کرونا: ڈرنا، لڑنا اور بچنا!


کرونا وائرس کے متعق سوشل میڈیا پر دور از کار قیاس آرائیوں کے طومار میں لازم سمجھا گیا کہ بحیثیت ایک فیملی فزیشن اپنی طبی معلومات قارئین کے سامنے پیش کروں، تا کہ عامتہ الناس چند اہم سائنسی حقائق سے آگاہ ہو سکیں۔ کسی مسئلے کو حل کرنے کے لئے سب سے پہلے اس کے متعلق سائنسی معلومات کا حصول از حد ضروری ہوتا ہے، تا کہ اس کے تشخیص اور پھر اُپائے کی طرف کوئی بھی ٹھوس قدم اٹھایا جا سکے۔ کرونا وائرس نیا ہرگز نہیں، اس کے نام اور کام میں کچھ بھی نیا نہیں۔

ہماری مائکرو بیالوجی کی نصابی کتابوں میں اس کے کرتوت پہلے سے درج ہیں۔ در اصل کرونا ایک گروپ آف وائرس ہے، یعنی یہ وائرس کا ایک پورا قبیلہ ہے، اس قماش کے وائرس فلو قسم کی کچھ خرافات پیدا کرتے ہیں۔ عام طور پر بخار، کھانسی اور نزلہ وغیرہ کی ہلکی پھلکی شکایات پیدا کرتے ہوئے ہفتے عشرے میں خود ہی دفعان ہو جاتے ہیں۔ لیکن بسا اوقات اسی قبیلے کے کچھ وائرس بگڑ جاتے ہیں، یہ اپنی جون تبدیل کر لیتے ہیں۔ ان میں میوٹیشن ہو جاتی ہے۔ وائرس کا اس قسم کا یہ بگڑا ہوا خاندان سر کشی اختیار کرتے ہوئے فلو کی حدوں کو پھلانگتا ہوا نمونیہ کی علامتیں پیدا کردیتا ہے۔

یہ موجودہ کووڈ 19 بھی ایسا ہی سرکش وائرس ہے جو انسانی پھپھڑوں پر جان لیوا حملہ کرتا ہے۔ سانس کی نالیوں میں یہ ایسا گاڑھا لیس دار مادہ پیدا کر دیتا ہے کہ پھپھڑوں کے پھول جیسے ٹشو کی طرف ہوا کا راستہ ہی بند ہو جاتا ہے۔ ٹھیک ایک سو برس قبل ایسا ہی فلو کا ایک وائرس اسپین میں وارد ہوا تھا اور یورپ میں پانچ کروڑ انسان لقمۂ اجل بن گئے تھے۔ اس زمانے میں ہوائی سفر ابھی مستعمل نہ تھا، اس لئے یہ وبا یورپ تک محدود رہی۔

کرونا وائرس انسانوں اور ممالیہ جانوروں میں نمو پاتا ہے۔ چمگاڈر بھی ممالیہ ہے۔ مائیکرو بیالوجسٹس نے تقریبًا پندرہ برس قبل یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ چمگادڑوں میں موجود یہ وائرس کہیں چینیوں میں منتقل نہ ہو جائے، کیوں کہ ہمارے چینی بھائی ہر حرکت کرنے والی چیز کو کھا جانا اپنا قومی اعزاز سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہ محض افسانہ نہیں کہ ووہان شہر کی چمگادڑ مارکیٹ ہی سے پھیلنا شروع ہوا۔ اس سے قبل پھیلنے والے سارس، ایبولا اور کانگو وائرس کی طرح ممکن تھا کہ یہ اتنی شہرت نہ پاتا لیکن اس کی شہرت ایک دہشت بن کر جنگل کی آگ کی طرح پھیلتی چلی گئی۔ اس کے خوفناک ہونے کی اصل وجہ اِس کے پھیلاؤ کی خوفناک شرح ہے، اِس کے پھیلاؤ کی شرح سادہ حسابی ضربی نہیں بلکہ exponential ہے، یعنی 2 اور 2 یہاں 4 ہونے کے بعد پھر 8 نہیں ہوتے بلکہ 16 ہو جاتے ہیں اور 16 کے بعد 32 نہیں بلکہ 256 ہو جاتے ہیں، یہ مثال ابھی بھی نا کافی ہے، کیوں کہ اس کیس میں اوسطاً ایک بندہ اپنے ساتھ تین بندوں کو لے ڈوبتا ہے، یعنی 3 کے بعد 9 اور پھر 81 اور اگلے ہلے میں 729 افراد اس کی لپیٹ میں آ جاتے ہیں۔ اگر چہ اس کے مہلک ہونے کی شرح صرف دو فی صد ہے، لیکن اس کے پھیلاؤ کی شرح اپنا پھن پھیلائے ایک بہت بڑی تعداد کو نگلنے کے لئے ہر وقت تیار کھڑی ہے۔

اس خون آشام پھیلاؤ میں مضبوط قوتِ مدافت رکھنے والے بچ جاتے ہیں لیکن بوڑھے اور خاص طور پر دل کے مریض اس کا ہلکا سا وار بھی برداشت نہیں کر پاتے۔ ابھی تک اس کی کوئی خاص دوا ایجاد نہیں ہو سکی، ڈاکٹر بھی ٹوٹکوں پر گزارہ کر رہے ہیں۔ اس کی ویکسین بھی تا حال نہیں بن سکی، جو ویکیسن بنائے گا، ظاہر ہے منافع بھی کمائے گا۔ پھر یہ سازشی تھیوری گردش کرے گی کہ ویکسین بیچنے کے لئے اسے پھیلایا گیا ہے۔ کرونا کے حیاتیاتی ہتھیار ہونے کی تھیوری اس وجہ سے بھی قابلِ توجہ نہیں کہ جن پر شک کیا جاتا ہے وہ سب سے زیادہ اس کی لپیٹ میں آ چکے ہیں، برطانیہ کا وزیر اعظم بھی آئی سی یو میں داخل ہے۔ حیاتیاتی ہتھیار کے طور جب کسی وائرس کو استعمال کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے اس کی ویکسین بنائی جاتی ہے تا کہ خود بچ سکیں۔

ہوائی سفر کی بدولت یہ وائرس دنیا میں ہر جگہ پر لگا کر پہنچ چکا ہے۔ اس وبائے بلاخیز کو اپنے پھیلاؤ کے لئے بس انسانوں کا جمگھٹا چاہیے۔ اس سے بچاؤ کا واحد طریقہ اب تک انسانی دانش نے یہی اختیار کیا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ لمس میں نہ آئیں، چینی اس نکتے پر جلد پہنچ گئے، انہوں نے ووہان شہر میں 28 دن کے لئے شہریوں کو گھروں میں بند کر دیا، انہوں نے جمہوریت اور آزادی اظہار رائے کے راگ نہیں الاپے، دو کروڑ لوگوں کو مکمل کرفیو میں ڈال دیا۔ ان اٹھائیس دنوں جن مریضوں نے مرنا تھا مر گئے، جنہوں نے صحت یاب ہونا تھا وہ سب ٹھیک ہو گئے۔ باقی ملک محفوظ رہا۔ چناں چہ پورے شہر کو قرنطینہ بنانے کے اسلامی اصول کے مطابق عمل کرتے ہوئے وہ اس بلائے جان سے نکل آئے۔

اب سوال یہ کہ ووہان سے اٹلی تک یہ وبا کیسے پہنچی؟ اٹلی میں چمڑے کی صنعت زوروں پر ہے، اور وہاں اس کے سرمایہ کار ووہان کے چینی لوگ ہیں، ووہان سے ہزاروں چینی تاجر روزانہ اٹلی کی طرف عازم سفر ہوتے ہیں۔ جب یہ وائرس اٹلی میں پھیلنا شروع ہوا تو وہاں بھی حکومت نے لاک ڈاؤن کیا، لیکن اٹلی نے جمہوریت کا بھرپور فائدہ اٹھایا، ”میرا جسم میری مرضی“ کے نعرے پر عمل کرتے ہوئے ان لوگوں نے اسے سیر سپاٹے کرنے کا سنہری موقع سمجھ لیا۔

اُن کی آنکھ اس وقت کھلی جب اُن کی آنکھیں اسپتال میں جا کے بند ہونے لگیں۔ آئی سی یو میں وینٹی لینٹر نا کافی پڑ گئے، اموات کی تعداد قبرستانوں میں قبروں کی جگہ سے تجاوز کر گئی۔ یورپی یونین کے بارڈر ایک دوسرے کے لئے بہت نرم ہیں، بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کاش اسلامی ملکوں کی بھی کوئی ایسی یونین ہوتی جہاں دلوں اور سرحدوں کو ایک دوسرے کے لئے نرم کر دیا جاتا۔ قصہ مختصر اٹلی سے پورا یورپ لپیٹ میں آ گیا، اور عین توقع کے مطابق امریکا بھی۔

میرا برادرِ نسبتی کئی عشروں سے ہیوسٹن میں مقیم ہے، کسی زمانے میں وہاں ائرپورٹ پر کام کرتا تھا، اس کے بیان کے مطابق اس کی چھوٹی سے ایرکمپنی کے درجنوں جہاز گھنٹوں نہیں بلکہ منٹوں کے حساب سے روم، پیرس اور میڈرڈ کے لئے نکلتے تھے، یعنی یورپ کی طرف روزانہ لاکھوں کی تعداد میں امریکی بغرضِ سیاحت نکلتے ہیں۔ وہ بتا رہا تھا کہ یہاں اسکول اور کالج والے ویک اینڈ ٹرپ پر اپنے اسٹوڈنٹس کو اس طرح یورپ لے کر جا تے ہیں، جیسے آپ کے یہاں بچے جلو پارک کی سیر کے لیے جاتے ہیں۔

کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کے میرے درجنوں کلاس فیلوز اس وقت امریکا کے اسپتالوں میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ سب مریضوں کی تعداد اور حالتِ زار دیکھ کر دکھ اور تشویش میں ہیں۔ سب سے ابتر حالت نیویارک کے اسپتالوں کی ہے۔ اُن کے مردہ خانوں میں جگہ کم پڑ گئی ہے۔ وہاں اسپتالوں کے کاریڈور میں لاشوں کے بیگ بکھرے پڑے ہیں۔

اہلِ وطن! اگر اس وبا کو ایک عذاب سمجھتے ہیں تو عذاب سے ڈرنا چاہیے، عذاب سے لڑنا نہیں بلکہ بچنا چاہیے۔ خدارا! اسے بیماری سمجھیں، سازش یا سیاست نہ سمجھیں۔ حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تمام حکومتی ہدایات پر عمل کریں۔ اپنے ”توکل“ کا مظاہرہ کرنے کے لئے دوسروں کی جان سے نہ کھیلیں۔ ممکن ہے، آپ کی قوتِ مدافعت مضبوط ہو، آپ کرونا کا حملہ کچھ دنوں کے لئے کھانس اور کھنگار سے سنبھال لیں اور صحت کے ساحل پر ہی لنگر انداز رہیں، لیکن کیا ضمانت ہے کہ آپ کی بہادری کی زد پر آنے والوں کی کشتی کسی طوفان کا شکار نہ ہو گی؟

خدا کے لئے، اپنے لیے نہیں تو خلقِ خدا کے لئے ہی حفاظتی تدابیر اختیار کریں۔ انسان کی عمومی دانش کا مذاق نہ اڑائیں۔ اسے یہودی سازش شمار نہ کریں، کرونا کو عبرانی زبان کا کوئی خفیہ کوڈ ورڈ نہ سمجھیں، نوشتہ دیوار پڑھیں۔ دُور کی کوڑی نہ لائیں۔ یہودی ربی (مولوی) بھی یہی نعرہ لگا رہے تھے کہ یہ عذاب ہمارے لیے نہیں بلکہ ”گوئم“ (غیر یہودیوں ) کے لئے ہے، اور اِس زعم کا شکار بھی کرونا کا شکار ہو چکے ہیں۔

بیماری مذہب نہیں دیکھتی۔ یہ اسباب کا جہان ہے، آگ کا کام جلانا ہے، اپنے ساتھ کھیلنے والوں کو بھی جلا دے گی۔ ظاہر سے اعتراض تو روا ہے لیکن اعتراض کی روش خلافِ فطرت ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ہم فطرت اور دین ِ فطرت کے تقاضوں کے مطابق چلیں، اور آفت سے نکل کر عافیت میں جگہ پائیں۔

تازہ تحقیق میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ کرونا کا پھیلاؤ گرمی میں کم پڑ جاتا ہے، ہم ایسے گرم مزاج لوگوں کے لئے بڑھتی ہوئی گرمی امید کی کرن ہے۔ بھلے وقت کی اُمید رکھیں لیکن حفاظتی تدابیر اور تیاری دینی فریضہ سمجھ کر مکمل رکھیں۔ دین کو دنیا کے مقابلے میں کھڑا نہ کریں۔ دین انسانوں کی دنیا کو ایک عافیت کدہ بنانے کی تعلیم بھی دیتا ہے۔

ڈاکٹر اظہر وحید
Latest posts by ڈاکٹر اظہر وحید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments