نادم و شرمسار



”یار! آج میں بہت پریشان ہوں اور اپنی اس زندگی سے تنگ آگیا ہوں، گھر میں سکون کا ایک لمحہ میسر نہیں، تلاشِ معاش سے تھکا ہاراشام کو گھر آتا ہوں تو چین و آرام نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی، مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ میں امی کو کیسے سمجھاؤں؟ وہ پرانے وقتوں کی ہیں، اپنے زمانے کی باتیں کرکے ہمارے اس نئے دور سے کمپیئر کرنے کی کوشش کرتی ہیں، انہیں کیا معلوم کہ، یہ اکیسویں صدی کانیا دور ہے اور نیو جنریشن کا زمانہ ہے، بس!

مجھے آج کوئی فیصلہ کرنا ہوگا، مجھ سے یہ روز روز ہونے والی ساس بہو کی“ توتو میں میں ”برداشت نہیں ہوتی، اب تو بیوی بھی طعنے مارنے لگی ہے، ایسے میں اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں کر سکتا۔ “ حارث ایک ہی سانس میں سب کہہچکا تو میں نے حارث کو دیکھا اور تندور بنا بیٹھا تھا۔

میں نے نے تکلفانہ انداز میں اس کی انگلی دبائی اور کہا: ”تو تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ تمہارے بچوں کا مستقبل تمہاری ماں کی وجہ سے خراب ہورہا ہے“۔ میں نے حارث کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ ”ہاں بالکل یہی بات ہے“۔ حارث بھی غصے سے بھرا بیٹھا تھا۔ ”پھر تمہارا مستقبل کیسے تابناک ہوگیا، تم کس قابلیت کے بَل پر شہر کی بڑی میڈیسن کمپنی کے منیجر بن گئے۔ “ میں نے حارث کی آنکھوں میں جھانکاتو وہ میرے اس غیر متوقع جواب سے منہ کھولے بیٹھا تھا۔

حارث بہت سمجھدار، شریف اورمیرے متحرک دوستوں میں سے ہے، ہماراسالوں سے روز شام کی چائے ساتھ پینے کا معمول ہے، اس طرح دن کی کارگزاری بھی ہو جاتی ہے اور مغرب وعشاء بھی ساتھ پڑھ لیتے ہیں، پچھلے کئی دنوں سے وہ اکثر اپنی اور اپنی امی جان کے بیچ کے اختلافات مجھ سے شئر کررہا تھا جسے میں نے معمول کی باتیں سمجھ کر پس پشت ڈالتا رہا، لیکن آج وہ بپھرا ہوا تھا۔ حارث کی امی جان مجھے اپنا بیٹا سمجھتی تھیں، ان کے مزاج میں شائستگی، محبت کے پھول ہر وقت کھلے رہتے۔

میں نے اس صورت حال کو مزید کسی برے انجام کی طرف لے جانے کی بجائے اس کا حل تلاش کرنے میں گم ہوگیاسوچنے لگا کہ کیا جائے۔ ”مجھ پر حارث کے اس پاگل پن کا علاج کرنا بے حد ضروری ہے، ورنہ میں ایک اچھے مخلص دوست کو کھو بیٹھوں گا، حارث ایسا انسان نہیں ہے کہ وہ میری بات نہ سمجھے، اگر آج اس کو اس بات کا ادراک نہ کروایا تو بہت نقصان ہوگا“۔

میں نے خود کلامی کے انداز میں دل ہی دل میں اللہ پاک سے مدد طلب کی اور حارث سے کہا: ”حارث! تم امام اعظم ابو حنیفہ ؒ کو جانتے ہو“؟ حارث نے اثبات میں سر ہلایا تو میں نے کہا : ”امام صاحب کتنے بڑے عالم وفقیہہ تھے، ہزاروں شاگردوں کے استاد تھے، علم فقہ کے مدون مانے جاتے ہیں اور آپ ؒ کے علم کا چہار دانگ عالم چرچاتھا۔ ملکوں ملکوں سفر کر کے لوگ آپؒ کے پاس حاضر ہوتے، علم دین سیکھتے۔ ہزاروں احادیث مبارکہ اور فقہی مسائل ازبر تھے، آپؒ ایک ایک مسئلہ کاجاننے کے لیے ہزاروں میل کا سفر کرتے تھے۔ “

حارث نے اب چائے رکھ دی تھی اور میری بات پر کان لگا دیے تھے، میں نے اپنی بات کو آگے بڑھایا اور بولا: ”تم حیران ہو جاؤ گے کہ اتنے بڑے فقہی اور وقت کے امام سے، ان کی والدہ مسئلہ نہیں پوچھتی تھی، بلکہ اپنے بیٹے (امام اعظم ؒ ) سے کہتیں کہ مجھے بغداد کے فلاں عالم دین کے پاس لے چلو، میں نے ان سے مسئلہ دریافت کرناہے، اکثر ایسا ہوتا تھا کہ والدہ جن کے پاس مسائل پوچھنے جاتیں، وہ امام اعظم ؒ کے شاگرد ہوتے تھے، امام صاحبؒ والدہ کی حکم عدولی نہ کرتے، بلکہ پردے کی اوٹ سے اپنے شاگرد کو وہ مسائل بتاتے رہتے جو والدہ نے دریافت کرنے ہوتے تھے اور وہ عالم دین امامؒ، یعنی اپنے استادکی والدہ کو مسائل سمجھاتے رہتے، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ؒ نے یہ کبھی گوارا نہیں کیاکہ میں اپنے شاگرد کے پاس والدہ کوکیوں لے کر جاؤں، میں تو خود اتنا بڑا فقیہہ اور عالم ہوں اور نہ کبھی اس بات کا شکوٰہ والدہ سے کیا کہ آپ مجھ سے مسائل کیوں نہیں پوچھتیں۔“

میں نے حارث کا ہاتھ دبایا اور کہا: ”دیکھو حارث! والدہ کا اس انتہا کا احترام وقت کا امام کیوں کر رہا ہے؟ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی ہے، یہ“ دنیا کی جنت ”ہے، آج ہمارے معاشرے میں ایک غلط فہمی لوگوں میں دیکھنے کو ملتی ہے کہ گھر وں میں ماں اولاد کی اولاد کے لیے ہیڈ بن جاتی ہے، یا اپنے حکموں کے تابع کرنے کی کوشش کرتی ہے، جسے اولاد قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتی، جبکہ وہ تو پوتوں کابھلا چاہ رہی ہوتی ہے، بس اس کے چاہنے میں خلوص کاجو سمندر موجزن ہوتا ہے اسے عبور کرنے کی ہمت ہونی چاہیے، ماں اگر سرزنش کرتی ہے تو اس سرزنش میں بھی تشدد نہیں ہوتا، اس لیے کہ ماں میں بے رحمی نہیں ہوتی، انتقام نہیں ہوتا۔

بسا اوقات تو اس کاغصہ بھی اصلی نہیں ہوتا، دکھاوے کا ہوتا ہے، پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ محبت کا دریا اور جنت کی مشابہت رکھنے والی یہ ہستی وحشت و ظلم کی علامت بن جائے۔ ماں کے حوالے سے معاشرے میں تنگ نظری ضرور ہے مگر یہ ابہام اکثریتی نہیں ہے اور جس سماج میں اس رویے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے وہاں یہ خیال ہی فاسد ٹھہرتا ہے، ممکن ہے کہ اس خیال کی ابتدا سے ہی تم والدہ کی محبت سے محروم ہو جاؤ۔ قرآن حکیم میں جگہ جگہ لوگوں کو ڈرایا گیا ہے کہ، والدین کو۔ “ اف ”تک نہ کہو، آخر کیوں؟

حارث کے دماغ کی بند کھڑکیاں اب کھلنے لگی تھی۔ میں نے بات آگے بڑھایا اور فائنل گول کرنے کے لیے تیار ہو : ”مجھے سمجھ نہیں آتاکہ لوگ آخرت کی جنت کی طلب تو کرتے ہیں مگرجو جنت دنیا میں دی گئی ہے اس کی ناقدری کرتے ہیں، میں تو حیران ہوتا ہوں کہ ناجانے یہ بات لوگوں کو کیوں سمجھ نہیں آتی کہ روز جزاء کے دن جنت و جہنم کا اختیار اللہ کے پاس ہوگا، وہ خالق کائنات جسے چاہے گا جنت میں داخل کر دے گا اور جسے چاہے گا جہنم کا ایندھن بنا دے گا، لیکن اس دنیا کی جنت جسے (ماں ) کہا گیا ہے اس کا مکمل اختیار اولاد کو دے دیا ہے، گویا اولاد کو جنت کا مالک بنا دیا ہے، پھر تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ تمہارے گھر کو ماں نے جہنم بنا دیا ہے، کبھی جنت بھی جہنم کا روپ دھار سکتی ہے؟ ہاں مگریہ بات ضرور ہے کہ اگر تم اگر اس جنت سے محروم ہو گئے تو تمہارا مستقبل طوفانوں کی زد میں آکر جہنم بن جائے گا۔ “

حارث نے میری باتیں غور سے سنیں اور نادم و شرمسار گھر کی طرف چل پڑا، اس کے جذبات و احساسات بتا رہے تھے کہ وہ آج دنیا کی جنت کا باسی بن جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments