وسائل بھر اسباب لازم و ملزوم ہوتے ہیں



یہ بات تو طے ہے کہ مومن اللہ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ وہ حتی المقدور اسباب مہیا کرنے سے بھی گریز کرتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تاریخ میں متعدد بار مومن دشمن کے مقابلے کے لئے نہایت قلیل سامانِ حرب و ضرب اور مختصر افرادی قوت کے ساتھ میدانِ کارزار میں اترا بھی ہے اور کامیابی و کامرانی بھی حاصل کی ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہوا کہ اس قلتِ سامانِ حرب و ضرب میں اس کی اپنی کسی کوتا ہی کا دخل رہا ہو۔

جتنا کچھ کسی جنگ کے لئے جمع کیا جا سکنا ممکن ہو سکتا تھا وہ کیا گیا اور اس کے بعد معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔ تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ اسلام کی پہلی جنگ، جس کو غزوہ بدر کہا جاتا ہے، اس میں مسلمانوں کا کل اسباب جنگ بصد مشکل سات ٹوٹی پھوٹی تلواریں، ستر اونٹ اور دو گھوڑے سے زیادہ نہ تھا جبکہ ان کے مقابلے میں دشمن نہ صرف تعداد میں دو تین گناہ زیادہ تھا بلکہ دشمن کے ہر جوان کے پاس اس دور کا ہر جدید ہتھیار موجود تھا۔ ان سارے زمینی حقائق کے باوجود نہتے مسلمانوں کے آگے آہن و فولاد کے خولوں میں بند کفار ان کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور چند گھنٹے بھی وہ مسلمانوں کے جذبہ جہاد کے آگے نہ ٹھہر سکے۔

بے خوفی اور دلیری مسلمانوں کے خون میں کچھ ایسے رچ بس گئی کہ آج تک وہ سلسلہ ٹوٹ کر نہیں دکھائی دے رہا اور جب جب بھی مسلمانوں پر کوئی آفتِ ارضی و سماوی مسلط ہوئی یا کی گئی تو ہر مرد مومن نہ تو اسباب کی قلت سے پریشان ہوا اور نہ ہی جان کا نذرانہ پیش کرنے میں کسی پس و پیش کا مظاہرہ کرتا دکھائی دیا۔

آج پوری دنیا جس ابتلا و آزمائش کا شکار ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ دنیا میں بیشمار ممالک وہ بھی ہیں جو وسائل کے اعتبار سے کوئی حد و حساب ہی نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود آزمائش سے نبرد آزما ہونے سے گھبراہٹ کا شکار ہیں لیکن پاکستان کے عوام وسائل کی ساری کمی کے باوجود نہ صرف حوصلہ مند ہیں بلکہ وہ اس میدانِ کارزار میں بے تیغ ہونے کے باوجود نہایت دلیری کے ساتھ ڈتے ہوئے۔

آزمائشیں کب نہیں آیا کرتیں، زندگی نام ہی ایک ایسے طوفان کا ہے جس میں پل پل مر مر کے جینا اور جیتے جی مر جانا پڑتا ہے۔ زندگی ایک مسلسل جد و جہد کا نام ہے اور اس میدان میں صرف وہی قومیں زندہ رہ سکتی ہیں جو زندہ رہنے کے لئے مرجانا جانتی ہوں۔

ملک کے طول و عرض میں جو وبا پھوٹ پڑی ہے اس سے سب ہی نبر آزما ہیں لیکن جس طرح سرحدوں کے پار سے حملے کی صورت میں فوج کے جوان دشمن کی ہر یلغار اور ہر وار کو ہراول دستہ بن کر اپنی چھاتیوں پر روک رہے ہوتے ہیں اسی طرح کورونا کے اس طوفانِ بلا خیز کی موجوں کو ملک بھر کے ڈاکٹرز اور ان سے ملحقہ ہر قسم کے عملے سے تعلق رکھنے والے، ہراول دستہ بنے ہوئے نظر رہے ہیں اور اس بات کی پرواہ کیے بغیر کہ کورونا کے سیلاب کی زور آور موجیں ان کو تنکے کی طرح بہا کر لیجا سکتی ہیں، وہ نہایت ثابت قدمی کے ساتھ موجوں کی سر پھری لہروں کو اپنے سینے پر روکنے کی جد و جہد میں مصروف ہیں جس کے نتیجے میں جہاں ڈاکٹرز اور طبی عملے کی کئی شہادتیں بھی ہو چکی ہیں وہیں سیکڑوں جانیں بھی محفوظ رکھنے میں انھیں کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ میدانِ جنگ میں نہتوں، کمزوروں اور تعداد میں قلیل ہونے والوں نے بھی بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ اس قسم کی کامیابیاں ان ہی کے حصے میں آئی ہیں جنھوں نے وسائل کو ممکنہ حد تک جمع کرنے میں کسی بھی قسم کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا تھا۔ جو کچھ بھی انسانی بس میں ہو سکتا تھا وہ کرنے کے بعد جب بھی مسلمانوں نے باقی معاملات اللہ پر چھوڑے، کامیابی کے دروازوں پر دروازے ان میں کھلتے چلے گئے۔

آج بھی دنیا بھر کی طرح پاکستان پر جو آفتِ سماوی و ارضی ٹوٹ پڑی ہے، پاکستان کا ہر ادارہ اس سے نمٹنے کی جد و جہد میں مصروف نظر آ رہا ہے لیکن جس بے جگری کے ساتھ ہمارا طبی عملہ اس آفت سے نبرد آزما ہے وہ قابل ستائش ہے۔

یہ بات حقیقت ہے کہ جس طرح جنگ بنا آلاتِ حرب و ضرب، لڑنا اور جیتنا ممکن نہیں اسی طرح بنا حفاظتی مال و اسباب ڈاکٹرز اور طبی عملے کا تا دیر کورونا کے محاذ ر ڈٹے رہنا ناممکن سی بات ہے اس لئے تمام اداروں سے گزارش ہے کہ وہ جہاں جہاں بھی ڈاکٹرز یا طبی عملہ ہے، ان کے لئے حفاظتی ساز و سامان کا انتظام کریں اور اگر وہ ساز و سامان کی کمی کے سلسلے میں کوئی مطالبہ کرتے نظر آئیں تو ان پر سختی کرنے یا ڈنڈے بر سانے کی بجائے ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا مظاہرہ کریں تاکہ وہ اپنے فرائض احسن طریقے سے اور بلا خوف و خطر انجام دے سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments