ہمارے لڑکپن کا نواں شہر ( 2 )۔


سکول سے آگے یہ گلی بائیں طرف بستی باغبان کی طرف مڑ جاتی ہے۔ وہاں ہمارے والد صاحب کے دوستوں میں سے ایک صاحب رہتے تھے۔ ان کی نرسری، جہاں آج کل کسٹم ہاوٰس ہے، اس جگہ اناروں والے باغ کے پیچھے ہوتی تھی۔ انتہائی سادہ مزاج، پنج وقتہ نمازی بزرگ تھے۔ ان کے صاحبزادے نے آرمی جائن کر لی تھی اور ان کا نام جمیل تھا۔ اب ہم حسب وعدہ آغا صاحب کی حویلی واپس آتے ہیں۔ حویلی کی دیوار کے ساتھ ساتھ چوک نواں شہر کی جانب ذرا سا آگے بڑھیں تو سب سے پہلے شاہ دین سائئیکل ورکس سے مڈبھیڑ ہوتی۔

شاہ دین انتہائی شریف النفس آدمی تھا۔ دبلا پتلا۔ چھوٹے موٹے کام کے تو پ پیسے ہی نہ لیتا۔ ہاں اگر کوئی پنکچر آ جاتا تو اس کی اکنی ضرور کھری کر لیتا۔ یہ دکان ایک بند گلی کی کنارے پر تھی جسے کوچہ بھی کہا جاتا تھا۔ اس کوچہ میں معززین اور خوشحال طبقہ کے افراد رہائش پذیر تھے۔ پہلے والے گھر کے سر براہ کا نام یاد نہیں مگریہ یاد ہے کہ وہ صحت مند سے، نفیس شخصیت کے مالک تھے، سنہری فریم کا چشمہ لگاتے تھے۔ ہم روزانہ صبح ان کے گھر سے چاٹی کی لسی لینے جایا کرتے۔

ان کے غالباً تین بیٹے تھے۔ بڑے والا تو کسی دواؤں کی کمپنی میں ملاز م تھا اور وقار اور شیراز ہمارے ساتھ گورنمنٹ پائلٹ اسکول میں پڑھا کرتے تھے، ساتھ والا گھر گورنمنٹ کالج کے ڈی۔ پی۔ ای پروفیسر شہنشاہ حسین کا تھا۔ انتہائی وضعدار اور لکھنوی تہذیب کا پروردہ خاندان۔ ان کے والد کو ابا میاں اور والدہ کو باجی اماں کہا جاتا۔ ابا میاں کو ہمیشہ روایتی سفید کرتا۔ چوڑی دار پاجامہ اور دو پلی ٹوپی میں ہی دیکھا۔

جی ہاں۔ جیسا سراپا آپ کے ذہن میں تخلیق پا رہا ہے، با لکل ویسے۔ جیسی خستہ اور لذیذ بائیس رجب کی ٹکیاں ان کی بیگم بناتی تھیں ویسی پھر کبھی نہیں کھائیں۔ ان کے ماشا اللہ تین بیٹے ہیں۔ سب سے بڑے سکندر نیوی میں تھے، منجھلے جعفر ائر فورس میں اور ہمارے ہم عمر حسن یو، بی، ایل میں ملازمت کرتے تھے۔

ٹکر والا گھر پروفیسر بشیر احمد کا تھا اور ان کے ساتھ والے گھر میں ایک وکیل صاحب رہا کرتے تھے۔ کوچے سے باہر نکلیں تو بائیں ہاتھ پر ایک بڑا سا گھر تھا جس میں دو بھائی اپنے خاندانوں کے ساتھ رہتے تھے۔ یعقوب علی شاہ اور محبوب علی شاہ۔ دونوں کے مراسم والد صاحب سے بہت ہی مخلصانہ تھے اور ہم نے بارہا ان کو والد صاحب سے علمی و ادبی گفتگو کرتے دیکھا۔ سید محبوب شاہ کے صاحبزادے، سید عامرمحبوب آ ج کل پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی میں ایک اعلی عہدے، ڈائرکٹر ائر پورٹ سروسز، پر فائز ہیں ۔

ذرا آپ کی سمت درست کرتے چلیں کہ اس وقت ہم سڑک کی دوسری طرف تاج ہوٹل کے سامنے کھڑے ہیں۔ اب ہم جس گھر کا ذ کر کرنے والے ہیں وہاں ایک انتہائی شفیق اور مہربان خاتون رہتی تھیں جو بچوں سے بہت محبت کرتی تھیں۔

گجرات کی رہنے والی سرخ و سفید پنجابی جٹی، عمر کی تیسری دہائی میں۔ وہ جگت باجی تھیں۔ ہر بچہ انہیں باجی کہتا تھا۔ ان کے میاں مرزا مسعود بیگ محکمہ انہار میں اوور سئیر تھے اور غازی گھاٹ پر تعینات تھے۔ باجی کے ہاں ہر وقت محلے کے بچوں کا مجمع لگا رہتا۔ وہ بھی بچوں کو کھلا پلا کے بہت خوش ہوتیں۔ ان کے باورچی خانے (کچن نہیں ) میں مٹی کی چاٹی میں آم کا اچار رکھا ہوا تھا۔ ہم لوگ آتے جاتے ہاتھ ڈال کے آم کی پھانکیں نکال لیتے اور چٹخارے لے لے کے کھاتے۔

کبھی کبھی غازی گھاٹ سے تازہ مچھلی آتی تو باجی بیسن میں تل کے کھلاتیں۔ ایک تو دریائی مچھلی کا منفرد ذائقہ اور باجی کی ریسیپی۔ زندگی کا لطف آجاتا۔ ان کے گھر کی بلی بھی ہم سے بہت مانوس تھی۔ چنانچہ جب ہم اپنے گھر کے لئے دودھ لیتے تو دو آنے کا دودھ محترمہ کی نذر بھی کرتے جاتے۔ باجی کے ماشا اللہ پانچ بچے ہیں۔ دو بیٹے اور تین بیٹیاں۔ آج بھی کہیں ملاقات ہوتی ہے تو یادوں کے دریچے کھل جاتے ہیں اور پرانی رفاقتوں کا سرور پھر سے دو آتشہ ہو جاتا ہے۔

باجی کے مزاج کے بالکل بر عکس مرزا صاحب گھر میں شور شرابا پسند نہیں کرتے تھے۔ اور اگلے وقتوں کے خاوندوں کی طرح ان کا ٹھیک ٹھاک رعب تھاچنانچہ جب کبھی وہ غازی گھاٹ سے چھٹی پر آتے تو ان دنوں ہم لوگ بھی کم کم ہی جاتے۔ ان کے جانے کے بعد پھر وہی ہنگامے شروع ہو جاتے۔ اگر ہمارے بچپن کی خوشگوار یادوں کا ذکر چھیڑا جائے تو باجی کا نام سرفہرست ہو گا۔

باجی کے گھر کے کونے پر ایک درزی بیٹھتا تھا۔ شاید اس کا نام صدیق تھا مگر اسے کالا کہتے تھے۔ آ گے پھر وہی گندے نالے والی گلی ہے۔ نالے سے متعلق ایک لطیفہ یاد آ گیا، پیش خدمت ہے۔ شاید کچھ لوگوں کے لئے نیا ہو۔ ویگن کا ایک سٹاپ گندا نالہ بھی تھا۔ جوں ہی ویگن وہاں پہنچی تو کنڈیکٹر نے آواز لگائی“ چلو بھئی۔ گندے نالے والے اتر جاوٰ ”۔ ایک مسافر فوراً چھلانگ مار کر اتر گیا اور حیرت زدہ ہو کر کنڈیکٹر سے پوچھنے لگا ”اوئے، تینوں کیویں پتہ لگیا اے، اج میں گندا ناڑا پایا اے؟“۔

گلی کراس کر کے آپ غازی پان سگریٹ والے کے کھوکھے پر پہنچتے ہیں۔ چھوٹا سا قد۔ گنجا سر اور چندھی چندھی سی آنکھیں۔ ایک دفعہ کھو کھے پر بیٹھ جاتے تو بند کر کے ہی اٹھتے۔ حوائج کیے لئے اتنا وسیع و عریض نالہ جو موجود تھا۔ گزرتی ہوئی حلال خوریوں سے گندا مذاق کرتے اور حسب خواہش و آرزو مفرح و مسجع گالیاں کھاتے اور رقیب کی طرح بے مزا نہ ہوتے۔ آگے چلیں تو بشیر درزی کی دکان آتی ہے۔ بشیر اور اس کے چچا دونوں ہی اپنے کام کے ماہر تھے اورماسٹر کہلاتے تھے۔

بعد میں دونوں سعودی عرب شفٹ کر گئے تھے اور ایک دو دفعہ راقم مکۃ المکرمہ میں ان سے ملاقات کا شرف بھی حاصل کر چکاہے۔ جب مالک دکان نے ان سے دکان خالی کروا لی تھی تو کچھ عرصہ کے لئے والد صاحب نے ان کو اپنے کلینک میں بھی بیٹھنے کی اجازت دے دی تھی۔ بشیر درزی لال کوٹھی والوں کا کرایہ دار تھا۔ لال کوٹھی اپنی وسعت، قدامت اور چھتنار درختوں کی وجہ سے بڑی پر اسرا سمجھی جاتی اور بچوں میں مشہور تھا کہ اس میں جن رہتے ہیں حالانکہ اس کیے مکین نہایت شریف النفس، دیندار اور متشرع لوگ ہیں اور آج بھی کوٹھی کے ایک حصہ میں مدرسہ عائشہ کے نام سے بچیوں کی دینی تعلیم کا اسکول قائم ہے۔

اسی کوٹھی سے منسلک بر لب سڑک ایک چھوٹا سا گھر شمشیر بٹ کا تھا۔ اسے تن سازی کا بہت شوق تھا اور بڑی خوبصورت باڈی بنائی ہوئی تھی۔ آگے ایک گھنے پیڑ کے نیچے موسی کا تندور تھا اور ساتھ ہی ایک چھوٹا سا جنرل سٹور تھا جسے ایک خوبصورت سا نوجوان اور اس کا والد چلاتے تھے۔

باپ بیٹا بستی باغبان کے رہائشی تھے۔ شام کو ان کی دکان کے سامنے، سڑک کی دوسری طرف نیچے فٹ پاتھ پر ایک موٹا سا آدمی، جس کا نام شاید نذیر تھا، دال مونگ کا چھابا لگاییا کرتا تھا۔ اتنے صاف ستھرے اور لذیذ، کہ دو تین گھنٹوں میں مال بیچ کر فارغ ہو جاتا۔ تھوڑا آگے آئیں تو نور اللہ کریانے والے کی دکان تھی، اس کی دکان سے ایک روپے کلو چینی تو ہم بھی خرید چکے ہیں۔ اس لائن کی آخری عمارت چوک سے پہلے ڈان ہوٹل کی تھی۔

محل وقوع اور کرائے کے اعتبارسے درمیانے درجے کا اچھا ہوٹل سمجھا جاتا تھا۔ چوک میں کھڑے ہوں تو دائیں ہاتھ پر ٹھنڈی سڑک یعنی ابدالی روڈ ہے۔ سامنے فرح پہلوی پارک اور سیدھا ڈیرہ اڈہ، بائیں ہاتھ پر زینتھ سنیما سے ذرا سا چلیں تو ہمارا اسکول، گورنمنٹ پائلٹ سیکنڈری سکول اور اس سے ملحق لڑکیوں کا سکول نمبر 1۔ قارئین با تمکین۔ قلم ہاتھ میں لیتے ہی یادوں کا اک سمندر ہے کہ امڈا چلا آ رہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کیا ضروری اور کیا غیر ضروری ہے۔

کس بات کو قاری پسند کرے گا اور کس سے اکتا جائے گا۔ اس بیانئے سے صحیح معنوں میں لطف اندوز ہونے کے لئے ضروری ہے کہ آپ کی عمر ساٹھ سال سے اوپر ہو، یاداشت قائم و دائم ہو اور آپ نواں شہر کے مکین ہوں۔ پھر تو آپ ڈاکٹر صدیقی سے بھی واقف ہوں گے۔ اور وہ ایسسو کا پٹرول پمپ، علا ءالدین ارشد صاحب کی کوٹھی، اس کے سامنے فیروز سنز کی ایجنسی، اس کے مالک ماسٹر رحیم بخش صاحب، ان کی کوٹھی کی ساتھ والی گلی، ٹوبیاں والی مسجد، محلہ درکھاناں۔ اور۔ اور۔ اور۔ بہت کچھ۔ ابھی پوٹلی میں کچھ اور ذخیرہ بھی موجود ہے۔ دیکھئیے اگر یوں ہی فرصت رہی تو انشاللہ آپ کی خدمت میں پھر حاضر ہوں گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments