فرض کیا کورونا عالمی سازش ہے تو؟


اس وقت دنیا جہاں کے دانشور، قلم کار، تجزیہ کار، محققین، ڈاکٹرز، انجینئرز، وکلاء، مرد و زن، چھوٹا بڑا، بوڑھا جوان الغرض زندگی کے ہر شعبہ سے منسلک اور کائنات کی ہر ذی عقل مخلوق سر جوڑ کر بیٹھی ہے کہ آخر یہ کورونا ہے کیا بلا۔ کورونا ڈاکٹرز کی فیلڈ ہے جس میں کسی ڈاکٹر کی رائے باقی لوگوں کی رائے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ ڈاکٹرز خود بھی اس وقت تین گروہوں میں بٹ چکے ہیں۔ ان تینوں کی آراء مختصر ذکر کیے دیتے ہیں۔

پہلا گروہ۔
اس گروہ کے ڈاکٹرز کی نظر میں کورونا قدرتی وبا ہے اور انتہائی خطرناک ہے جس کا ابھی تک کوئی علاج بھی دریافت نہیں ہوسکا۔

دوسرا گروہ۔
دوسرے گروہ کی نظر میں گو کہ کورونا قدرتی وبا ہے اور اس کا علاج بھی ابھی تک دریافت نہیں ہوا مگر یہ اتنی خطرناک وبا نہیں ہے۔ احتیاط کرکے اس وبا سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔

تیسرا گروہ۔
تیسرے گروہ کے ڈاکٹرز سرے سے کورونا کو قدرتی وبا سمجھتے ہی نہیں۔ اس گروہ کی نظر میں کورونا ایک سازش ہے جسے جان بوجھ کر دنیا میں پھیلایا گیا ہے۔ جس کے پیچھے کچھ بڑی طاقتوں کے ہاتھ ہیں جو اس وائرس کو پھیلا کر چند خاص مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ بہرحال اسے ہیومن میڈ وبا قرار دینے کے باوجود تیسرا گروہ کورونا کو انسانیت کے لئے خطرہ ضرور سمجھ رہا ہے۔

یہ تو ڈاکٹرز کے نزدیک تین گروہ ہیں۔ ڈاکٹرز کے علاوہ جو دانشور، محققین، سازشی تھیوریز کے ماہرین وغیرہ کے دیکھنے اور سوچنے کا انداز ذرا ہٹ کر ہے۔ دانشور حضرات بھی اسی طرح گروہ در گروہ میں بٹے ہوئے ہیں۔ کچھ کے نزدیک کورونا قدرتی وبا ہے اور کچھ اسے سازش قرار دے رہے ہیں۔ ہم یہاں قدرتی وبا سمجھنے والے دانشوروں کا باب بن کردیتے ہیں۔ کیونکہ اس تحریر کا اصل مدعا قدرتی وبا سمجھنے والے دانشور نہیں ہیں بلکہ وہ ہیں جنہیں یہ سازش لگ رہی ہے۔ چلیں فرض کیا کورونا عالمی سازش ہے تو ہمارے پاس کیا آپشن بچتا ہے۔

سازشی تھیوری سمجھنے والے بعض دانشوروں کے نزدیک یہ وبا عالمی سازش ہے جس کا مقصد نیو ورلڈ آرڈ ہے یا عالمی سطح پر ایک حکومت کا قیام ہے۔ بعض کے نزدیک کورونا صرف مسلمانوں کے خلاف سازش ہے۔ جن دانشوران کے نزدیک کورونا مسلمانوں کے خلاف سازش ہے تو اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ تسلیم کرلیا کہ کورونا مسلمانوں کے خلاف بہت بڑی سازش ہے۔ مگر یہ تو بتائیں کہ اس سازش کے خلاف مسلمانوں نے ابھی تک کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔

یا کسی معجزے کا انتظار ہے کہ بس معجزہ ہوجائے اور ہماری فتح ہو تاکہ ہم دنیا کو بتا سکیں کہ دیکھو ہم مٹنے والے نہیں ہیں۔ جن کے نزدیک کورونا صرف مسلمانوں کے خلاف سازش ہے انہیں اس سازش کو سمجھنے کے لئے، حقائق جاننے کے لئے، اس سازش تک پہنچے کے لئے بھی انہی سازشی ٹولوں کے اخبارات، نیوز چینلز، جریدوں اور لکھی کتابوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جو سازشی ہیں وہ یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی مسلمانوں کو توفیق دے کہ وہ کچھ ایسا کر جائیں کہ جس سے ان سازشی لوگوں کا قلع قمع کرسکیں۔

اب دانشوروں کے اس دوسرے گروہ کی بات کرتے ہیں جو اسے سازش تو سمجھتے ہیں مگر صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں بلکہ عالمی سازش سمجھتے ہیں۔ ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ دنیا گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے۔ اب ایک عالمی حکومت بننے جارہی ہے جو پوری دنیا کا نظام چلائے گی۔ اور یہ حکومت سپرپاور ممالک میں کوئی ایک یا دو تین بڑی طاقتیں مل کر بنانا چاہتی ہیں۔ اس کا انتہائی سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ ہمارا پہلے کس کھیت کی مولی میں شمار ہوتا ہے۔

پہلے ہم سے کب مشورے طلب کیے گئے کہ ہم اقوام متحدہ کی بنیاد رکھ رہے ہیں آپ لوگوں کی کیا رائے ہے۔ ہم تو پہلے بھی کبھی ایک بلاک میں پناہ لیتے تھے تو کبھی دوسرے میں۔ اب اگر روس اور امریکہ کے علاوہ کوئی تیسری ابھرتی طاقت چین کے نام سے ہمارے سامنے ہے تو ہم اپنا چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بھی اس کی گود میں پھینک دیتے ہیں۔ اور عرض کرتے ہیں عالیجہ ہمارا خیال رکھنا ورنہ ہم ڈوب جائیں گے۔ اب اگر ایک عالمی حکومت بن بھی جاتی ہے تو ہمیں نقصان ہے نہ فائدہ۔ اچھا ہے جو عالمی طاقتیں پہلے بلاک بنا کر آپس میں لڑتی رہتی تھیں اب اگر اتحاد کے ساتھ رہیں گے تو کم از کم کسی تیسرے کو کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا۔

اس بات پر ایک لطیفہ یاد آیا۔ جب مشرف صاحب نے مارشل لاء کا نفاذ کیا تو کسی گاؤں میں ایک سیاسی گرم جوش نوجوان ورکر کسی بابا جی کی طرف بھاگتا ہوا گیا اور کہنے لگا ”بابا جی آپ کو پتا ہے مشرف نے مارشل لاء کا نفاذ کردیا ہے۔ بابا جی نے کہا کردیا ہے تو کیا ہوا، انگریز کی حکومت تھی تب بھی ہم دو روٹیاں کما کر کھاتے تھے، پاکستان بنا تب بھی ہم دو روٹیاں کما کر کھایا کرتے تھے، بھٹو کا دور تھا تب بھی ہم دو ہی روٹیاں کھاتے تھے اب مشرف آیا ہے ہم نے اپنی وہی دو روٹیاں کما کر کھا لینی ہیں۔ عالمی حکومت بنے نہ بنے ہماری اوقات اس بابا جی والی ہے۔ اپنی دو روٹیوں کا سوچیں اس کے علاوہ ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments