فتح باغ، ٹنڈو محمد خان: کبھی یہاں کے آم دلی تک جاتے تھے


سندھ میں لاڑ (لوور سندھ) کے علاقے کی ایک الگ اور ممتاز حیثیت رہی ہے۔ ماضی میں دریائے سندھ کے جتنے بھی راستے تھے، وہ یہاں سے ہو کر ہی گزرتے تھے۔ کبھی دریائے سندھ نصر پور سے اپنا راستہ بناتا آگے بڑھتا تھا۔ ماتلی شہر کے مغرب میں چند میل دور ایک نہر، دریائے سندھ کے مرکزی بہاؤ سے الگ ہو کر نکلتی تھی، جسے آج بھی ”رین“ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس بہاؤ کے کنارے پر صدیوں سے آباد ایک بستی ”فتح باغ“ کے نام سے تاریخ کی کئی کتابوں میں محفوظ ہے۔

کچھ تاریخ دانوں کا یہ خیال ہے کہ یہی ”راوڑ“ کا قلعہ ہو سکتا ہے، جہاں فاتح سندھ محمد بن قاسم اور راجا داہر کا آخری ٹکراو ہوا تھا۔ مگر یہ بات تب تک یقین سے نہیں کہی جا سکتی، جب تک ان آثاروں کی کھدائی نہیں ہو جاتی۔ لہذا ہم اس جگہ کو ”سمہ، مغل اور ارغون“ ادوار کے پس منظر ہی میں دیکھیں گے۔

1857ء سے پہلے، جب دریائے سندھ یہاں سے بہتا تھا تو تب تک فتح باغ سر سبز اور آباد رہا۔ اس کے جنوب میں بیوپار کا ایک بڑا مرکز ”جون“ شہر تھا۔ اس زمانے میں ایک کہاوت بن گئی: ”نار نصرپور، نرت نورائی، ہلی ڈس جون جت کپھ جو واپار“۔
مفہوم: خوب صورت عورتیں نصر پور شہر کی، ناچ نورائی کا اچھا، اور چل کے دیکھ جون کا شہر، جہاں کپاس کا بیوپار ہوتا ہے۔

ترخان نامہ کے الفاظ میں ”949 ہجری میں جب ہمایوں بادشاہ شیر شاہ سوری سے شکست کھا کے بھٹکتا ہوا عمر کوٹ پہنچا اور وہاں کے حاکم، رانا ’ناویرسال‘ نے اس کا استقبال کیا، ہمایوں کے رہنے کے لیے قلعے کا ایک حصہ خالی کر کے دیا۔ یہاں ہندوستان کے مستقبل کے شہنشاہ، جلال الدین محمد اکبر کا جنم ہوا۔

عمر کوٹ کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ زیادہ دنوں تک شاہی لشکر کو کھلا پلا سکے، اس لیے امیروں نے ہمایوں کو سندھ جانے کا مشورہ دیا۔ ہمایوں بادشاہ کا قافلہ ”جون“ کے گاؤں پہنچا۔ بادشاہ ہمایوں نے اس شہر اور باغات کے بیچ میں قیام کیا۔ میرزا شاہ حسن نے بھی اپنے لشکر کے ساتھ دریا کے دوسرے کنارے اپنے ڈیرے ڈالے۔ جون اور فتح باغ کے قریب بادشاہی اور ارغون لشکروں کے مابین جھڑپیں ہوتی رہتیں۔ وہ تو اللہ بھلا کرے بیرم خان کا جس نے گجرات سے آ کر ہمایوں اور میرزا شاہ حسن کے بیچ میں صلح کروا دی۔ جس وجہ سے میرزا شاہ حسن خوش ہوئے کہ آئی بلا ٹل گئی اور ہمایوں بھی مشکلوں سے جان چھڑا کر قندھار کو چل دیا۔

ابو بکرشیخ لکھتا ہے: اکبر نے آنکھیں عمر کوٹ میں کھولیں اور اپنے جیون کے ابتدائی قدم اس فتح باغ میں اٹھائے۔ ہمایوں اور میرزا شاہ حسن کے صلح کے چند سال بعد، ہمایوں ہی کا چھوٹا بھائی کامران جب کابل کی گدی پانے کی خواہش کو لے کر اپنے ہی بھائی ہندال کو قتل کر دیتا ہے اور بدلے میں ہمایوں اس کی آنکھوں میں سلائی پھروا دیتا ہے۔ تو میرزا شاہ حسن کی بیٹی جو کامران مرزا کی بیوی تھی وہ اپنے اندھے شوہر کے ساتھ دو سال تک فتح باغ میں قیام پذیر رہی۔

جب شہنشاہ اکبر نے سندھ کو فتح کرنے کے لیے، خان خاناں کو سندھ بھیجا، تو وہ بھی کئی مہینوں تک یہاں اپنے خیمے لگائے بیٹھا رہا۔ خان خاناں اور میرزا جانی بیگ کے صلح کے نتیجے میں جب سندھ پر مغلوں کا کنٹرول ہوا، تو ہر سال آموں کے موسم میں شہنشاہ اکبر فتح باغ سے آم منگواتے اور وہ اونٹوں پر لاد کر دلی تک بھیجے جاتے۔

قلعے کے ساتھ فتح باغ میں ایک مسجد تھی۔ لوگ اسے ہمایوں بادشاہ کی مسجد کہا کرتے۔ یہاں ہمایوں، میرزا شاہ حسن، بیرم خان سے لے کر خان خاناں تک نہ جانے کتنے بڑے لوگوں نے نمازیں ادا کیں، لیکن اب یہ مسجد بھی سلامت نہیں رہی۔ دو برس پہلے جب ہم وہاں گئے، تب اس مسجد کا صرف جنوب مشرق والا ایک خستہ حال حصہ باقی تھا۔ تاریخی مسجد کا محراب سلامت تو ہے لیکن لوگوں نے اس کے اوپر اپنے حساب سے چھت کھڑی کر دی ہے۔

اس شہر کی رونقیں تب تک شباب پر تھیں، جب تک سندھو اپنے پانی سے اسے نوازتا رہا۔ 1757ء میں جیسے ہی دریائے سندھ نے اپنا موجودہ رخ اختیار کیا، تو یہ علاقہ اپنے عروج سے روز بروز یچھے ہٹتا چلا گیا۔ فتح باغ کی مکمل تباہی اس وقت ہوئی جب کلہوڑا اور تالپور خاندانوں کے بیچ میں سندھ کی حکمرانی کے لیے ہوتی رسا کشی میں مدد خان پٹھان بن بلائے مہمان کی طرح بیچ میں آ ٹپکا۔ اور اس نے فتح باغ کے شہر کو برباد کر کے رکھ دیا۔

قلعہ، اور مسجد کے علاوہ یہاں نزدیک ہی جنوب کی طرف ایک قدیم قبرستاں بھی ہے۔ لوگ اسے میروں کا قبرستان کہتے ہیں۔ یہاں تالپور حکمرانوں کے خاندان سے وابستہ امیروں کے مقبروں کے ساتھ ساتھ، ٹنڈو محمد خان شہر کی بنیاد رکھنے والے میر محمد خان شاہوانی کا وہ مقبرہ بھی ہے، جو انہوں نے اپنی حیات ہی میں (1221 ہجری) بنوا دیا تھا۔ تالپور دور حکمرانی میں یہ علاقہ میر محمد شان شاہوانی کی جاگیر میں شامل تھا۔

سنگ تراشی کے حوالے سے یہ مقبرہ اپنی نوعیت میں ایک الگ اور خاص مقام رکھتا ہے۔ پتھروں پر جومیٹریکل ڈِزائن میں بنی بیل بوٹے، سبزیاں اور پھل جو اس مقبرے کے پتھروں پر تراشے ہوئے ہیں۔ پتھروں پر بنی یہ گل کاری، فتح باغ کے خوش حال ماضی کی یاد دلاتی ہے۔

مقبرے کے اندر بنی خوب صورت قبریں، جن پر قرآن شریف کی آیات کندہ تھیں، ان پر خزانہ تلاش کرتے لوگوں نے رات کے اندھیرے میں اپنے ہاتھ صاف کر دیے اور قبروں کواکھاڑ کر الگ کر دیا۔ اب وہ ٹوٹے پتھر آپ کو مقبرے کے باہر بکھرے پڑے مل جائیں گے۔ لوگوں کی سوچ بھی عجیب ہے۔ بھلا میر محمد خان فرعون تھوڑی تھا، جو سونا اور چاندی لے کر قبر میں جا سویا؟ آج اس مقبرے کی دیواروں سے زرد پتھر ایک دوسرے سے الگ ہو کر گر رہے ہیں۔

جب ماہر سر جوڑ کر ان کے ٹوٹنے اور گرنے کے اسباب ڈھونڈنے بیٹھے، تو ان کو پتا چلا کہ یہ پتھر بڑے بڑے فولادی کیلوں سے ایک دوسرے سے جوڑے گئے تھے۔ اب وہی لوہا ان پتھروں کے ٹوٹنے کا سبب بن رہا ہے۔ جب لوہے پر زنگ لگتا ہے تب یہ اپنی شکل اور حجم تبدیل کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس مقبرے کی دیواریں خستہ ہو رہی ہیں۔ اگر اس مسئلے پر فوری دھیان نہیں دیا گیا تو، اس مقبرے کی خوب صورت دیواریں بھی قصہ پارینہ ہو جائیں گی، اور ہم انہیں صرف تصویروں ہی میں دیکھ سکیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments