گندم اور چینی اسکینڈل کے پس پردہ حقائق اور اثرات


گزشتہ چند مہینوں سے میڈیا پر آٹا اور چینی سکینڈل کی بازگشت جاری ہے۔ گزشتہ کالم میں لکھا تھا کہ یہ رپورٹ اسی طرح آئی ہے جیسے دھرنے کے دنوں میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ آئی تھی۔ آج محترم حامد میر صاحب نے بھی تصدیق کی کہ یہ رپورٹ حکومت نے جاری نہیں کی بلکہ اسے محمد مالک صاحب اپنے ٹی وی شو میں بریک کر چکے ہیں۔ دوسری جانب حکومتی اکابرین مصر ہیں کہ یہ رپورٹ حکومت نے ہی جاری کی ہے۔ حتی کہ وزیراعظم صاحب تو خودستائشی کا ٹویٹ کر کے اس ”تاریخی“ کارنامہ پر داد بھی سمیٹ چکے ہیں۔

حکومتی عزائم جانچنے کے لئے یہ طے کرنا اشد ضروری ہے کہ یہ رپورٹ واقعی حکومت نے خود جاری کی ہے یا میڈیا میں لیک ہونے کے بعد بادل نخواستہ حکومت کو یہ رپورٹ قبول کرنا پڑی۔ یہ جائزہ لینا بھی از حد ضروری ہے کہ کیا یہ سکینڈل صرف تین ارب کی سبسڈی کا ہی ہے یہ بات اس سے کئی گنا زیادہ ہے۔

مہینوں سے زیرگردش اس سکینڈل پر فروری میں انکوائری شروع ہوئی اور اسی ماہ وزیراعظم نے سینئر صحافیوں سے گفتگو میں آگاہ کیا کہ میری انکوائری میں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار اس سکینڈل میں ملوث نہیں۔ البتہ اس لیک رپورٹ میں انگلیاں جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کی جانب اٹھ رہی ہیں۔ لیک رپورٹ منظرعام پر آنے کے بعد جناب وزیراعظم نے اعلان کیا کہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی 25 اپریل کو فرانزک رپورٹ آنے کے بعد کی جائے گی۔ اگر ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی ہی نہیں کرنی تو یہ سوال ہنوز جواب طلب ہے کہ صرف 20 دن پہلے یہ نامکمل رپورٹ جاری کرنے کی کیا ضرورت پیش آ گئی۔ جہاں مہینے انتظار میں گزر گئے تھے کیا مزید بیس دن نہیں گزر سکتے تھے؟

جہانگیر ترین کی خدمات تحریک انصاف کے لئے ڈھکی چھپی نہیں۔ ان کا جہاز اور لینڈکروزر عمران خان کے زیر استعمال رہے ہیں۔ الیکشن سے پہلے اور بعد میں جہانگیر ترین نے عمران خان کی حکومت قائم کروانے کے لئے کلیدی کردار ادا کیا۔ الیکشن سے پہلے تگڑے سیاسی امیدواروں اور بعد میں آزاد اراکین اسمبلی سمیت اہم شخصیات کو تحریک انصاف کی جانب راغب کروانے میں جہانگیر ترین اپنے طیارے سمیت پیش پیش رہے۔ کیا اس رپورٹ کے بعد جہانگیر ترین کو گرفتار کیا جائے گا؟

تحقیقات میں حکومتی سنجیدگی کا اندازہ دو مزید واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔ مایہ ناز صحافی عمر چیمہ صاحب نے رپورٹ دی تھی کہ نیب ملتان آفس نے خسرو بختیار کے خلاف اربوں روپے گھپلے کے ٹھوس شواہد حاصل کر لئے تھے مگر ان کے خلاف تحقیقات پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی بجائے انکوائری نیب لاہور آفس منتقل کر دی گئی اور اس کے بعد اس ضمن میں کوئی آگاہی نہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں اربوں روپے کا گھپلا سامنے آنے کے باوجود آج تک کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا۔ تحریک انصاف کا پارٹی فنڈنگ کیس گزشتہ چھ سال سے زیرالتوا ہے اور التویٰ کی درخواستیں خود عمران خان کی جانب سے دی جاتی رہی ہیں۔ یہ واقعات ہمیں آگاہی دیتے ہیں کہ وزیراعظم کو صرف اپوزیشن کا احتساب پسند ہے حکومتی افراد کا نہیں۔

اپوزیشن کے بہت سے افراد کو انکوائری کی سطح پر ہی گرفتار کیا جا چکا ہے۔ شاہد خاقان عباسی کو ایل این جی ٹرمینل کیس میں اور احسن اقبال کو نارووال سپورٹس کمپلیکس کیس میں صرف اختیارات کے ناجائز استعمال پر گرفتار کیا گیا۔ علاوہ ازیں شہبازشریف، مریم نواز اور خورشید شاہ سمیت بہت سارے افراد کو صرف انکوائری کی سطح پر ہی پابند سلاسل کیا گیا۔ میر شکیل الرحمٰن کی دوسری پیشی پر گرفتاری بھی اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے۔

اگر یہ رپورٹ جاری کر کے وزیراعظم کا روئے سخن یہ ہوتا کہ وہ تمام نامزد افراد کو حکومتی تحویل میں لیں گے، اگر وہ اپنے قریبی افراد پر بھی وہی دلیل منطبق کرتے جو اپوزیشن کے لئے کرتے رہے ہیں تو یہ لائق تعریف ہوتا مگر انہوں نے آج جہانگیر ترین کو ایک ایسے عھدے سے برطرف کیا جس پر وہ کبھی رہے ہی نہیں۔ البتہ خسرو بختیار کو پہلے سے زیادہ بہتر وزارت سے نوازا گیا ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ احتساب کا ایسا کڑا معیار اور اپنے قریبی ساتھیوں کے لئے صرف عہدوں میں تبدیلی حکومتی عزائم کا پتا دے رہی ہے۔ یہ اقدامات حکومتی دو عملی کو آشکار کرنے کے لئے کافی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ابتدائی تحقیقات کی یہ رپورٹ کافی دنوں سے وزیراعظم کے پاس موجود تھی مگر اس کو دبا لیا گیا تھا۔ لیک رپورٹ میڈیا میں سامنے آنے کے بعد ایک صحافی نے تصدیق کے لئے حکومتی ترجمان سے رابطہ کیا تو سوچ بچار کے بعد اس لیک رپورٹ کو اپنی خفت مٹانے کے لئے قبول کیا گیا۔ وزیراعظم کے ترجمان ندیم افضل چن نے بھی کیپیٹل ٹاک میں تسلیم کیا ہے کہ یہ رپورٹ لیک ہوئی ہے۔

یہ جائزہ لینے کی ضرورت بھی ہے کہ کیا یہ سکینڈل صرف تین ارب کی سبسڈی کا ہی ہے یا ملی بھگت سے کھربوں روپے بٹورے گئے ہیں۔ گندم برآمد کا یہ کھیل 2019 سے شروع ہوا۔ پہلے پیداوار میں اضافہ بتایا کر اور پھر مصنوعی قلت ظاہر کر کے درآمد برآمد کا ایسا گھناونا کھیل کھیلا گیا جس سے قومی خزانے کو 100 ارب سے زیادہ کا چونا لگایا جا چکا ہے۔ ایف آئی اے کی ابتدائی رپورٹ میں فائدہ لینے والوں کا ذکر تو ہے مگر فائدہ دینے والوں کا کوئی ذکر نہیں۔ یہ سب بندربانٹ ریاست مدینہ کے دعویدار اس وزیراعظم زیرسایہ ہوئی ہے جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر اوپر ایماندار شخص بیٹھا ہو تو نیچے کوئی گھپلا نہیں کر سکتا۔

لوٹ مار کے اس کھیل میں جہاں وفاقی کابینہ، اقتصادی رابطہ کمیٹی اور شوگر ایڈوائزری بورڈ کی منظوری بھی نظر آتی ہے وہیں پر عثمان بزدار اور پنجاب کابینہ بھی اس کھیل میں شامل نظر آتے ہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ پچیس اپریل کی رپورٹ میں اربابِ اختیار کا تعین کیا جاتا ہے یا نہیں۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ سبسڈی دینے کے فیصلہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے خود سے کیا تھا یا کسی اور کے کہنے پر کیا۔ تحقیقات کا نتیجہ جو بھی ہو مگر یہ سکینڈل عمران خان کے کام کرنے کی صلاحیت پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔

یہ سکینڈل بھی میڈیا کے ذریعے ہی سامنے آیا تھا اور تحقیقاتی رپورٹ بھی میڈیا ہی سامنے لایا۔ اس سکینڈل کے تانے بانے دور تلک جاتے نظر آتے ہیں۔ یہ سکینڈل ’صاف چلی شفاف چلی‘ پر ایک بدنما داغ ہے۔ کیا عوام کے کھربوں روپے لوٹنے والوں سے کوئی بازپرس نہیں ہو گی۔ اگر صرف الزامات پر اپوزیشن کے لوگ گرفتار ہو سکتے ہیں تو حکومتی وزراء کو عہدے تبدیل کر کے ڈھیل کیوں دی جا رہی ہے۔

یہ عمل ان کے ریاست مدینہ میں یکساں انصاف کے دعوے کو بھی ٹھیس پہنچا رہا ہے۔ پچیس اپریل کے بعد وزیراعظم عمران خان کو حقائق بتانا ہوں گے بھلے وہ خود بھی اس میں ملوث ہوں۔ اگر انہوں نے لوٹ مار کے ان ذمہ داروں کو سزاء نہ دی تو یہ سکینڈل ان کے لئے پارٹی فنڈنگ کیس سے بھی بڑا پھندہ ثابت ہو گا۔ یہ بھی اہم ہو گا کہ اس سکینڈل کے بعد عثمان بزدار بچ پاتے ہیں یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments