ایسا لگ رہا ہے


ایسا لگ رہا ہے کہ دنیا ایک انجانے قوّت کے حامل مصور کے آرٹ بورڈ پر لگی ہوئی کاغذ ہے۔ مصّور نے سوچ سمجھ کر شروعات ہی سے پنسل کا استعمال جاری رکھا ہوا ہے۔ کیونکہ معلوم تاریخ کے پہلے دن سے لے کر آج تک تغیُّر، وبائیں، آفات اور ہزاروں سال کا ارتقائی عمل اِس بات پر گواہی دیتے ہیں کہ پنسل اور ربڑ کا استعمال کئی بار ہوا ہے۔ ہزاروں سال کا ارتقائی عمل ہمیں یہ اشارہ بھی دے رہا ہے کہ کاغذ پر کچھ نقوش ایسے بھی سامنے آچکے ہیں جو خودبخود پوری کی پوری تصویر کو ایک لمحے میں تبدیل کراسکتے ہیں۔

اب معلوم تاریخ نے یہ بھی آشکار کردیا ہے کہ آرٹ بورڈ کے کاغذ پر نقشہ بار بار مصور کے ہاتھوں تبدیل ہوتا چلا آرہا ہے۔ اِس سال کے آغاز پر بھی یقیناً مصور کو کچھ نہ کچھ تبدیل کرنے کی ضرور سوجھی ہوگی ورنہ کیوں یہاں کے باسی ایک لاشعوری خوف کے مارے گلے ملنے سے بھی کانپ رہے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایسا بالکل نہ ہو بلکہ بات یہ ہو کہ فطرت انتقام لینے پر اُتر آئی ہو۔

اب اگر فطرت انتقام لے گی تو واقعی یہاں کے باسیوں کو بھاری ہی پڑے گا کیونکہ جو چیزیں ہم فطرت سے ندارد کرنے والے ہیں انھی پر فطرت کے بقاء کا انحصار ہے۔ یا شاید وہ نقوش حرکت میں آگئے ہیں جو ارتقائی عمل کے پیداوار ہیں۔ اب جو بھی ہے لیکن ایک وباء انسانیت پر مسلط ہے جو کئی زندگیوں کو نگل چکی ہے اور بھوک ابھی بھی برقرار ہے اور تب تک برقرار رہنے کا غالب امکان ہے جب تک سائنس اس وباء کو مسلط کرنے والے وائرس کے خلاف فتح یابی کا اعلان نہ کر دے۔

یہ بات شاید ہر ذی شعور انسان کے ذہن میں ہوگی کہ اکیسوی صدی کی دنیا ایک گلوبل ویلیج ہے۔ شاید یہ وباء اکیسوی صدی کے عام انسان کو اِس بات سے روشناس کرانے آئی ہے کہ زندگی مقدس ہے، چاہے وہ سائیبیریا میں رہنے والے بندے کی ہو یا کشمیر میں سانس لینے والے بندے کی۔ اب اِس صدی کا تقاضا یہ ہے کہ عصرِ حاضر کے دوڑ میں صرف وہی لوگ حصہ لے سکیں گے جن کے ذہن پر انسان کے بنائے گئے پردے نہ ہوں۔

یہ دعوی بڑے حد تک درست ہے۔ کیونکہ وباء کے بعد بہت بڑے بڑے پردے اُٹھنے والے ہیں۔ وباء کو لگام سائنس نے ہی ڈالنی ہے، تو امید ہے کہ عام انسان خود ساختہ مذہبی تشریحات اور مذہب کے اصل روح میں فرق جاننے کا اہل ہوجائے گا۔ عام ادمی یہ بات آخرکار تسلیم کر ہی لے گا کہ بہ وقت ضرورت دوا کی اہمیت دعا سے زیادہ ہوتی ہے اور یہی توکل بھی ہے۔ یہ بات بھی روز روشن کیطرح عیاں ہونے والی ہے کہ اگر عبادت گاہوں میں جانے سے کسی کی زندگی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو نہ جانا ہی عبادت ہے۔ یہ تمام ایسی باتیں ہیں جو اگر کسی نے اِس وباء سے پہلے کی ہوتیں تو یقیناً وہ واجب القتل گردانا جاتا۔

کوئی بھی اگر انسان کو کسی بھی نام پر دھوکے میں رکھنا چاہے تو وہ اُس نام کو انسان کے لئے اتنا مقدس بنا دے گا کہ اس کے خول سے باہر سوچنے میں بھی انسان کو گناہ اور ندامت کا احساس ہوگا۔ اب یہاں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرا لیجیے کہ اگر سوچ کی سطح پر مخصوص دائرے کی قید کسی بھی نظرئے کے ساتھ منسلک ہو تو وہ حقیقت میں دھوکہ ہے۔ عالمی سیاسی نظام نے جتنے بھی پردے ذہن پر ڈال رکھیں ہیں سب کے سب اُٹھیں گے۔ جب ذہن تمام پردوں سے آزاد ہوکر سوچے گا تو یقیناً وہ مان لے گا کہ سوچ کو مخصوص دائرے کی قید میں رکھ کر اکیسویں صدی میں ہم رینگ تو سکتے ہیں لیکن دوڑ نہیں سکتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments