واجد ضیا: پاناما سے چینی سکینڈل تک


‎ہر سکینڈل کہانی میں عبرت کا سامان ہوتاہے لیکن کوئی بھی اس سے سبق نہیں سیکھتا۔ نواز شریف خاندان سے جہانگیرترین تک گندی دولت کے انبار لگانے والوں کا جو حشرہوا ہے اور اب تک ہو رہا ہے کوئی ا س سے عبرت پکڑنے کو تیار نہیں ہے اوران دونوں گھوٹالوں میں تین نام مشترک ہیں، پاناما کیس جناب نواز شریف اورجہانگیرترین کے ساتھ ساتھ جناب واجد ضیاء کا نام نامی بھی منظرعام پرآیا۔ پولیس گروپ کے 16 ویں کامن سے تعلق رکھنے والے واجد ضیا آج ایک بار پھر سنگ الزام اوردھمکیوں کی زد میں ہیں کہ انہوں نے چینی سکینڈل کے مرکزی کردار جہانگیر ترین کو بے نقاب کردیا ہے۔ وہی جہانگیر ترین جس نے اپنے جہاز اور بے پناہ دولت کے سہارے کپتان خان کے لیے اقتدار کی راہیں کشادہ کیں، لاتعداد ارکان قومی اسمبلی کو عمران خان کی بیعت پرمجبورکیا۔ وہ کل تک ”بادشاہ گر“ تھے جس نے تحریک انصاف جیسی فلاحی اورانقلابی جماعت کی بنیادی ساخت تبدیل کرکے رکھ دی اوراسے مروجہ سیاست کی غلاظت میں غرق کرکے رکھ دیا۔

شب گزشتہ جادو کی سرمئی سکرین پر بیٹھ کر جناب جہانگیر ترین عمران خان پر اپنے احسانات گنوارہے تھے کہ کیسے 2013 کی عبرت ناک انتخابی شکست کے بعد میں نے عمران خان کو سیاسی خانوادوں کی اہمیت اور (electable) ‎ کی سیاست کرنے پر آمادہ کیا کس طرح 2018 میں ہم 67 نشتیں جیت گئے لیکن وہ اس حقیقت کو چھپا گئے کہ وسطی پنجاب میں قومی اسمبلی کی 42 نشستوں پر منڈی بہاوالدین سے ساہیوال تک تحریک انصاف کو بدترین شکست کاسامنا کرنا پڑاتھا۔ لیکن انہوں نے ارباب شہزاد کے ذریعے رپورٹ سے اپنا نام مٹانے کی ہر ممکن کوشش کی جس کی رپورٹ اعظم خان وزیر اعظم کو مسلسل پہنچاتے رہے

‎آٹاچینی سکینڈل کی پس پردہ کہانیاں ہمارے شاہ جی، جناب نصرت جاوید سے بہتر کون مائی کا لال بیان کرسکتاہے یہ کالم نگار آپ کو چینی سے جڑی بھولی بسر ی پاناما کہانی سنانا چاہتا ہے

‎کہتے ہیں کہ جنرل مشرف کے دورعروج پر باسل سوئٹزرلینڈ سے ایک معاشی غارت گر اسلام آباد پہنچا اور اس نے دعوی کیا کہ وہ شریف خاندان کی کالی دولت کی بیرون ملک سرمایہ کاری کا مشیررہا ہے اسے چھپائے گئے 300 ملین ڈالر کی تمام تفصیلات کا علم ہے اگر حکومت پاکستان آمادہ ہوجائے تو یہ رقم برآمد کرائی جا سکتی ہے۔ ‎شرط صرف یہ ہے کہ اس رقم کی دوبارہ سرمایہ کاری اس کے ذریعے کی جائے۔ جنرل مشرف کے کور گروپ نے اسے نوسرباز اور فراڈیا کہہ کر گھاس نہ ڈالی اور وہ شخص واپس سوئیٹزرلینڈ چلا گیا۔

‎اپنی کمشن کی رقم ڈوبنے پر تلملاتا وہ ”سوئس ماہر سرمایہ کاری“ کسی نہ کسی طرح براہ راست جنرل مشرف تک رسائی حاصل کرلیتا ہے دوبارہ اسلام آباد پہنچتا ہے تو اس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف، جنرل حامد جاوید مرحوم اسے جنرل مشرف سے ملواتے ہیں لیکن غیرسنجیدہ اور نوسرباز قرار دیتے ہیں۔ جنرل مشرف بڑے رسان سے کہتے ہیں کہ اس کی باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں اس لیے گورنر سٹیٹ بنک کو بلا کر معاملہ ان کے سپرد کیا جائے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے اور جناب عشرت حسین منظرنامے میں داخل ہوتے ہیں۔ یہ وائٹ کالر کرائم کے ماہر عامر عزیز سے ابتدائی گفتگو کرتے ہیں جو انہیں 6 ہفتوں میں تحقیقات کر کے بتاتے ہیں کہ ”سوئس ماہر“ بالکل درست کہتا ہے اوراس طرح جناب عشرت حسین معالہ ایف آئی اے کے سپرد کرنے کی سفارش ‎کرتے ہیں اورسٹیج پر واجد ضیا نمودار ہوتے ہیں۔

جنرل مشرف کو وکلا تحریک کے نتیجے میں گھر جانا پڑتا ہے۔ 2013 کے عام انتخابات کے بعد نواز شریف تیسری مرتبہ طاقتور وزیراعظم بن کر نمودار ہوتے ہیں اور تقدیر مسکراتی ہے اور پھر پاناما دھماکہ ہوتا ہے۔ قدرت کاملہ ایسے اسباب پیداکرتی ہے کہ حسین نواز، مریم نواز کے متضاد اور طوطے کی طرح رٹے رٹائے انٹرویوز جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں تو وزیراعظم نواز شریف کی ایوان میں تقریر اور دیگر بیانات لطیفہ گوئی اور مزاحیہ سٹیج ڈراموں کی نذر ہو جاتے ہیں جس سے سیاست میں منفرد مخولیہ کردار ادا کرنے والے کڑاکے کڈ دیاں فیم مشاہد حسین سب سے زیادہ لطف اندوز ہوتے ہیں بار بار فرماتے ہیں
رب ناں ڈانگیں مار دا
مت کوّلی دیندا پا
اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ”اللہ تعالی لاٹھیوں کے ساتھ کسی کو نہیں مارتا بلکہ اس کی عقل میں فتور پیدا کر دیتا ہے“

قہقہے لگاتے اس کالم نگار کو بتاتے ہیں کہ کیسے ہمیں ظالم مشرف کی قید میں چھوڑ کر سارے خاندان کو باورچیوں کے طائفہ سمیت نواز شریف کمانڈو جرنیل سے معافی تلافی کر کے جدہ فرار ہو گئے تھے، تقدیر اس وقت بھی مسکرا رہی تھی کہ ابھی مشاہد حسین سید نے مریم بی بی کو چکر دے کر ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ ایجاد کرکے رفو چکر ہونا تھا۔

تاریخ کی گواہی کے لئے عرض ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ مشاہد حسین سید بھی انٹر نیوز کے لئے کالم نگاری کرتے رہے اور ہم ڈالروں میں حق خدمت پیش کرتے رہے۔ 16‎ویں کامن گروپ سے تعلق رکھنے والے واجد ‎ضیا کا سٹاف کالج کا ساتھی فواد حسن فواد نواز شریف کا کارخاص اور پرنسپل سیکریٹری نواز شریف کو یقین دلاتا ہے کہ وہ واجد ضیا کو ہینڈل کرلے گا لیکن راست گو اور مسلمہ دیانتدار واجد ضیا کو موصوف سمجھ نہ پائے تھے۔ کہتے ہیں کہ واجد ضیا نے زندگی میں صرف ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی تھی کہ 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلانے کا آغاز کرتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کے مشیر جناب عشرت حسین ورلڈ اکنامک فورم ڈیوس، سوئٹزرلینڈ میں اس کالم نگار کے ساتھ رہے ہیں۔ کل انہیں فون پر واجد ضیا اور تحقیقاتی پاناماسکینڈل کی تفصیلات بارے گپ شپ کی تو انہوں نے کہا کہ 15 برس پرانی بات ہے، مجھے اب کچھ یاد نہیں۔ ہم نے ابتدائی تحقیقات کے بعد معاملہ ایف آئی اے کو بھجوادیا تھا۔

‎اب ذکر چینی سکینڈل کا جس میں واجد ضیا کو ایک بار پھر دھمکیوں کا سامنا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ 70 فیصد چینی برآمد ہی نہیں کی گئی اسے صرف کاغذات میں افغانستان بھجوایا گیا ہے، طورخم تجارت کیسی ہوتی ہے، اس پر ہمارے دوست ببلی شیخ ضرورت سے زیادہ روشنی ڈال چکے ہیں۔ چینی سکینڈل کی زد میں صرف جہانگیرترین نہیں ان کے دیگر حالی موالی بھی آئیں گے جن میں وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار کانام نامی بھی لیا جا رہا ہے۔

‎ایک بات طے ہے کہ جس جس کا نام بھی آیا وہ مارا جائے گا، وہ کابینہ میں ہو یا باہر، کوئی بھی بچ نہ پائے گا عمران ایک حد تک سادہ ہوسکتے ہیں لیکن جو شخص اوائل جوانی میں زندگی کے آغاز سے (party crowd boy)
‎رہا ہو اتنا سادہ بھی نہیں ہوسکتا۔ ‎ویسے عمران خان کی زندگی کا نادیدہ پہلو یہ بھی ہے کہ اسے پنکی باجی کی روحانی رہنمائی کے ساتھ ساتھ کچھ روحانی بزرگوں کی سرپرستی بھی حاصل ہے اب کچھ ”لفافی“ اسے بنی گالہ گروپ کی فتح اور ترین گروپ کی شکست قرار دے رہے ہیں ایک پیادہ صحافی اسے پنجاب میں سیاسی سازش اور بغاوت کچلنے کانام دے رہا ہے کہ ترین اور گجرات کے چودھری پنجاب میں تختہ الٹنے کی تیاری کر چکے تھے کہ عمران خان نے کاری وارکر دیا۔ ‎ایک مجذوب کہہ رہا ہے کہ جس طاقت نے سنجرانی کو جتوایا، وہی طاقت عمران خان کے خلاف تمام سازشیں ناکام بنا دے گی۔

یوں محسوس ہورہا ہے کہ ‎کروناکی ہلاکت خیز وبا پاکستان کے لیے زندگی کا ‎پیغام لائی ہے۔ ‎مافیاز کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے۔ 25 اپریل کے بعد کرونا پسپا ہو گا اور 72 سال سے پاکستان کے اعصاب پر قابضین مافیا آخری ہچکیاں لے رہے ہوں گے۔ ‎یکم مئی کے بعد روشن صبح طلوع ہوگی اورپاکستان قائداعظم کے بتائے ہوئے راستے پر چل پڑے گا۔

اسلم خان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اسلم خان

محمد اسلم خاں گذشتہ تین دہائیوں سے عملی صحافت کے مختلف شعبوں سے منسلک رہے ہیں اب مدتوں سے کالم نگار ی کر رہے ہیں تحقیقاتی ربورٹنگ اور نیوز روم میں جناب عباس اطہر (شاہ جی) سے تلمیذ کیا

aslam-khan has 57 posts and counting.See all posts by aslam-khan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments