کورونا وائرس، سرمایہ دارانہ نظام کی حقیقت اور اسلام کا معاشی نظام


عنی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد سے سوشل میڈیا پر دیکھنے سننے میں آیا ہے کہ عوام ماسک اور سینیٹائزر مہنگے داموں بیچنے کا سارا ملبہ اُس غریب پر ڈال رہے ہیں جوکہ سرمایہ دارانہ نظام کی ظالم چکی میں خود بھی پِس رہا ہے۔ کبھی اُس مسلمان کے ایمان کو کمزور کہا جا رہا ہے تو کبھی اُسے ایک منافع خور بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ”اگر اذانیں دینے سے کام نہ چلے تو 100 روپے میں بیچا جانے والا ماسک 10 روپے میں بیچ کر دیکھنا، شاید فرق پڑ جائے۔ “

میرے نزدیک اس کا تعلق مسلمان کے ایمان سے نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ فضا سے ہے۔ کیوں کہ یہ وہی نظام ہے جو انسان کی بھوک مٹانے میں، انسان کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں سراسر ناکام ہو چکا ہے۔

یہ وہی نظام ہے جس نے امیر کو امیر سے امیر تر جبکہ غریب کو غریب سے غریب تر بنا دیا ہے۔
اسی سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی جمہوری حکومت نے لاک ڈاؤن کے ذریعے معیشت کا پہیہ مکمل جام کر دیا جس میں بڑے سرمایہ دار کو تو شاید خاص فرق نہ پڑے مگر غریب اور دیہاڑی دار انسان اور اس کے خاندان کو بھوکا مرنے کے لیے بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ ماسک اور سینیٹائزر جیسی معمولی اشیاء نسبتاً مہنگی فروخت کر کے اپنے بھوک سے مجبور خاندان کا پیٹ پالنا چاہتا ہے۔

یہ وہی نظام ہے جس نے انسان کو اللہ رب العزت کی غلامی سے نکال کر سرمایہ دار کی غلامی میں لا کھڑا کیا ہے۔

جی ہاں!
منفعت سرمایہ دارانہ نظام کا بنیادی اصول ہے جس کی بنیاد آزادی ملکیت کا تصور ہے کہ جس کے تحت ایک سرمایہ دار اندھی منافع خوری کے باعث اُن املاک کا بھی مالک بن جاتا ہے جن کو اسلام ایک عام فرد کی ملکیت میں ہونے سے منع کرتا ہے۔

جس پر یہ حدیث بھی دلالت کرتی ہے۔
الْمُسْلِمُونَ شُرَکَاءُ فِی ثَلَاثٍ:‏‏‏‏ فِی الماء والْکَلَإء ‏وَالنَّار۔ (ابو داؤد۔ 3477 )
”بے شک مسلمان تین چیزوں میں برابر کے شراکت دار ہیں۔ پانی، چراگاہیں اور آگ۔ (آگ سے مراد توانائی کے تمام ذرائع جیسے معدنیات، کوئلے کی کانیں، تیل و گیس کے وسیع ذخائر، وغیرہ) ۔

یہ حدیث ایک طرف تو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ یہ تمام اشیاء پبلک پراپرٹیز ہیں اور ایک سرمایہ دار ان کا مالک نہیں بن سکتا۔ دوسری جانب یہی حدیث عوامی املاک کی نجکاری کی نفی بھی کرتی ہے۔ جیسا کہ سرمایہ دارانہ نظام Privatization کے ذریعے کرتا ہے۔ اور ایک (یا چند) سرمایہ دار (مل کر) بجلی کے بڑے بڑے کارخانوں، PIA اور ریکوڈیک کے سونے کے ذخائر جیسے عوامی اثاثوں کے مالک بن کر خاطر خواہ منافع کماتے ہیں۔ اور ریاست محصولات کے ایک بڑے حصے سے محروم ہو جاتی ہے کہ جس کے ذریعے وہ عوام کے مسائل حل کر سکتی تھی۔

اسلام میں تین طرح کی ملکیت کا تصور ہے۔
1) ریاستی ملکیت یا state property
2) عوامی ملکیت یا public property
3) ذاتی ملکیت یا private property
1) ریاستی ملکیت۔
ریاستی ادارے جیسے گورنمنٹ کے ادارے اور سرکاری املاک جیسے عدالت، بیت المال، اور دیگر ریاستی عمارتیں ریاست کی ملکیت ہوتی ہیں۔

2) عوامی ملکیت۔
اوپر بیان کی گئی حدیث کے تحت پانی، چراگاہیں اور آگ (توانائی کے وسائل) عوامی ملکیت ہوتے ہیں۔ ریاست یا سرمایہ دار طبقے کا اس پر کوئی حق نہیں ہوتا۔ وہ نہ تو اس کے مالک بن سکتے ہیں نہ ہی ان کو مرضی کی قیمت پر فروخت کر کے ناجائز منافع کما سکتے ہیں۔ چونکہ ان کے حقیقی مالک عوام ہیں اس لیے ریاست صرف اس بات کی پابند ہوتی ہے کہ ان ذرائع سے حاصل شدہ محصولات کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے۔ اس کے علاوہ پبلک پارک، شاہراہیں، پہاڑ وغیرہ بھی عوامی ملکیت کے دائرے میں آتے ہیں۔

3) ذاتی ملکیت۔
کسی انسان کا گھر، اس کی زمین اور اس کے کھیت وغیرہ ایک انسان کی ذاتی ملکیت ہوتے ہیں۔ وہ ان کا مالک ہوتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام پیداوار کو زیادہ سے زیادہ بڑھانے پر توجہ تو دیتا ہے مگر دولت کی منصفانہ تقسیم کو کسی صورت یقینی نہیں بناتا۔ اس کے لئے محض tricle down effect کا سہارا لیتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ دولت ”خود بخود“ گردش کرتی ہوئی سرمایہ دار سے غریب آدمی کی طرف منتقل ہوگی۔

اسلام دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کا حکم دیتا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے
” کَیۡ لَا یَکُوۡنَ دُوۡلَۃًۢ بَیۡنَ الۡاَغۡنِیَآءِ مِنۡکُمۡ“ تاکہ دولت تم میں سے چند امیروں کے ہاتھ میں ہی گردش نہ کرتی رہے ”۔ (سورۃ الحشر۔ 7 )

اسلام دولت کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کے لیے زکوٰۃ، خراج، عشر، جزیہ، مال فئے اور عوامی ملکیت سے آنے والے محصولات کے ذریعے معاشرے میں دولت کی گردش اور تقسیم کو یقینی بناتا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام آزادیِ ملکیت کا تصور دے کر کسی بھی سرمایہ دار کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ جو کچھ چاہے خریدے، اس کا مالک بنے اور پھر جس مرضی قیمت پر فروخت کرے۔ پھر یہی سرمایہ دار ذخیرہ اندوزی کر کے اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کرتا ہے اور ایک چیز کی سپلائی (رسد) کو اُس وقت روکتا ہے، کہ جب اس کی ڈیمانڈ (طلب) میں شدید اضافہ ہو رہا ہو، اِس طرح اشیاء کی قیمتوں کو بڑھا کر انھیں مہنگے داموں فروخت کر کے اپنے منافع کو بڑھانا سرمایہ دارانہ نظام کا پُرانہ کھیل ہے۔ اور یقیناً ماسک اور سینیٹائزر پر نظر آنے والی مہنگائی کا معاملہ اس سے مختلف نہیں۔

اسکے برعکس اسلام ذخیرہ اندوزی کی بالکل نفی کرتا ہے اور ریاست کو یہ حکم دیتا ہے کہ ریاست اس پر مکمل check and balance رکھے کہ مارکیٹ میں کوئی اشیاء کی مصنوعی قلت پیدا کر کے اپنی مرضی کے دام پر فروخت تو نہیں کر رہا؟ مثلاً اسلامی ریاست اگر مارکیٹ میں کسی ایک فرد کو منہ مانگی / ناجائز قیمت وصول کرتا دیکھے تو ریاست مارکیٹ میں کمپیٹیشن (competition) کو بڑھا کر قیمت کو کم کرے گی۔ اس کے لیے ریاست مارکیٹ میں مزید سپلائرز کو شامل کرے گی۔ مارکیٹ کے معاملات کی نگرانی کے لیے ریاست ایک قاضی مقرر کرتی ہے جسے قاضی الحسبہ کہا جاتا ہے۔ یوں طلب اور رسد (demand and supply) قدرتی طور پر قیمتوں کا تعین کریں گی۔ اور سرمایہ دارانہ نظام کی طرح ایک سرمایہ دار کا مصنوعی قلت پیدا کرکے منہ مانگا منافع کمانے کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔

ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔ اور ان تمام احکامات کو ایک ایسی اسلامی ریاست ہی نافذ کرے گی جو کہ اسلام کی بنیاد پر قائم ہو۔ ہم خواہ مخواہ سوشل میڈیا پر کیے جانے والے ریاستی پراپگنڈے میں گھِر کر اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے بدگمان ہو جاتے ہیں۔ جبکہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ (جو بیچارہ ماسک مہنگے بیچ رہا ہے ) اس نے خریدے بھی مہنگے ہی ہوں گے، آخر اُس نے بھی اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنا ہے۔ کیونکہ وہ بھی اِسی سرمایہ دارانہ نظام کے ڈنگ کا ڈسا ہوا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments