فرخ سہیل گوئندی کی کتاب ”لوگ در لوگ“ کے لوگ


جمہوری پبلیکیشنز کے روحِ رواں جناب فرخ سہیل گوئندی نے ”لوگ در لوگ“ کے نام سے ایک کتاب لکھ رکھی ہے جو ان واقعات اور تجربات پر مشتمل ہے جنہیں گوئندی صاحب نے اپنی سیاسی جدو جہد اور عملی زندگی کے دوران دیکھا، بیتایا یا محسوس کیا۔ سر گودھا کا یہ سپوت اپنی سیاسی جدو جہد میں بھٹو کا ”دیوانہ“ تھا، ایسا دیوانہ کہ بھٹو کو بطور وزیرِ خارجہ دیکھنا شروع کیا اور 4 اپریل 1979 تک پھانسی پر جھولتے، بھٹو کو دیکھتا رہا۔

کتاب پڑھ کے معلوم ہوتا ہے کہ گوئندی صاحب کا بھٹو خاندان سے ناتا خاصا گہرا تھا۔ کتاب میں بی بی کا تذکرہ بھی ہے اور بورس جانسن کی بیوی مرینا ویلر کا بھی جو سرگودھا میں اپنے اجداد کی ”Roots“ تلاش کرنے کی خاطر پاکستان تشریف لاتی ہیں۔ ترک اداکارہ نازاں سانچی کی پا کستان فلم انڈسٹری میں ہلچل کو بھی خوبصورت موتیوں میں پرویا گیا ہے۔ مصنف نے اپنے مرحوم دوست بلند ایجوت، جو کہ ترکی کے چار مرتبہ وزیرِ اعظم بنے، کا تذکرہ بھی خوبصورت الفاظ میں کیا ہے۔ مصنف کو ترکی میں شا دی کا مشورہ بھی بلند ایجوت نے ہی دیا تھا۔ اردن کی باد شاہت کے جانشین پرنس حسن بن طلال نے مصنف کو اپنے ”بے بہا علم“ سے خاصا متاثر کیا اور بقول مصنف یہی دانشوری اور علمی خزانہ ہی ان کے اقتدار کے حصول میں رکاوٹ بنا اور شاہ حسین کی موت کے بعد انہیں جانشین نا مزد نہیں کیا گیا۔

مصنف نے عثمانی سلطان مراد پنجم کی پڑنواسی شہزادی کنیزے مراد سے ملاقات کا احوال بھی لکھا ہے۔ اس ملاقات کا بنیادی ایجنڈا ان (کنیزے مراد) کا ناول ”Au Pays des Purs (In the Land of Pure) “ تھا جو انہوں نے فرانسیسی میں تحریر کیا اور ناول کا موضوع پاکستان تھا۔

سیالکوٹ کے ایک سکھ گھرانے میں جنم لے کر پندرہ سال کی عمر میں ”تحفہ الہند“ نامی کتاب پڑھ کے مسلمان ہونے والے مولانا عبید اللہ سندھی مصنف کو ”ترکی کی تلاش“ میں ملے۔ جو بعد آ زاں مصنف کو عبید اللہ سندھی نہیں، عبید اللہ ترکی لگنے لگے۔ 1998 میں اقوام متحدہ کے لیڈر شپ پروگرام کے دوران سابق اسرائیلی وزیرِ اعظم شمعون پیریز کی تقریر پر مصنف کے جاندار کمنٹس بھی محسور کن ہیں۔ 1982 میں ”بیروت“ کے محاصرے میں فلسطینیوں کا قتلِ عام کروانے والے سابق اسرا ئیلی وزیرِ اعظم ایریل شیرون کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے شیرون کو ”بیروت کاقصاب“ لکھا ہے۔

بقول مصنف انہیں چار شخصیات بہت یاد آتی ہیں جو ان کے دوست، جدوجہد کے ساتھی اور سیاسی رہنما تھے۔ ان میں بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید مرحوم، ملک معراج خالد مرحوم، حنیف رامے مرحوم اور راؤ رشید مرحوم شامل ہیں۔ مصنف اپنے رہبر شیخ محمد رشید کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں : جنرل ضیاء کی آمریت کے دنوں میں ایک امریکی سفیر ان کے در پر آنا چاہتا تھا۔ بابائے سوشلزم نے کہا: نہیں آپ میرے ہاں نہیں آ سکتے۔ آپ میرے لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے قاتل ہو۔ تم پاکستان میں جمہوریت، آئین، محنت کشوں، کسانوں اور دنیا بھر میں عوامی انقلابات کو کچلنے والے امریکی سامراج کے سفیر ہو۔ اس سامراج کے ہاتھ تیسری دنیا کے عوامی رہنماؤں کے خون سے آلود ہیں۔ نہیں، آپ نہیں آ سکتے۔ جب امریکی سفیر اس کسان لیڈر، بابائے سوشلزم کے در پر پہنچا تو محفل میں بیٹھے دوستوں نے کہا کہ ہم کہہ دیتے ہیں کہ شیخ صاحب گھر پر نہیں۔ شیخ صاحب نے کہا: نہیں، کہو میں گھر پر ہی ہوں لیکن تم سے ملنا نہیں چاہتا۔

مصنف لکھتے ہیں ترکی میں گہرے دوست کو یارم کہتے ہیں اور حنیف رامے میرے یارم تھے۔ مصنف 1993 کے الیکشن کا احوال لکھتے ہیں جب سارے ضلع لاہور میں پی۔ پی۔ پی ہار گئی مگر حنیف رامے جیت گئے۔ کار کنوں نے بھٹو کے اس دانشور لیڈر ساتھی کی ایسی انتخابی مہم چلائی کہ 1970 کے انتخابات کی یاد تازہ ہو گئی۔ مصنف لکھتے ہیں کہ مجھے یاد ہے جب سارے لاہور میں پی۔ پی۔ پی کی شکست کی اطلاعات آ رہی تھیں، جی ٹی روڈ پر حنیف رامے مرحوم کے انتخابی حلقے کی گلیوں میں یہ نعرہ لگ رہا تھا:

”اے کیہہ رولا پے گیا، رامے سیٹ لے گیا“۔
مصنف لاہور کے ایک کسان کے گھر پیدا ہونے والے ملک معراج خالد کے بارے میں لکھتے ہیں :
سعادت حسن منٹو کے اس پڑوسی نے اپنی سیاسی زندگی کا عروج ایک سادہ سے اپارٹمنٹ میں گزار دیا۔ جب وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں سپیکر قومی اسمبلی بنے تو میں ان کے ہاں بیڈن روڈ سے ان کے گھر جانے والی گلی میں دا خل ہوا تو ایک سوٹ بوٹ میں ملبوس شخص حیرانی سے پوچھنے لگا، مجھے سپیکر قومی اسمبلی ملک معراج خالد کے ہاں جا نا ہے، کیا واقعی وہ ادھر ہی رہتے ہیں؟ سوٹ بوٹ میں ملبوس اس شخص کو کیا معلوم کہ برِ صغیر کا سب سے بڑا افسانہ نگار سعادت حسن منٹو اور مایہ ناز ادیب مستنصر حسین تارڑ بھی یہیں کے رہنے والے ہیں۔ بڑے لوگ، گھروں اور گاڑیوں سے نہیں ناپے تولے جاتے۔

مصنف کو بہت یاد آنے والے چوتھے دوست، راؤ رشید، سابق آئی۔ جی پنجاب اور بھٹو کے خصوصی سیکرٹری رہے۔ ان کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں : راؤ رشید کا ایک دن فون آیا، کہنے لگے ”فرخ، تم خوش قسمت ہو“، میں نے پوچھا کہ کیا ہوا میری لاٹری نکل آئی؟ کہنے لگے ”ہاں تمہاری لاٹری نکل آئی کہ تم میری زندگی میں واحد خریدی جانے والی پراپرٹی کے گواہ بننے جا رہے ہو“۔

اپنی چند ایکڑ زمین بیچنے اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے پراویڈنٹ فنڈ کو جمع کر کے انھوں نے ڈیفنس میں ایک د س مرلے کا مکان خریدا۔ جب پراپرٹی ڈیلر نے کاغذات مکمل کر لیے تو کہنے لگے، پہلی مرتبہ ایسا پولیس افسر دیکھا ہے، وہ بھی آئی۔ جی سطح بلکہ اس سے بھی اوپر کا، جو زندگی کے آخری سالوں میں اپنا مکان خریدنے کے قابل ہوا۔ ہمارے ہاں تو ایک ڈی۔ ایس۔ پی سطح کے عہدے دار آتے ہیں، جو پانچ پانچ مکانوں اور بے حساب پراپرٹی کے مالک ہیں۔ کہنے لگے، ”ہاں، وہ راؤ رشید نہیں ہوتے“۔

بھٹو کی پھانسی کے تین سال بعد یہ خبر گرم ہوئی کہ بھارت میں بھٹو پر فلم بنائی جا رہی ہے اور فلم پروڈیوسر آئی ایس جوہر کی فلم کی کہانی معروف بھارتی جریدے ”انڈیا ٹو ڈے“ میں چھپ چکی تھی۔ یہ کہانی بھٹو کے مقدمہ قتل کے دوران کے واقعات پر مبنی تھی، جس میں کوٹ لکھپت جیل اور راولپنڈی جیل کے بیتے ایام کا زمانہ فوکس کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں مصنف نے آئی ایس جوہر سے ملاقات بھی کی اور اس کا دلچسپ احوال بھی لکھاہے۔

کتاب کے مطابق مصنف کو بمبئی کی بندر گاہ پر قلی کی نوکری سے بمبئی کے بے تاج بادشاہ کا سفر کرنے والے معروف ڈان حاجی مستان مرزا سے ملاقات کا شرف بھی حاصل ہے۔ مصنف کی متاثر کن باتوں سے تو حاجی مستان مرزا ایک فرشتہ صفت انسان دکھائی دیتے ہیں۔ یہ وہی مستان مرزا ہیں جن کی زندگی پر 2010 میں ایک فلم ”Once Upon a Time in Mumbai“ بنائی گئی، جس میں اجے دیوگن نے مستان مرزا (سلطان مرزا) کا کردار ادا کیا۔

معروف بھارتی ادیب اور سیاستدان خشونت سنگھ کو ”ساڈھا چھور“ قرار دینے کے بعد مصنف نے معروف صحافی کلدیپ نیئر کا بھی ذکر کیا ہے۔ پہلی ملاقات میں ہی کلدیپ صاحب نے مصنف کی کتاب ”میرا لہو ذوالفقار بھٹو کی سیاست و شہادت“ کو دلچسپ قرار دیا۔ مصنف کلدیپ صاحب کی سوانح عمری کے بارے میں لکھتے ہیں :

اپنی سوانح عمری ”Beyond the Lines“ کے اردو ترجمہ کی اشاعت کے لیے کلدیپ نیئر کی خواہش تھی کہ اسے میں اپنے اشاعتی ادارے کے تحت شائع کروں۔ افسوس، سستی شہرت کے حصول کے لیے میرے چند ہم وطن دوستوں نے اس کتاب کا کلدیپ نیئر کے مطابق، برعکس اردو ترجمہ شائع کیا، جس پر ان کو بہت دکھ تھا۔

کتاب میں معروف بھارتی سیاستدان اند ر کمار گجرال سے ملاقات کا بھی تذکرہ ہے جو شملہ معاہدہ میں اندارا گاندھی کے ناقد اور بھٹو کے مداح تھے۔

جب مصنف کی طرف سے بی۔ بی کے جلسوں میں امریکہ کے خلاف نعرے لگوانے کی گستاخی میں ان پر پی۔ پی۔ پی کے ہی ایک جاگیر دار لیڈر نے غنڈوں کی مدد سے تشدد کروایا تو دوسرے روز اخبار میں ایک کالم لکھا گیا، ”ذوالفقار بھٹو کا لہو لکھنے والے فرخ سہیل گوئندی کا اپنا لہو بہا دیا گیا“۔ یہ کالم منو بھائی نے لکھا، جنھوں نے اپنے ایام علالت میں سوانح عمری ”میں تے منو بھائی“ لکھنے کا آغاز کیا اور مصنف سے بار بار پوچھتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے کہ میری یہ کتاب کب شائع کرو گے؟

19 دسمبر 1984 کو لاہور میں ضیاء کی آمریت کے خلاف جلوس نکالنے پر ایک پولیس والے کے ڈنڈے سے بال بال بچ جانے والی ملک غلام جیلانی کی بیٹی عاصمہ جیلانی (جو شادی کے بعد عاصمہ جہانگیر بن گئیں ) کے باب کو مصنف نے ”ایک بہادر عورت“ کا نام دے رکھا ہے۔ کتاب پڑھ کے معلوم پڑتا ہے کہ 2010 میں عاصمہ جہانگیر کا سپریم کورٹ بار کی صدر بننا کس کی خواہش تھی؟ اور اس کام میں قانون دان بابر اعوان کا کیا کردار تھا۔

مصنف کے ایک لاہوری یار ڈاکٹر انور سجاد بھی ہیں، جن کے تذکرے میں لکھتے ہیں :

جنرل ضیاء کے دور میں ایک روز پولیس کی چار پانچ گاڑیاں اس نہتے اداکار، فنکار، ڈاکٹر اور سیاسی ایکٹیو سٹ کو چونا منڈی میں ان کے کلینک سے گرفتار کرنے آ گئیں۔ پولیس افسر نے کہا، چلیں ڈاکٹر صاحب، آپ کی گرفتاری کا حکم ہے۔ وہ اپنے کلینک سے اٹھے، پو لیس کو گرفتاری دی اور پولیس وین میں بیٹھ گئے۔ محلے والے اکٹھے ہو گئے۔ گاڑی چلنے لگی، سگریٹ کا کش لگاتے، مارشل لاء کے زندان میں جاتے انقلابی دانشور نے مسکراتے ہوئے تھانیدار سے کہا، ٹھہرو ابھی گاڑی نہ چلاؤ۔ وہ رک گئے اور پوچھا کیوں؟ ڈاکٹر انور سجاد نے کہا، گاڑیوں کے اوپر لگے ہوٹر بجاؤ، محلے میں پتا چلے کہ میری بارات پسِ زندان جا رہی ہے۔ میرا ٹہکا ہونا چاہیے کہ آمریت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے گرفتار ہوا ہوں۔ یوں ان گاڑیوں کے ہوٹر بجنے لگے اور ڈاکٹر انور شا ن و شوکت سے چونا منڈی سے جیل چلے گئے۔

جیل میں انہوں نے عمانوئیل کزاکیویچ کی کتاب ”The Blue Notebook“ کا ”نیلی نوٹ بک“ کے نام سے اردو ترجمہ بھی کیا۔

فرخ سہیل صاحب کی اس کتاب میں مدیحہ گوہر کا ”جلوس“، یونس ادیب کی کتاب ”میرا شہر لاہور“ کا خو بصورت تعارف اور ایک مختصر مضمون معروف محقق محمود مرزا صاحب پر بھی ہے۔ کتاب کا ایک باب ”سب کے دوست“ وارث میر کے نام بھی ہے۔ مصنف لکھتے ہیں :

وارث میر سے میری آخری ملاقات ان کی وفات سے پانچ روز قبل ہوئی۔ اس ملاقات کے دو موضوع تھے، حامد میر اور ترکی۔ ان دنوں میر صاحب حکومت اور ایک طلبہ تنظیم کے نشانے پر تھے۔ حامد میر ان دنوں اپنے جوہر دِکھلانے کے لیے پر تول رہے تھے۔ میر صاحب کو بڑی فکر تھی کہ حامد میر نئی مشکلات کھڑی کر دیں گے۔ بڑی دلچسپ بات یہ تھی کہ میں وارث میر صاحب کے جاسوس کی حیثیت سے حامد میر سے ملتا اور جاننے کی کوشش کرتا کہ وہ کن سیا سی منصوبوں پر عمل درآمد کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کیوں کہ ان دنوں وہ میرے دوست آ غا نوید سے رات دن رابطوں میں تھے جو کہ ضیاء کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے قلعہ کے عقوبت خانے اور جیل کاٹ کر آئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments