جسم میں چین کی بانسری بجائے اسی طرح جیسے چائنا کی بانسری بجا چکا اور اب اٹلی، فرانس، اسپین، برطانیہ کی بجارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دیگر ممالک کے ڈھول بھی ہلکے ہلکے بجا کر اس موسیقی سے لطف اندوز ہورہا ہے۔

تو بھائی کورونا کو سوچنا چاہیے کہ اس کی بقا بھی زمینی مخلوق کی بقا سے منسلک ہے۔ کورونا سے عرض ہے کہ اگر ہمیں کھانا ہی تمھارا مقدر ٹھہرا تو بھائی تمیز سے کھاؤ اور آہستہ آہستہ کھاؤ تاکہ لمبی زندگی گزار سکو زمین پر، ہم کون سا زمین سے بھاگے جارہے ہیں جب موقع ملے تو ہڑپ کرلینا اور گھبرانے کی ضرورت نہیں یہ جو گھروں میں چھپے لوگ ہیں یہ تم سے جان بچا کر فرار نہیں ہورہے ہیں تمھاری خاطر کچھ کھانا محفوظ کررہے ہیں جیسے ہم زمین والے کھانا فریج میں محفوظ کرتے تھے تو تم بھی سمجھ لو کہ ہمارے گھر اب تمھارے لیے فریج یا ڈیپ فریزر کا درجہ رکھتے ہیں۔

اسپتال اور آئسولیشن بھی دراصل تمھارے کھانے کے لیے اجزا کو صاف کرنے کے لیے ہیں تو جناب کورونا ندیدہ پن نہ دکھاؤ اور آرام سے کھاؤ نہ تم نے کہیں اور جانا ہے اور نہ ہم کہیں مرے جارہے ہیں۔ یورپ میں کھانا کم پڑجائے تو شوق سے ایشیا آجانا وافر کھانا دستیاب ہے تم سے پہلے پوری دنیا ہمیں یہ کھانا کم کرنے کا گیان دیتی تھی یہ تو ہمیں مستقبل کا علم تھا کہ تم آؤ گے تو خاطر مدارت کے لیے بھی آبادی کم نہ ہونے دی۔

تو جناب کورونا شوق سے آؤ وافر خوراک موجود ہے اور خوراک کی مزید پیداوار کے لیے حکومتوں نے لوگوں کو گھروں میں قرنطینہ بھی کردیا ہے سو دن رات پیداواری عمل جاری ہے۔ بس اتنا احسان کرنا کہ جب مجھ تک پہنچو تو آخری خواہشیں ضرور پوچھ لینا بلکہ ہم ابھی سے بتا ہی دیتے ہیں اپنی آخری خواہشیں تاکہ بعد میں کنفیوژن نہ ہو۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہم سے پہلے تم ان لوگوں کو کھانا جوہماری زندگی اجیرن کیے بیٹھے ہیں ان میں سے سرفہرست تو وہ خاتون ہیں جو ہمیں قرنطینہ میں بھی سکون کا سانس نہیں لینے دیتی ایک منٹ آرام سے نہیں بیٹھنے دیتی اور دوسری وہ جو فون پر ہمیشہ اپنا نام غلط بتاتی ہے۔

تیسری وہ صبا جو ہمیشہ اسپتال سے بیلنس کا میسج کرتی ہے اور پھرپیسے واپس نہیں دیتی۔ پھرہمارے وزیراعظم کی معاون اطلاعات کو کھانا اس عورت نے بھی ہمیں بہت دکھ دیے ہیں جب ٹی وی پر بولتی ہیں تو دل شدت سے چاہتا ہے کہ بولنے والی یا پھر سننے والوں کو کورونا چمٹ جائے اور چمٹتا ہی چلا جائے۔ عجیب عورت ہے جواب سننے کے بعد سوال کرنے والا اپنے سوال کی دریافت میں جت جاتا ہے اور جب تک اپنا سوال سمجھ آتا ہے تب تک یہ عورت دوسرے دن کی نیوز بریفنگ شروع کرچکی ہوتی ہے اور سننے والے کوہربار کی طرح پھر ایک آگ کے سمندر کا سامنا ہوتا ہے۔

اتنا ہمیں پاکستانی میڈیا نے کنفیوز نہیں کیا جتنا یہ عورت کرچکی ہے۔ اس کے بعد معاون صحت پرنگاہیں گاڑنا قوم کو کفیوز کرکے رکھتے ہیں ان صاحب کو کاغذ پر لکھ کر اعداد وشمار دیے جاتے ہیں اس کے باوجود یہ اعداد وشمار میں اپنی جمع تفریق ڈالنے سے باز نہیں آتے یہی شخص ہے جس نے پاکستان میں تمہاری آمد کو متنازع بنایا اور ہم شایان شان طریقے سے استقبال سے محرور رہے۔ اس نے قوم کی نظر چین کی سرحد پر لگائی اور تمھاری آمد ایران سے ہوئی سو قوم کو مڑتے مڑتے وقت لگا اورشایان شان اسقبال کا وقت نہ ملا۔

بھائی کورونا گزارش ہے کہ معاون صحت کو کھانے سے پہلے اس سے یہ ضرور پوچھنا کہ روز دو بندوں کے درمیان بیٹھ کر یہ قوم کو کنفیوز کیوں کرتا رہتا ہے اس سے اس کو کون سا سکون ملتا ہے؟ البتہ ثانیہ نشتر کو کچھ مت کہنا اور اگر کہنا ضروری بھی ہو تو آخری نمبر پر رکھنا ایک تو ان میں شاید آپ کو زیادہ کھانا نہ ملے اور دوسرا اس خاتون نے ہمارے اکاونٹ میں پیسے بھی تو ڈالنے ہیں سو وہ کام کرنے دینا کیا پتا ہماری ساتویٕں نسل کے کام آجائے یہ دولت۔

اب یہ پانچ لوگ تویاد کرلیے ہوں تو، آگے چلیں۔ ہمارے دوستوں میں سے پہلے اس کو ضرور کھانا بلکہ اسی شدت سے چبا چبا کر کھانا جس شدت سے وہ اپنی شاعری سناتا تھا۔ پھر ان چار دوستوں کو بھی کھانا جو ہمیں ادھار دے کر واپسی کی شرمناک خواہش رکتھے ہیں۔ ہم جنازے پر جاکر ورثا کا وہ اعلان سن لیں گے کہ اگر کسی کو میت نے قرض دیا تھا معاف کرتے ہیں سو ہم قرض فری ہوجائیں گے اور ویسے بھی تمیں مقروض کو کھانے میں شرم آئے گی تو تم بھی شرمندگی سے بچ جاؤ گے۔

ان کے بعد ہمارے آفس بوائے کم بوڑھے کو نشانہ بنانا اس نے کافی سال ہمیں چائے کے نام پر عجیب سی قسم کا محلول پلایا ہے جو شاید کسی وقت کتب سازی میں جوڑنے کے لیے بنایا جاتاہوگا۔ یاد رکھنا ہم سے پہلے ہمارے اس باس کو تو بالکل نہ بھول جانا جو فہرست میں شامل پہلی خاتون کے بعد سب سے زیادہ ہماری زندگی اجیرن کیے رکھتے ہیں۔ اس خاتون سے جان چھڑا کر ہم آفس بھاگتے ہیں اور وہاں پھر ان ہی صفات سے سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ کبھی کبھار اتنے کوسنے تو گھر پر بھی نہیں سہنے پڑتے۔

اس خاتون کے بعد اس شخص نے دنیا بھر میں ہمیں نکما، نا اہل اور کام چور ثابت کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے اور کچھ زیادہ ہی بلند اٹھا رکھا ہے لاک ڈاون میں بھی اس فریضے سے باز نہیں آتے موصلاتی مہم ہر تھوڑی دیر بعد شروع کردیتے ہیں۔ لاک ڈاؤٴن سے یاد آیا کہ ریاست نے رعایا کو گھر پر راشن پہنچانے کا اعلان کیا ہے۔ صاحبو اگر کسی کی رسائی ہے تو ریاست کو بتائے کہ سب سے پہلے راشن محترم وسعت اللہ خان کو پہنچائے وہ بیچارے اپنے کمرے میں قرنطینہ ہیں اورنظریں کھڑکی کے باہر چڑیا کے گھونسلے اور اس کی نو سہیلیوں پر ہیں۔ اب ہمیں نہیں پتا کہ بزرگ چڑیا کی پھدکتی سہیلیوں پر نظرے گاڑھے کس سوچ میں گم ہیں التبہ شدید اندیشہ ہے کہ اگر ان تک راشن نہ پہنچا تو کہیں چڑیا اوراس کی نو سہیلیوں کا مستقبل کڑاہی نہ ٹھہرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments