کرونا وائرس اور نا اہل حکمران


ایک طرف کرونا وائرس کی وبا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے اور پروڈکشن سے لے کر ہر قسم کام دھندہ بند پڑا ہے تو دوسری طرف حکمرانوں کی نا اہلیت اور ترجیحات کو بھی ایکسپوز کردیا ہے۔ امریکہ سمیت جہاں بھی ہیلتھ سسٹم پرائیویٹ ہے وہاں کرونا وائرس سے تباہی اور بربادی زیادہ ہوگی اور عوام خستہ حال ہوں گے۔ جو ریاست عوام کو تعلیم، کھانا اور میڈیسن نہیں دے سکتی اسے کوئی حق نہیں کہ توپیں، میزائل اور فوج کے اخراجات پر عوام کے ٹیکس کے پیسے خرچ کرے۔

کرونا وائرس وبا سے پہلے ملٹی نیشن کمپنیز کا واراکانومی کے ذریعے دنیا پر راج تھا اسٹبلشمنٹ کے ذریعے حکمرانی کرنے والوں نے حکومتوں پر ٹرمپ، بورس جانسن، مودی اور عمران جیسے مزاحیہ لوگوں کو عوام پر مسلط کیے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک کے درمیان سرد، گرم جنگیں جاری ہیں۔ ہر طاقتور ملک دوسری ملک کے خلاف پراکسی جنگیں لڑ رہی ہیں اور یہ مقابلہ اور خونریزی جاری تھی کہ اسی اثنا کرونا وبا نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا کیا طاقتور کیا کمزور سب ہی اس کے لپیٹ میں ہیں۔ پوری دنیا کی مارکیٹیں، انڈسٹریز اور ریاستی کام ٹھپ ہوگیا۔ کاروبار اور طاقت کی جنگوں کی باتیں اور ترجیحات یک دم بدل گئی اور سب کے سب کرونا کی طرف متوجہ ہوگئے۔

اب بھی وقت ہے کہ دنیا ایٹم بم، جنگی طیاروں اور میزائل بنانے اور خریدنے کی بجائے اب عوام کی صحت، تعلیم اور روزگار پرسرمایہ لگائے۔ عوام کے ٹیکس عوام پر لگائے دوسرے ملکوں کو فتح کرنے کے خواب چھوڑ کر اپنے ملک کے عوام کی بنیادی ضرورتیں پوری کرے۔ ملٹی نیشن کارپوریشن کو بھی ٹیکس کی شرح بڑھا کر عوام کی بنیادی ضرورتوں، ترقی اور پرامن معاشرے قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ کرونا کی وبا نے ثابت کردیا کہ عوام ہوں گے مارکیٹ کھلیں گے تو ان کا مال بکے گا۔

پاکستان کو بھی سیکیورٹی پرسپشن پر ملک چلانے کی ضد چھوڑنی ہوگی اور بجٹ کا زیادہ حصہ عوام کی صحت، تعلیم روزگار کے لئے مختص کرنا ہوگا۔ کیونکہ کرونا کی وبا نے ثابت کردیا کہ ایٹم بم، جنگی طیاروں اور میزائلوں سے زیادہ صحت، تعلیم، روزگار اور ٹیکنالوجی ہی عوام اور ملکوں کی سلامتی کی ضامن ہوسکتی ہے۔

اگر اس کے باوجود بھی حکمران بضد رہے کہ ہم سیکیورٹی پرسپشن پر ہی ملک کو چلائیں گے تو وہ وقت دور نہیں کہ اس وبا کے بعد کوئی ایسے وبا آ سکتی ہے جس سے غریب عوام کے ساتھ حکمران بھی متاثر ہوسکتے ہیں۔ مہذب معاشروں کے امن کے لئے مذہبی ہم آہنگی کی بھی انتہائی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر کسی کو اپنے عقیدے اور مذہب سے اگر لگاؤ ہے تو انھیں دوسروں کے مذہب اور عقیدے کا بھی احترام کرنا ہوگا۔ نفرت، انتہاپسندی اور دہشت گردی کو ختم کرنا ہوگا اور برداشت، بردباری اور ہم آہنگی کا کا کلچر بنانا ہوگا۔

کیونکہ کرونا کی وبا نے ثابت کردیا کہ اس سے کوئی مسجد، مرکز، گردوارہ، چرچ اور درمسال بچ نہ پایا۔ مذاہب کے ماننے والوں کو اپنی عبادت تک محدود کرنا ہوگا اور تحقیق، علاج اور ترقی کے لئے سائنسدانوں، محقیقین، دانشور اور فلسفیوں کو آگے کرنا ہوگا جو ان کا کام ہے۔ پسماندگی سوچ، پرسپشن کو ختم کرنا ہوگا۔

کرونا کی وبا نے تمام دنیا کے بڑے بڑے سرمایہ دار اور نیشنل سیکیورٹی ریاستوں کو ایکسپوز کیا ہے جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ملکوں کی سیکیورٹی ایٹم بم، جنگی سازو سامان، میزائل اور فوجج سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لئے عوام کی سوشل سیکیورٹی کی طرف جانا ناگزیر ہوچکا ہے تعلیم، صحت، روزگار بڑھاپے کی پنشن اور چھت جب ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے تو عوام ریاست کی ترقی کے لئے بہترانداز میں کام کرسکتے ہیں۔

یہ بات نہیں کہ یہ سب کچھ حکمران کر نہیں سکتے لیکن حکمرانوں کی ترجیحات میں عوام کے بنیادی حقوق کی فراہمی شامل نہیں اور اس لئے حکمران عوام کو مشغل و مصروف رکھنے کے لئے میڈیا اور نصاب کے ذریعے مذہی منافرت، کرپشن کرپشن، جنگی جنون کا شور مچاتے ہیں۔ عوام کو بھی اپنی سوچ بدلنی ہوگی اور ذاتی مفاد کے لئے کسی بھی کرپٹ، منافرت پھیلانے والا اور عوام کے حقوق غصب کرنے والوں کو سپورٹ کرنے کی بجائے خود میں سے ہی سپورٹ اور حوصلہ افزائی کے ذریعے اہل قیادت بنانی ہوگی۔

کرونا کا علاج دوائی ہے جو فی الحال موجود نہیں ہے اس لئے احتیاط ہی اس کا علاج ہے۔ لیکن احتیاط کے ساتھ ساتھ محنت کشوں کی روزی روٹی کا مسئلہ بھی لاک ڈاؤن سے پیدا ہوا ہے جس کو حل کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس وبا میں بھی حکومت عام عوام کو ریلیف دینے کی بجائے اپنے دم چلوں اور ذاتی ورکروں کی لسٹیں بنا رہی ہیں جو نہایت غلط عمل ہے اس کو روکنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments