کورونا وائرس اور بلوچستان کے عوام


اچھی خاصی زندگی چل رہی تھی، لوگ سیاسی، علاقائی اور بین الاقوامی حالات پر تبصرے کر رہے تھے، ہر جگہ محفلیں ہی محفلیں تھیں، سکول، مدرسے، جامعات، ریسٹورنٹس اور کھیل کے میدان آباد تھے کہ اچانک چائنا میں ”نول کورونا“ وائرس وجود میں آیا، جس کو پہلے دنوں میں لوگ صرف چین تک محدود یا صرف چین کا مرض سمجھتے تھے، لیکن جو یہ سوچ رہے تھے کہ یہ چائنا کا مرض ہے اب خود کورونا سے زیادہ ذہنی مریض بن چکے ہیں۔

کورونا نے بڑی تیزی کے ساتھ باقی ممالک کا رخ کرنا شروع کر دیا جس نے اب تک دو سو 200 سے زائد ممالک میں لاکھوں لوگوں کو متاثر کر دیا ہے اور ہزاروں افراد اس وبا کے باعث لقمہ اجل بن چکے ہیں۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کسی حد تک کمی تو آئی ہے مگر مکمل علاج اور میڈیسن تاحال موجود نہیں۔ خیر! دنیا امید پر قائم ہے سائنسدان اور ڈاکٹرز علاج ڈھونڈنے میں مصروف ہیں۔

اس وائرس نے جن ممالک میں زیادہ تباہی مچائی وہیں ان ممالک نے سب سے بہترین اور وبا کے مزید پھیلنے کی روک تھام کے لئے ”لاک ڈان“ لاگو کرنے کا انتخاب کیا جو کئی معنوں میں کار آمد ثابت ہوا ہے۔ لاک ڈان میں بازار، مارکیٹیں اور کاروباری مراکز کے ساتھ کئی سرکاری و غیر سرکاری ادارے بند کیے جاتے ہیں۔ یعنی ضرورت کے علاوہ باقی پورا شہر یا ملک بند ہوتاہے۔

پاکستان میں جب کورونا وائرس کی انٹری ہوئی تو عوام کے ساتھ حکومت بھی پریشان تھی پہلے دنوں میں جب ہزاروں کی تعداد میں ایران سے زائرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا تو حکومت بلوچستان نے اپنے بس کے مطابق اقدامات کیے جو بالکل کار آمد ثابت نہیں ہوئے، اور پھر حکومت نے اگلا قدم صوبے میں لاک ڈان کرنے کا اٹھایا جس کو عوام نے نہ چاہتے ہوئے بھی مان لیا۔ بلوچستان بھر کے تعلیمی ادارے بند، کاروباری مراکز بند، بین الصوبائی ٹرانسپورٹ پر پابندی اور دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کردی گئی ہے۔

ماہرین اور حتیٰ کہ علماء کے مطابق کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے سوشل ڈیسٹینسنگ یا سماجی دوری بہترین عمل ہے، عوام کو اپنے گھروں تک محدود رہنے کا کہا گیا ہے تاکہ مرض ایک دوسرے میں منتقل نہ ہوسکے۔

بلوچستان میں لوگوں نے سوشل ڈسٹینسنگ کے بجائے مل ملاپ (سوشل گیدرینگ) اب بھی اختیار کر رکھی ہے، کوئٹہ شہر بظاہر تو سنسان لگ رہا ہے مگر شہر کے اطراف میں واقع پہاڑ، گاؤں، پکنک پوائنٹس اور کھیل کے میدانوں میں عام دنوں کے مطابق لوگوں کا ہجوم ہوتا ہے جہان بھی جائیں وہاں آپ کو لوگ کورونا کو ڈسکس کرتے دکھائی دیں گے لیکن پھر بھی احتیاط نہیں کرتے ہیں۔ ژوب اور دیگر علاقوں میں بالکل عید جیسا سماں ہوتا ہے۔

پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ یہاں زیادہ تر لوگ اب بھی شش و پنج میں ہیں کہ کورونا وائرس کا وجود ہے بھی یا نہیں! کچھ تو اس وائرس کو محض ایک افواہ یا سازش سمجھتے ہیں۔ جب بھی کسی سے کورونا کے متعلق بات چیت ہوتی ہے تو کہتے ہیں یہ مسلمانوں پر اثر نہیں کرسکتا ہے اس سے صرف کافر متاثر ہو سکتے ہیں۔ ہم پر اللہ مہربان ہے!

ملک بھر کی طرح بلوچستان میں بھی وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد جس طرح دنیا کے تمام سائنسدان اور ڈاکٹرز اس وبا سے نجات کا علاج اور دوا ڈھونڈ رہے ہیں مختلف تجربات کرنے میں دن رات لگے ہوئے ہیں تاکہ پوری انسانیت کی اس وبا سے جان چھڑا سکیں۔ اس طرح معاشرے کے ہر فرد کا حق ہے کہ کورونا کو سیریس لیا جائے اور ماہرین کے بتائے گئے احکامات پر عمل پیرا ہوں تاکہ ہمارے ساتھ ہمارا خاندان اور ہمسائے بھی متاثر نہ ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments