ضیا، مودی اور نرکھ سے چٹھی


تاریخ دانوں کے مطابق کثرت پرستی (Polytheism) ایک ایسا مذہب ہے جس کے ماننے والے مذہب کے معاملے میں پرتشدد لوگ نہیں رہے۔ اس کی ایک بہترین مثال سلطنت روم کی ہے۔ وہاں کے لوگ کثرت پرست تھے اور بیک وقت کئی خداؤں کی عبادت کرتے تھے۔ جب عیسائیت مذہب کی ابتدا ء ہوئی تو رومیوں کو اس کے ایک ہی خدا کو اپنانے میں دشواری اس لئے بھی پیش آئی کہ عیسائیت کا خدا باقی تمام خداؤں کی عبادت سے منع کرتا تھا اس کے باوجود تین صدیوں میں جب بھی قتل عام ہوا تو مرنے والے عیسائیوں کی کل تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ اس سے زیادہ لوگ تو عیسائی فرقہ وارانہ جھگڑوں میں مارے گئے۔ پھر جب رومی شہنشاہ کانسٹنٹائن اعظم نے عیسائیت مذہب قبول کیا تو رفتہ رفتہ بیشتر رومی لوگ توحید پرست ہو گئے۔

بیسیویں صدی کے وسط میں آزاد ہونے والے ملک بھارت میں لوگوں کی بڑی تعداد کثرت پرست ہونے کے باوجود اقلیتوں کے خلاف ان کا نفرت اور غصہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کی وہ تمام لوگ جو خود کو ہندو کہتے ہیں وہ سبھی نفرت کے بیوپاری ہیں۔ بلکہ بات یہ ہے کہ وہ لوگ جو اس وقت طاقت میں ہیں، جیسا کہ آر۔ ایس۔ ایس، وہ نفرت کی سیاست میں بری طرح لتھڑے ہوئے ہیں۔ بابری مسجد سے لے کر گجرات کے فسادات تک اور نریندر مودی کی وزارت عظمی کے بعد سے ہونے والے اقدامات سے لے کر آسام میں لاکھوں مسلمانوں کی شہریت کے تنازعے تک افسوسناک واقعات کی بھرمار ہے۔ ”گائے کی خبرداری“ کے بریگیڈ ملک بھر میں مستعد ہیں اور جسے چاہیں پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ انہیں کوئی سزا نہیں ملے گی کیونکہ مودی سرکار اس طرح کے تشدد کی سرپرستی کرتی ہے۔

بہت سے ہندوستانی بھی اب یہ بات محسوس کرتے ہیں کہ بی۔ جے۔ پی کی حکومت میں اقلیتوں کے خلاف واقعات میں اضافہ ہوا ہے جو کہ تشویشناک ہے۔ تشدد کا نشانہ بننے والوں میں صرف مسلمان ہی شامل نہیں بلکہ دلت اور عیسائی بھی شامل ہیں۔ انٹرنیشنل این جی اوز نے ہندوستانی حکومت کو چند سفارشات پیش کی ہیں جن پر اگر عمل کیا جائے تو اقلیتوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں کمی ہو سکتی ہے۔

٭حکومت ایسے واقعات کی عوامی سطح پر مذمت کرے اور ان میں ملوث افراد اور سرکاری افسران کے خلاف کارروائی کرے۔

٭ متاثرین کے ورثا ء کو قانونی مدد، ہر طرح کی سپورٹ اور تحفظ فراہم کیا جائے۔
٭مذہب کے خود ساختہ ٹھیکیداروں (گائے کی خبرداری بریگیڈ وغیرہ) کے خلاف ایکشن لیا جائے۔
٭Prevention of communal violence bill ( 2013 ) پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔
٭آئین میں موجودبنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
٭تشدد اور ہراسمنٹ کے واقعات پر خصوصی توجہ دی جائے۔

دوسری طرف پاکستان کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ نفرت اور تشدد کی جو فصل گیارہ برس تک بوئی گئی اور بعد میں جس طرح اس کی دیکھ ریکھ کی گئی اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اقلیت تو درکنار اکثریت بھی محفوظ نہیں۔ مودی بھارت کے ضیاء ثابت ہوئے ہیں۔

تاریخ دانوں کے مطابق کثرت پرستی (Polytheism) ایک ایسا مذہب ہے جس کے ماننے والے مذہب کو لے کرپر تشدد لوگ نہیں رہے۔ تاہم اب تاریخ دانوں کو اپنی رائے بدلنا ہو گی۔

میرے دل کی ترجمان فہمیدہ ریاض صاحبہ کی یہ نظم ملاحظہ کیجئے۔
تم بالکل ہم جیسے نکلے
اب تک کہاں چھپے تھے بھائی
وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن
جس میں ہم نے صدی گنوائی
آخر پہنچی دوار تمہارے
ارے بدھائی بہت بدھائی

پریت بھرم کا ناچ رہا ہے
قائم ہندو راج کرو گے
سارے الٹے کاج کرو گے
اپنا چمن تاراج کرو گے

تم بھی بیٹھے کرو گے سوچا
پوری ہے ویسی تیاری
کون ہے ہندو کون نہیں ہے
تم بھی کرو گے فتوے جاری
ہوگا کٹھن یہاں بھی جینا
دانتوں آجائے گا پسینہ

جیسی تیسی کٹا کرے گی
یہاں بھی سب کی سانس گھٹے گی
کل دکھ سے سوچا کرتے تھے
سو چ کے بہت ہنسی آج آئی
تم بالکل ہم جیسے نکلے

ہم دو قوم نہیں تھے بھائی
بھاڑ میں جائے شکشا وکشا
اب جاہل بن کے گن گانا
آگے گڑھا یہ مت دیکھو
واپس لاؤ گیا زمانہ
مشق کرو تم آجائے گا
الٹے پاؤں چلتے جانا
دھیان نہ من میں دوجا آئے
بس پیچھے ہی نظر جمانا
ایک جاپ سا کرتے جانا
بارم بار یہی دوہراؤ

کیسا ویر مہان تھا بھارت
کتنا عالیشان تھا بھارت
پھر تم لوگ پہنچ جاؤ گے
بس پر لوک پہنچ جاؤ گے
ہم تو ہیں پہلے سے وہاں پر
تم بھی سمے نکالتے رہنا
اب جس نرکھ میں جاؤ وہاں سے
چٹھی وٹھی ڈالتے رہنا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments