ترکی کے گروپ یورم کی ہیلین بولک


ترکی کے شہر استنبول میں ایک مخصوص جگہ تھی جس کا نام idil Culture Center رکھا گیا تھا۔ یہاں کچھ لوگ جمع ہوتے تھے اور اپنا لائحہ عمل تیار کرتے تھے۔ یہ لوگ فکری اعتبار سے مارکس اور اُس کے فلسفے کے حامی تھی۔ ان کی سوچ انقلاب کے ہیجان سے بھڑک رہی ہوتی تھی۔ یہ لوگ جمع ہوتے اور آنے والے کل کے لئے تیاری کرتے تھے۔ ان میں تعلیم کے شعبے سے تعلق رکھنے والے بھی تھے اور موسیقی کے ماہر افراد بھی شامل تھے جو Grup Yorum کے نام سے متحد تھے۔

اسی طرح 24 نومبر 2016 کی رات کو یہ لوگ جمع تھے۔ اچانک پولیس نے کچھ دیگر فورسز کی مدد سے ان کے سینٹر پر چھاپا مارا۔ ان لوگوں کو گرفتار کیا اور ان کے ساز و سامان کو نقصان پہنچایا۔ موسیقی کے آلات توڑے گئے، کتابوں کو نذرِ آتش کیا گیا، نقدی چھین لی گئی، اس سے بڑھ کر کچھ افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔ اس طرح کے مسلسل چھاپے مارے گئے۔ 2015 سے لے کر 2018 تک مسلسل چھاپوں کی صورت میں ان کو تنگ کیا گیا اور تقریباً تمام افراد کو گرفتار کیا گیا۔

گروپ یورم کیا ہے؟

1985 میں چار دوستوں نے مرمرہ یونی ورسٹی میں ایک گروپ تشکیل دیا جس کو گروپ یورم کا نام دیا گیا۔ اس گروپ میں ترک اور کردش افراد شامل تھے۔ انہوں نے ترکی اور کردش کے لوکل گانوں کو مکس کیا اور اس کو ایک طنزیہ شکل دی۔ پسِ پردہ یہ گروپ DHKP-C (اس کا ذکر بعد میں آرہا ہے ) کو سپورٹ کر رہا تھا۔ حکومت کو یہ خدشہ تھا کہ ان لوگوں کے کنسرٹس میں لوگ نعرہ بازی کرتے ہیں اور یہ لوگ انقلابی نعرہ باز بن کر حکومت کے لئے خطرے پیدا کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے ان پر سختی برتی گئی۔ ان کے خلاف چار سو کے قریب ٹرائیلز کیے گئے اور چار سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔

یہ گروپ کسی اور تنظیم کا حصہ نہیں تھا بلکہ خود کردش اور ترکش کے انتہائی بائیں بازو کو سپورٹ کر رہا تھا۔ انہوں نے استعماریت، سرمایہ داری نظام، امریکہ اور ترکی حکومت کے ان پالیسیوں کے خلاف گانے گائے جن کے بارے میں وہ سوچتے تھے کہ ان کے ذریعے حکومت غریبوں کو سزا دیتی ہے۔ ان کے گانے آزادی کے لئے جدوجہد کے گانے تھے۔

اس گروپ کے البمز پولیس اپنی تحویل میں لے لیتی تھی، ان کے کنسرٹس پر حملہ آور ہوتی تھی لیکن پھر بھی ترکی کی تاریخ میں ان کے البمز سب سے زیادہ فروخت ہوئے۔ اس گروپ نے فلمز بھی بنائے ہیں۔ جن میں F-Tipi سر فہرست ہے۔

اس گروپ کے کارندوں کے سر پر 3 لاکھ ایرہ کا انعام رکھا گیا ہے۔
ان کو گرفتار کیوں کیا گیا؟
اس سینٹر میں موجود لوگوں کا تعلق ایک سیاسی پارٹی سے تھا جس کا نام ترکی زبان میں Devrimci Halk Kurtuluş Partisi-Cephesi ہے۔ انگریزی میں اس کو Revolutionary People ’s Liberation Party۔ Front کہتے ہیں۔ ان کا نعرہ

Umudun adı DHKP-C!
Titre oligarşi Parti-Cephe geliyor!
Kurtuluş Kavgada، Zafer Cephede!
ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے۔
The name of hope is DHKP-C!
Titre oligarchy Party-Front is coming!
Salvation in Fight، Victory at the Front!

یہ لوگ کمیونزم، مارکسزم، کے حق میں جبکہ استعماریت اور امریکہ کے خلاف نکلے ہیں۔ الغرض ان لوگوں کا تعلق انتہائی بائیں بازو سے ہے۔ 30 مارچ 1994 کو اس تنظیم کا وجود سامنے آیا جبکہ اس سے پہلے یہ تنظیم 1978 میں منظرِ عام پر آئی تھی لیکن بعد میں کچھ تبدیلی کے ساتھ 1994 کو باقاعدہ ایک سیاسی جماعت کی شکل میں ابھر آئی۔

ترکی نے اس تنظیم کو دہشت گرد تنظیم کا درجہ دے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ ، جاپان، اور یورپی یونین نے بھی اس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے۔ ان کے تمام تر سرگرمیوں پر ترکی حکومت کی نظر رہتی ہے اور اسی وجہ سے ان کو بار بار نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح اس سینٹر پر بار بار چھاپے مارے جاتے ہیں اور ان کے لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے۔

بھوک ہڑتال

ترکی حکومت نے ایک فیصلہ کیا جس کے تحت اس گروپ کے تمام قیدیوں کو الگ الگ سیلز میں رکھا جانا تھا۔ اس کے خلاف اس تنظیم کے کارکنوں نے 26 اکتوبر 2000 کو بھوک ہڑتال شروع کی جو 19 نومبر تک جاری رہی۔ اس بھوک ہڑتال میں 18 جیلوں میں 816 قیدیوں نے حصہ لیا تھا۔

2016 میں ان کا بیان!

جب اس تنظیم کے لوگوں کو گرفتار کیا جانے لگا تو 28 اکتوبر 2016 کو ان کا ایسا بیان سامنے آیا جو اس تنظیم کے کارکنوں کو مزید چست ہونے کی تلقین کر رہا تھا۔

ایڈل کلچر سینٹر کے ایک بیان میں کہا گیا کہ چھاپے کے دوران گروپ یورم کے موسیقی کے آلات کو تباہ کیا گیا، فاشسٹ پولیس نے گروپ پر حملہ کیا کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ آزاد لوگوں کے آوازوں کو سنا جائے۔ طیب اردوان کی فاشسٹ حکومت مار دھاڑ میں یقین رکھتی ہے اور ان کا خیال ہے کہ اس طرح یہ جذبہ روک لیا جائے گا۔ ۔ ہم گاتے رہیں گے اور لوگ سنتے رہیں گے۔ کیونکہ ”آپ موسیقی کے آلات کو تھوڑ سکتے ہیں لیکن آپ اس یقین اور جذبے کو ختم نہیں کر سکتے۔ ہم جیتیں گے“۔

اصل بات یہی تھی کہ ان لوگوں کے گانے لوگوں میں جذبہ اور ولولہ پیدا کرنے میں مؤثر ثابت ہو رہے تھے جو حکومت کے لئے خطرے کا باعث ہو سکتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ یہ لوگ کردوں کے حق میں تھے اور ترکی حکومت کردوں کے ساتھ جو کچھ کر رہی ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔

اس بیان نے طیب اردوان کی حکومت کا مکروہ چہرہ بھی بے نقاب کر دیا جو آزادی کا جھوٹا راگ الاپتی ہے۔

2016 میں ہونے والی گرفتاریوں کے ردعمل میں بھوک ہڑتال!

جب ان کی گرفتاریوں میں اضافہ ہوتا گیا تو اس گروپ کے کچھ افراد نے بھوک ہڑتال کا اعلان کیا۔ جن میں ہیلین بولک اور ابراہیم گوکسیک سرِ فہرست تھے۔ ان دونوں نے جون 2019 میں بھوک ہڑتال کا آغاز کیا جس کا مقصد یہ تھا کہ ان کے گروپ پر زیادتیاں بند کی جائیں اور ان کو آزادی سے گانے کا حق دیا جائے۔ اس کے علاوہ ان کے مانگوں میں گروپ کے ممبرز کی رہائی، کنسرٹس کی آزادی اور فیئر ٹریٹمنٹ بھی شامل تھا۔ ظاہری طور پر ان کے مطالبات یہ تھے :

بار بار چھاپا مارنے سے گریز کیا جائے
ان کے کاروندوں کو وانٹڈ لسٹ سے ہٹایا جائے
کنسرٹس پر سے پابندی ہٹائی جائے
تمام کارندوں کو رہا کیا جائے

اس بھوک ہڑتال کے پیشِ نظر حکومت نے نومبر 2019 کو ہیلین بولک کو رہا کر دیا لیکن انہوں نے بھوک ہڑتال ختم نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔

4 جنوری کو ابراہیم اور ہیلین بولک نے اپنے بھوک ہڑتال کو تادمِ مرگ بھوک ہڑتال میں تبدیل کیا۔ اس کے پیشِ نظر ابراہیم کو 25 فروری 2020 کو رہا کر دیا گیا لیکن انہوں نے بھی بھوک ہڑتال ختم نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس بھوک ہڑتال میں انہوں نے صرف پانی پینے کا فیصلہ کیا جبکہ باقی خوراک مکمل طور پر بند کر دی۔

جب حکومت کے دباؤ کے باوجود ان کی بھوک ہڑتال ختم نہ ہوئی اور ان کی طبیعت مزید بگڑتی گئی تو 11 مارچ 2020 کو پولیس نے ان دونوں کے گھروں پر چھاپا مارا اور ان کو زبردستی ہسپتال منتقل کر دیا۔ جہاں حکومت کی منشا کے مطابق ان کا علاج ہونا تھا اور ان کو زبردستی کھانا کھلانا طے پایا تھا لیکن ان دونوں نے سختی سے انکار کیا۔  حکومت نے  ہاتھ روک لیا اور ان کو پھر سے رہا کر دیا گیا۔ یہ بھوک ہڑتال جاری تھی اور اس کے 288 دن ہوگئے تو جمعہ 3 اپریل 2020 کو ہیلین بولک کا انتقال ہوگیا۔

اب بھی گروپ کے کارندے جیل میں ہیں اور ترکی حکومت کسی بھی طرح ان کی مانگوں کو پورا نہیں کرنا چاہتی۔

ہیلین بولک  پر موت سے پہلے اور موت کے بعد کیا گزری؟

ہیلین بولک کون ہیں؟

ہیلین بولک 1992 کو نیسان ترکی میں پیدا ہوئی۔ ان کا تعلق دیار بکِر خاندان سے تھا۔ وہ ایک موسیقار تھی اور ہمیشہ اکیلے گانے کو ترجیح دیتی تھی۔ وہ آزادی کے نغمے گایا کرتی تھی۔

جب ان کی موت کی خبر چلی تو گروپ کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ایک پیغام نشر کیا گیا جس میں کہا گیا کہ تادمِ مرگ بھوک ہڑتال کے پیشِ نظر 288 دن بعد ہمارے گروپ کی ایک ممبر ہیلین بولک شہید ہوگئی ہے۔ آپ سب سے التماس ہے کہ آپ شہید کی آخری رسومات میں آئیں۔

ہیلین بولک کی والدہ کا کہنا ہے کہ ہیلین رات کو سو نہیں سکتی تھی کیونکہ اس کے اعصاب کو بہت نقصان پہنچا تھا۔ اس کو پورے جسم میں درد محسوس ہوتا رہتا تھا۔ میں اپنی بیٹی کو دوبارہ گاتے سننا چاہتی ہوں۔ دوبارہ لوگوں کو خوش و خرم دیکھنا چاہتی ہوں۔

ہیلین کی موت پر لوگ جمع ہوئے اور ان کی آخری رسومات ادا کی جارہی تھی کہ پولیس نے اس پر بھی چھاپا مارا اور سب کو منع کیا کہ یہاں سے چلے جائیں۔ ان کو جنازے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی۔ پولیس نے آنسوں گیس بھی چھوڑا اور جنازے لے جانے والے افراد کو گرفتار کیا لکن جیسے تیسے کچھ لوگوں (رشتہ داروں ) نے ہیلین بولک کو دفنا دیا۔

ان کی موت Resistance House میں ہوئی جو استنبول میں واقع ہے۔

ابراہیم گوکسیک نے اپنی ساتھی ہیلین بولک کی موت پر حکومت کو ایک پیغام دیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ

” There you go? what happens now? who will be brought to account? You killed a 28-year-old artist-Either I was going to die or she would-Are you satisfied?

میں اپنی تحریر گروپ یورم کے اس گانے پر ختم کرنا چاہتا ہوں جو ظفری کدر نے گایا ہے۔
Until Victory
Every House Is a Castle
our home is a school
Revolution to victory in out language
a resistance in every home
A fedayeen (militant) in every home
Revolution to victory in our language


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments