جنرل کورونا، قومی نظر بندی اور بیرسٹر عمار کی سہرا بندی



دنیا کے ساتھ ساتھ ہم بھی قومی نظر بندی کا شکار ہیں۔ ان حالات میں میڈیا پر وزیراعظم عمران ان کے کچھ مشیر، وزیر اور اللہ کی بندی محترمہ فردوس عاشق اعوان نظر آتی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ملکی تاریخ میں جب بھی نظر بندی کا سلسلہ شروع ہوا تو اپوزیشن نے ہمیشہ اسے ختم کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا ہے لیکن اس وقت اپوزیشن مطالبہ کررہی ہے کہ ”قومی نظر بندی“ کو مزید سخت کیاجائے اور اسلام آباد سمیت پورے ملک میں تقریباً کرفیو نما نظر بندی کو یقینی بنایا جائے۔

حالیہ سلسلہ نظر بندی کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کورونا نے جیسے جنرل ضیاء الحق مرحوم کا روپ دھار لیا ہو۔ چند روز پہلے 4 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو شہید کی برسی گزری تو دل میں ایک خیال پیدا ہوا کہ عین ممکن ہے کہ کورونا نے حالیہ نظر بندی کے لئے ہمارے ساتھ باقاعدہ ”ضیاء الحقی“ کی ہو کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو تختہ دار پر پہنچنے سے پہلے یہ نعرہ لگا گئے تھے کہ تم کتنے بھٹو مارو گے ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔ اس لئے جنرل کورونا نے قومی سطح پر نظر بندی کردی تاکہ کسی گھر سے بھی بھٹو باہر نہ آئے۔

البتہ یہ مغالطہ اس وقت دور ہوگیا جب جیالوں کی نایاب نسل میں سے بچ جانے والے ایک عمر رسیدہ جیالے نے بتایا کہ بھٹو اب اسلام آباد، پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں مکمل ”ناپید“ ہوچکا ہے اس لئے حالیہ نظر بندی کا بھٹو پسند ی سے کوئی تعلق نہیں ہے پھر دوسرا خیال پیدا ہوا کہ ہوسکتا ہے کہ ملک میں اندر ہی اندر ایم آرڈی طرز کی کوئی تحریک پیدا ہوتی پکڑی گئی ہو اور اس کے ڈانڈے گھر گھر تک ملتے ہوں چنانچہ حکومت نے ملک گیر نظر بندی کا فیصلہ کرلیا ہے کیونکہ وزیراعظم عمران خان بھی کہہ رہے ہیں کہ اس نظر بندی سلسلے کے بعد ہم ایک طاقتور قوم بن کر ابھریں گے اور یہ بھی سچ ہے کہ پاکستان میں جسے بھی نظر بندی کے دکھ سے گزارا گیا تو وہ اور مضبوط ہوگیا۔ مگر تاحال ایم آر ڈی تحریک جیسے کوئی آثار نہیں پائے گئے۔

کبھی کبھی ایسا بھی لگتا ہے کہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو جو ایک “غیر آئینی عدالت” نے “آئین سے ماورا” سزا سنائی تھی کورونا نے اس غصے میں پوری قوم کو اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان جان کر نظر بندی کے احکامات صادر کردیئے ہیں۔ مگر عدالتیں کورونا کے اختیارات اور پھیلاؤ بارے مقدمے کی سماعت کر رہی ہیں اور مجھے یقین دیگر طاقتور لوگوں کی طرح عدالتیں کورونا کا بھی کچھ نہیں کرپائیں گی۔ اس قومی نظر بندی کے باقی جو بھی اثرات ہوں لیکن آبادی کی بہبود میں مزید بڑھوتری کے لئے اس نظر بندی کے انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوں گے جبکہ کورونا کے باعث ملک بھر میں لاکھوں شادیاں منسوخ ہوگئی ہیں اور محکمہ منصوبہ بندی والے اپنے دفتروں میں بیٹھ کر اسے اللہ کی غیبی مدد قرار دے رہے ہیں لیکن محکمہ مردم شماری والے جب اگلے سال اپریل میں نئے پھولوں اور کونپلوں کا حساب کررہے ہیں تو اعداد و شمار ان کے دیدے کھول دیں گے۔ کورونا کے باعث ہونے والی قومی نظر بندی کا ظلم ایک طرف ہے لیکن اس ظالم کی وجہ سے ان نوجوانوں کے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے جو مارچ کے تیسرے ہفتے سے لے کررمضان المبارک سے ایک دن پہلے تک گھر بسانے والے تھے۔

گزشتہ روز پارک میں بیٹھے ہوئے ایک مرجھائے ہوئے نوجوان سے ملاقات ہوئی جو مسلسل ہاتھ مَل رہا تھا۔ ازراہ مذاق میں نے پوچھ ہی لیا کے کس نسل کا سینیٹائزر استعمال کرتے ہیں آپ؟ نوجوان چونکہ میرا جاننے والا بھی تھا اس لئے فوراً ہی اس نے دکھی دل کی داستان کہہ ڈالی کہ حضور میں سینیٹائزر نہیں مَل رہا بلکہ میری شادی میں صرف سات دن باقی تھے اور کورونا نے بازی پلٹ دی اور اب میرے زیادہ تر دوست بیویوں سمیت نظر بند ہیں اور میں ہر وقت ہاتھ ملتا رہتا ہوں۔

حالیہ نظر بندی میں استاد محترم خوشنود علی خان نے کمال مہارت سے اپنے فرزند ارجمند بیرسٹر عمار کے ہاتھ پیلے کردیئے ہیں۔ استاد محترم بتا رہے تھے کہ دونوں خاندانوں نے باہمی رضا مندی سے نظر بندی کے دوران نامعلوم مقام پر اکٹھے ہوکر یہ نیک کام سرانجام دیا ہے بیرسٹر عمار پہلے ہی ایسے ارادے ظاہر کرچکے تھے کہ کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا اور میں شادی شدہ ہوجاؤں گا۔ ان کی یہ پیش گوئی بالکل اسی طرح سچ ثابت ہوئی ہے جیسے ایک خاتون نے گھر چھوڑنے سے پہلے بتا دیا تھا کہ کل گھر کا ایک فرد کم ہوجائے گا۔

تاہم استاد محترم خوشنود علی خان نے بہت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے قومی نظر بندی ختم ہوتے ہی ولیمہ کشائی تقریب کا اہتمام کرنے کا اعلان کیا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تقریب آئندہ برس پوتے یا پوتی کی آمد کے بعد ہی ہو اس طرح بیک وقت دو خوشیاں منائی جاسکتی ہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جب ہر طرف خوف ہی خوف ہے اور زندگی سے زیادہ موت کی خبریں آرہی ہیں استاد محترم نے بڑے بیٹے کی شادی کرکے جرات کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ کام استاد محترم ہی کرسکتے تھے استاد محترم نے شادی میں شریک نہ کیے جانے والے ”شرکاء“ کو فرداً فرداً فون کرکے اس خوشخبری کی اطلاع دی ہے البتہ بیرسٹر عمار کو ولیمے کے بغیر ہی ”سرجیکل سٹرائیک“ کا آئینی اور قانونی حق بھی مل گیا ہے اور قومی نظر بندی کے دن آسانی سے گزارنے کا سہارا بھی بروقت میسر آیا ہے۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments