شریک جرم نہ ہوتے تو مخبری کرتے



گزشتہ دنوں جہانگیر ترین کی مبینہ کرپشن اور آٹا چینی کا بحران پیدا کرنے والی مافیا کو بے نقاب کرنے والی آیف آئی اے کی رپورٹ پر کافی گرما گرمی رہی اور تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت بھی موضوع بحث بنی رہی۔ ایف آئی اے رپورٹ کا جو حصہ میری نظروں کے سامنے گزرا ہے اس میں شوگر ملز کو دی جانے والی سب سڈی کا ذکر ہے لیکن اس بات کا کوئی ذکر نہیں کہ یہ سبسڈی کس نے دی اور کیوں دی گئی؟ جہاں تحریک انصاف کے مخالفین اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے سے خوش ہیں وہاں عوام نے بھی سکھ کا سانس لیا ہے۔

بہاولپور سے بھی سابق صوبائی وزیرخوراک سمیع اللہ چوہدری مصنوعی آٹا بحران کے چکر میں مستعفی ہو چکے ہیں لیکن ان کے ساتھ کک بیک، رشوت اور سیاسی تقرریوں کی اتنی مبیّنہ کہانیاں وابستہ ہیں جن پر ایک کتاب لکھی جا سکتی ہیں۔ سمیع اللہ چوہدری جیسے وزراء، جہانگیر ترین اور حکومتی اہلکاروں کی یہ کارکردگی دیکھ کر مجھے ایک کہاوت یاد آ گئی، کہتے ہیں کسی زمانے میں بادشاہ کا عزیز ترین حجام تھا جس کا نام محمد بخش تھا لیکن لوگ اسے پیار سے ممدو کہتے تھے۔

بادشاہ کا منظور نظر ہونے کی وجہ سے وہ روزانہ بادشاہ کے دربار میں روزانہ حاضری دینا اس کا معمول تھا۔ شیو یا حجامت کے بعد کبھی کبھی ممدودو دو تین تین گھنٹے بادشاہ کی درباری محفل میں یونہی بیٹھا رہتا اور بادشاہ سلامت کو سلطنت کے امور کو سرانجام دیتے ہوئے بہت غور سے دیکھتا اور دل ہی دل میں اپنی لالچی طبیعیت کی بنا پر وزیر بننے کے خواب دیکھتا رہتا۔

ایک دن ممدو نے حجامت کے بعد موقع غنیمت سمجھتے ہوئے فوراً بادشاہ سے کہا“ حضور میں آپ کے وزیر کے مقابلے میں آپ سے زیادہ قریب ہوں، آپ مناسب سمجھیں تو وزارت کا منصب مجھے تفویض کر دیں ”بادشاہ ممدو کی بات سن کر مسکرایا اور اس سے کہاکہ میں تمہیں وزیر بنانے کو میں تیار ہوں لیکن تمہیں اس سے پہلے ایک امتحان دینا ہوگا“ ممدو نے سینے پر ہاتھ باندھ کر کہا ”آپ حکم کیجئے عالی جاہ“ بادشاہ نے کہاکہ ہماری بندرگاہ پر ایک بحری جہاز آیا ہوا ہے، تم مجھے اس کے بارے میں معلومات لا کر دو ”ممدوبھاگ کر بندرگاہ پر گیا اور واپس آ کر تصدیق کی ایک جہاز بندرگا ہ پر کھڑا ہے۔

بادشاہ نے پوچھا“ یہ جہاز کب آیا ”ممدو دوبارہ سمندر کی طرف بھاگا ’واپس آیا اور بتایا کہ دو دن پہلے آیا تھا۔ معلومات نامکمل ہونے کی بنا پر بادشاہ نے کہا“ یہ بتاؤکہ یہ جہاز کہاں سے آیا ”ممدو تیسری بار سمندر کی طرف بھاگا‘ واپس آیا تو بادشاہ نے پھر پوچھا کہ جہاز پر کیا سامان لدا ہوا ہے۔ قصّہ مختصر کہ ممدونائی شام تک سمندر اور محل کے درمیان چکر لگا لگا کر تھک گیا۔ اس کے بعد بادشاہ نے اپنے مخصوص وزیر کو بلوایا اور اس سے بندرگاہ پر لنگر انداز جہاز کے بارے میں استفسار کیا۔

وزیر نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا“ حضور! دو دن پہلے ایک تجارتی جہاز اٹلی سے ہماری بندرگارہ پر آیا تھا۔ اس میں جانور ’خوراک اور کپڑا لدا ہواہے۔ اس جہاز کے کپتان کا نام ہیڈلی پارکر ہے یہ جہاز مختلف ممالک کی بندر گاہوں پہ اپنی کاروباری مصروفیات سے فراغت پاتا ہوا ہمارامطلوبہ سامان لے کر 20 دن کی مسافت کے بعد اٹلی سے یہاں پہنچا ہے اور اب یہ جہاز مزید چار دن ہماری بندر گاہ پہ ہی ٹھہرے گا تا کہ یہاں کا سامان بھی لادا جا سکے۔

پانچویں دن یہ جہاز یہاں سے ایران کے لئے روانہ ہو جائے گا۔ اس وقت اس میں دو سو نو لوگ سوار ہیں اور میرا مشورہ ہے کہ ہمیں آئندہ سال کے آغاز میں بحری جہازوں پر پارکنگ ٹیکس بڑھا دینا چاہیے ”بادشاہ نے یہ سن کر ممدو نائی کی طرف دیکھا۔ ممدو نے چپ چاپ اپنے تھیلے سے قینچی اور استرا نکالا اور عرض کیا“ مولا خوش رکھے بادشاہ سلامت! ہن مینوں دسوقلماں چھوٹیاں رکھاں کہ وڈیاں؟ ”۔ (اب مجھے یہ بتائیں کہ قلمیں چھوٹی رکھوں یا بڑی؟)

ذرا اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں، آپ کو ممدو جیسے بہت سے نا اہل لوگ اپنی کرسی ِ وزارت پر برا جمان نظر آئیں گے، چاہے وہ صحت کا شعبہ ہو یا تعلیم یا اور چاہے وہ سیاست کا ہو یا صحافت کا ہماری قوم کو نا اہل لوگوں نے مل کر اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ سستے اور کم خرچ کے چکر میں ہم ہر اس عطار کے بیٹے سے دوا لیتے ہیں جس کے ہاتھوں ہماری قوم کی صحت اور حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

ہر شاخ پہ الو تب سے بیٹھا ہے جب سے یہ خطہ ارضی معرض وجود میں آیا ہے لیکن ہم سب صرف انجامِ گلستاں کے نظارے کے لئے بے تاب ہیں۔ شعبہ چاہے صحت کا ہو یا تعلیم کا ہمارے معاشرے کے ہر فرد نے یہ سوچ رکھا ہے کہ ہم نے نہ صرف بیماری سے نجات بلکہ تعلیم یافتہ کہلانے کے لئے بھی شارٹ کٹ ہی اختیار کرنا ہے چاہے ہمارا پالا کسی ممدو نائی سے پڑ جائے ہمیں کوئی پرواہ نہیں۔ کسی نا اہل کو ایک ایسے عہدے سے نوازنا جس کا وہ کسی بھی طریقے سے اہل نہیں ہے ہمارے نظام کی سب سے بڑی خرابی ہے۔ چاہے وہ معیشت کا میدان ہو یا سیاست کا ایک نا اہل نہ صرف نظام کا بیڑا غرق کر دیتا ہے بلکہ معاشرے کو بھی نا قابل تلافی نقصا ن پہنچاتا ہے۔ اقوام عالم کی تباہی میں ممدو نائی جیسے کرداروں کا اہم حصہ رہا ہے جس کا بنیادی سبب چاپلوسی اور خوشامد پسندانہ روّیہ ہے۔

تایخ شاہد ہے کہ کسی بھی بادشاہ وقت کو اپنے زوال تک پہنچانے میں ان نا اہل خوشامدی اور درباری امراء کا سب سے بڑا ہاتھ رہا ہے جو چور دروازے سے اقتدار کے سنگھاسن پر برا جمان ہوئے۔ پرویز مشرف کے دور میں ایک شوگر ملز سے تین کارخانوں تک پہنچنے والے جہانگیر ترین کی ہی مثال لے لیں، جس کی اب کوئی بھی نہیں سن رہا۔ مسلم لیگ قاف سے فنکشنل اور پھر تحریک انصاف تک کا سفر موصوف نے جس تیزی اور خوبی سے طے کیا اس کی مثال دینا ہی مشکل ہے لیکن کل کا مخبر آج کا شریک جرم جس بھونڈے طریقے سے ٹھہرایا گیا ہے اس کی مثال بھی ملنا مشکل ہے۔

اب جہانگیر خاں ترین اپنے ٹویٹ میں بیٹھے رو رہے ہیں کہ اپنی تینوں شوگر ملز کے ڈیٹا تک میں نے رسائی دے دی ہے اور اس کے علاوہ میرے پاس کسی بھی ٹاسک فورس کا کوئی عہدہ نہ تھا یعنی جو بھی سبسڈی دی اس وقت کی حکومتوں میں موجود اعلیٰ انتظامیہ نے دی۔ جہاں تک اندرونی کہانی کا تعلق ہے، واجد ضیاء کی رپورٹ میں واضح لکھا گیا ہے کہ ایکسپورٹ ہونے والی چینی کا مقامی منڈی میں فروخت ہونے والی چینی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی قیمت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سبسڈی کس نے دی؟ کیوں دی؟ لیکن اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والی صرف شوگر انڈسٹری آج سے یہ کام نہیں کر رہی بلکہ 2015 ء سے جب بھی چینی سر پلس ہوتی ہے اس دور کی حکومتیں شوگر کے کارخانوں کو سب سڈی دے کر ایکسپورٹ کرواتی رہی ہیں۔ اس میں جہانگیر خان ترین کی تین، خسرو بختیار خاندان کی چار اور شریف خاندان کے دو چینی کے کارخانے اہم ہیں لیکن زلزلہ صرف قربانی کے بکرے یعنی اس کھرے سکّے جہانگیر ترین پر گرایا جا رہا ہے جو اب کھوٹا بن چکا ہے۔

لیکن اقتدار کے سنگھاسن پر برا جمان تمام ممدو نائی جیسی سوچ رکھنے والے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں سے میرا ایک ہی سوال ہے کہ جب بازار میں آوٹ آف فیشن کپڑوں اور جوتوں کی سیل لگ سکتی ہے (جس میں دکاندار اپنی لاگت سے کم رعایت پھر بھی نہیں دیتا) تو کیا چینی سستے داموں فروخت نہیں ہو سکتی تھی؟ لیکن ابھی تک کوئی بھی حکومتی ترجمان اس سوال کا تسلی بخش جواب نہیں دے سکاکہ جب اس بات کا علم تھا کہ ملک میں چینی کا بحران پیدا ہو سکتا ہے تو اسے ایکسپورٹ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی؟

اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اس پر تین ارب کی سبسڈی کیوں دی گئی؟ جس کے بارے میں نجم سیٹھی کی چڑیا اور کسی معروف اینکر کی چڑیل تک خاموش ہیں لیکن ایک تھیوری یہ بیان کی جا رہی ہے کہ حکومت نے سبسڈی دینے کا فیصلہ اس لئے کیا تاکہ ملک میں ڈالر لائے جا سکیں۔ اس امر میں کہا ں تک صداقت ہے یہ تو ہماری اعلیٰ قیادت ہی بتا سکتی ہے لیکن موجودہ دور میں صرف بحران چینی کا ہی نہیں گھی، دالوں اور آٹے کا بھی ہے اس لئے میری وزیر اعظم پاکستان سے گزارش ہے کہ کسی قابل مشیر کے مشورے سے مہنگائی کے ہاتھوں ذلیل ہونے والی عوام کو ایسا ریلیف دیا جائے جس میں سبسڈی نام کے لفظ کا دور دور تک ذکر نہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments