شوق کتب بینی اور محلہ لائبریری


گھر چھوٹا پڑنے لگا تو بھائی صاحب الگ گھر میں منتقل ہوگئے جو انہیں اسٹیٹ بینک کی طرف سے ملا تھا اس کے باہری کمرے میں انہوں نے اپنا اسٹوڈیو بنا لیا وہاں ان کے ہم خیال دوست اور دوسرے آرٹسٹوں کا بھی آنا جانا رہتا۔ اقبال مہدی، جمی انجینئیر، گوپال داس، انور شعور، اقبال فریدی صاحب اور ایک کرسچن آرٹسٹ جیمس بھی آیا کرتے سب مل کر تصاویر بناتے اور ساتھ ہی مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی اور بھابھی کے ہاتھ کا مزیدار کھانا بھی کھاتے تھے۔ اقبال بھائی ہر قسم کی کتابیں پڑھتے لیکن وہ ابن صفی کے بہت رسیا تھے۔ ان کی کوئی کتاب ایسی نہ تھی جو انہوں نے نا پڑھی ہو۔ وہ جدیدیت کے قائل تھے اور خلیل جبران کے افکار سے متاثر تھے اور ان کے حوالے بھی دیتے۔

مجھ سے بڑے جاوید بھائی اچھی خاصی شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ وہ بھی تاریخ کے دلدادہ تھے ان کے مطالعے میں شاہنامہ اسلام، نسیم حجازی، منٹو عصمت، کرشن چندر وغیرہ رہتے۔ ابن صفی مرحوم تو خیر گھر میں سب ہی پڑھتے اور وہ بھی۔ جاوید بھائی مجھ سے پہت پیار کرتے اور مجھے بچوں کی دنیا، تعلیم و تربیت اور بہت سی کہانی کی کتابیں لائبریری سے کرایہ پر لا کر دیتے اور پڑھواتے بھی۔ ان کی مجھ سے محبت اور انسیت بے مثال تھی۔ افسوس کہ وہ بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ میرے بھائی سے زیادہ میرے دوست تھے۔ ان کی کمی اور خلا کبھی پورا نہیں ہوگا۔ آج بھی جب یاد آتے ہیں تو دل کٹ سا جاتا ہے۔

پیدا کہاں ایسے پرا گندہ طبع لوگ۔

میں گھر کا سب سے کم علم فرد تھا۔ بچپن میں تو بچوں کی دنیا، تعلیم و تربیت اور کامکس پڑھتے گزرا۔ دوسری کتابوں کا شوق بھی تھا لیکن کم کم۔ ذرا بڑے ہوئے تو انگلش فکشن سے رغبت ہوئی اور انگریزی کتب کا شوق چرایا۔ پیری میسن، ہیرالڈ روبنس، اگاتھا کرسٹی، جیمز ہیڈ لی چیز، سارتر، کپلنگ اور نجانے کیا کیا پڑھ ڈالا۔ یہی شوق امریکن لائبریری، گوئٹے اسٹیٹیوٹ اور برٹش کونسل لے گیا ممبر شپ حاصل کی اور مختلف سبجیکٹ پر بہترین کتابیں پڑھنے کو ملیں۔

اشتراکی ادب بہت پڑھا۔ گورکی کی مشہور تصنیف ”ماں“ گھر ہی پر پڑھ لی تھی اس کے بعد ٹالسٹائی، چیخوف اور کئی دوسرے ادیبوں کے تراجم پڑھے لیکن اردو کے ترقی پسند مصنفوں کے مضامین اور شاعروں کے کلام نے سوچ کا انداز بدل دیا۔ معاشی ناہمواریاں، چار سو پھیلی بھوک افلاس اور جاگیردارانہ نظام ”بورژوا“ اور ”پرولتاریت“ کی اصطلاح سمجھ میں آنے لگیں۔

فیض صاحب کی شاعری نے حق گوئی کی ترغیب دی۔ سید سبط حسن، سجاد ظہیر، فراز، مجروح، مجاز، منٹو، کرشن چندر، بیدی، عصمت چغتائی اور دوسرے ترقی پسند ادیبوں اور شاعروں کے خیالات اور افکار نے سوچ کے زاوئیے بدل دیے لیکن اکثر یہی آگہی اور شعور بہت تکلیف کا باعث بھی بن جاتا ہے۔ جسے شاید صرف محسوس کرنے والے ہی سمجھ پائیں۔

بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ محلے کے نکڑ پر قائم لائبریری نے کتاب پڑھنا سکھایا۔ گھر کے ماحول اور کتابوں کی دستیابی کی وجہ کتب بینی کی عادت ہوئی اور ہر قسم کی تحریر پڑھنے کو ملیں جس سے ہم نے بھی کچھ استفادہ حاصل کیا۔ میرے اپنے گھر میں ہر قسم کے خیالات اور سوچ کے حامل لوگ تھے اور رات گئے تک خوب بحث ہوتی لیکن کیا مجال جو کبھی کوئی تلخی ہوئی ہو۔ بحث برائے علم ہوتی اور تمیز کے دائرے میں رہتے ہوئے۔

آج کل جب بچوں کو دیکھتا ہوں تو تکلیف ہوتی ہے کہ نہ ان کے اطراف کتابیں ہیں اور نہ ہی ایسے بزرگ جو ان کو کہانی کہانی میں بہت کچھ سمجھا دیا کرتے تھے۔ اب نئی نسل سے کیا شکایت کریں ہم نے ان کو دیا ہی کیا ہے۔

ترقی یافتہ دنیا میں جدید ٹکنالوجی اور کمپیوٹر کی یلغار کے باوجود آج بھی کتاب اور لائبریری معاشرے کا ایک اہم حصہ ہیں۔ ہر کاؤنٹی میں پبلک لائبریری ہوتی ہیں جہاں ہر ایک کی رسائی ممکن ہے۔ امریکہ میں ایک مشہور بک شاپ بارنس اینڈ نوبل ہے جہاں ہر موضوع اور ہر عمر کے لوگوں کے لئے بے شمار کتابیں دستیاب ہیں۔ خریدنا نا چاہیں تو خرید بھی سکتے ہیں ورنہ وہیں پر بنی کافی شاپ میں تلخ کافی کی چسکیوں میں جو کتاب چاہیں نکال کر پڑھ لیں۔

ہر شخص بہت خاموشی سے مطالعے میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ یہاں آج بھی کتاب زندہ ہے۔ وہیں ایک گوشے میں بچوں کا سیکشن ہوتا ہے جہاں کتابوں کے علاوہ ان کے لئے کھلونے اور دوسری تفریحات کا سامان ہوتا ہے۔ اسکول میں بچوں کے لئے باقاعدگی سے اسکول لائبریری لے جایا جاتا ہے اور ہر بچے کو کتاب ایشو کی جاتی ہے کہ وہ گھر جاکر پڑھے۔ ویک اینڈ کے اختتام بچے سے کتاب کے متعلق سوالات بھی کئیے جاتے ہیں۔ جس سے بچہ کتابوں سے مانوس رہتا ہے۔

اشد ضروری ہے کہ فوری طور پر حکومت اور سماجی تنظیمیں سامنے آئیں اور محلہ و یونین کمیٹی کی سطح پے لائبریرں اور کتاب گھر قائم کریں جہان ہر عمر کے افراد کے پڑھنے کے لئے بامقصد کتابوں۔ اخبارات اور رسائل ہوں۔ لائبریریوں کو خوشنما بنایا جائے تاکہ لوگ وہاں اپنا وقت صرف کرکے خوش ہوں۔ بچوں کے لئے تعلیمی کھلونے اور دلچسپیاں فرائم کی جائیں۔ بچوں کا ادب اور کتابیں دلچسپ اور معلوماتی ہوں جس سے ان کو ترغیب ملے کہ وہ بار بار لائبریری جائیں۔ کتاب اور کتب بینی کو ہنگامی بنیاد کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسی میں ہماری بقا ہے۔ صرف اور صرف علم ہی کے ذریعے ہم آنے والے کل کا حصہ ہوسکینگے وگرنہ جہالت کا اندھیرا ہمیں نگل لے گا۔

فنون لطیفہ اور ادب سے لاتعلقی اور کتاب سے دوری کی وجہ سے ہمارے رویوں میں تشدد اور عدم برداشت در آیا ہے۔ چونکہ مطالعہ نہی ہے لہذا مکالمے کے روایت بھی ختم ہوئی اس کی جگہ کج بحثی اور تکرار نے لے لی جس کے مظاہرے اب ہم ہر طرف دیکھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ اختلاف رائے رکھنے والوں کی زندگی بھی محفوظ نہی رہی۔
رب زدنی علما!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments