پاکستان فلم کی عہد ساز شخصیت: گیت نگار تنویر نقوی



برِ صغیر کے نامور گیت نگار تنویر ؔ نقوی کے فلمی گیت پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے ہی عوام میں بے حد مقبول ہو گئے تھے۔ ”دنیائے ادب و فلم میں تنویر ؔنقوی کا نام ایک معتبر، صاحب ِکمال و جمال اور مستند فطری شاعر کے طور پر زندہ و تابندہ و پائندہ ہے۔ سید خورشید علی نقوی پورا نام، تنویرؔ تخلص کے ساتھ تنویر ؔ نقوی مختصر سے دو لفظی ادبی نام کے ساتھ ایک طویل مدت تک فلمی اور ادبی دنیا میں اپنے نام اور کام کے سبب نمایاں رہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “۔ یہ الفاظ معروف اہلِ قلم و شاعر ناصرؔ زیدی کے ہیں۔

واحد شاعر جنہوں نے دوبارہ ہندوستان جا کر پہلی والی شہرت، توقیر اور پیسا کمایا۔ جن کا کہنا تھا: ”فلم میں اُردو ادب کی ترویج کا سب سے موثر ذریعہ گیت ہو سکتے ہیں“۔
سید خورشید علی المعروف تنویر ؔ نقوی
( 6 فروری 1919 سے یکم نومبر 1972 )

حبیب جالب ؔ اپنی کتاب ’جالبؔ بیتی‘ میں صفحہ نمبر 331 پر لکھتے ہیں : ”اردو گیت کو حفیظؔ جالندھری نے شہرت دی اور رائج کیا ہے۔ اس حوالے سے حفیظؔ جالندھری کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اُن کے بعد گیت نگاری میں تنویر ؔنقوی نے بھی بڑا نام کمایا۔ تنویرؔ نقوی ایک ایسا شاعر تھا جیسے وہ فلم کے گیت لکھنے کے لئے ہی پیدا ہوا تھا۔ وہ فارسی دان تھا۔ غزل بھی لکھتا تھا۔ اُس کے کئی گیتوں میں فارسی تر کیبیں ہیں۔ تنویر ؔنقوی ان تھک لکھنے والا آدمی تھا۔ اکثر وہ ہم سے باتیں کر رہا ہوتا اور گانا بھی سوچتا جاتا۔ اس کے گیتوں میں لفظ سیدھے سادے ہیں۔ سامنے کے لفظوں کو وہ ایسا پروتا کہ بہت ہی خوبصورت گیت بن جاتا۔ نہایت شریف النفس اور مخلص دوست تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تنویرؔ نقوی کے ہاں بمبئی میں سب لوگ جا کر رہتے تھے۔ علاؤالدین، طالش اور دوسرے۔ تنویرؔ نقوی گانے لکھ کر کماتا اور لوگ اس کے ڈیرے پر پڑے رہتے تھے۔ وہ خدمت گزار آدمی تھا۔ اپنے دوستوں کی خدمت کرتا رہا ”۔

ملک کے معروف شاعر اور اہلِ قلم ناصرؔ زیدی لکھتے ہیں:
”تنویرؔ نقوی نے اپنا تعلیمی سفر میر پور مِیرَس اور لاہور کے مکتب و مدرسہ میں مکمل کیا۔ وہ فارسی اور اُردو زبان پر عبور رکھتے تھے۔ فارسی تو ان کے آباء اجداد کی ز بان تھی اور یہ بات طے ہے کہ اُردو میں کماحقہُ دسترس کے لئے فارسی جاننا از حد ضروری ہے۔ اِن کو دونوں زبانوں اور شعر و ادب پر لڑکپن ہی سے دسترس تھی، چنانچہ انہوں نے محض پندرہ برس کی عمر سے شاعری شروع کر دی۔ شروع شروع میں زیادہ تر نظم گوئی کو اختیار کیے رکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُن کا پہلا مجموعہ“ سنہری سپنے ”کے نام سے چھپا۔ اِس مجموعے میں ’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘ نمایاں تھے“۔

میری تحقیق کے مطابق تنویر ؔنقوی جب 21 سال کی عمر کو پہنچے تو 1940 میں اُن کا مجموعہ کلام ”سنہری سپنے“ شائع ہوا۔ اِس کتاب کے شائع ہونے کا بھی ایک دل چسپ قصہ ہے جو میرز ا ادیب ( 1914 سے 1999 ) کی زبانی سکے دار کی کتاب ’دل کا دیا جلایا‘ کے صفحہ نمبر 31 سے 37 پر محیط ہے۔ لکھتے ہیں:
”میری تنویرؔ نقوی سے ملاقات اُس کے گھر میں بہت کم ہوئی۔ میں اسے آواز دیتا تھا، وہ کھڑکی میں سے جھانک کر کہتا“ جناب آیا ”ہم دونوں ایک ویران مسجد میں چلے جاتے۔ درخت کے نیچے ٹوٹے پھوٹے فرش کے اوپرہم بیٹھ جاتے۔ ہماری گفتگو ادب کے بارے میں ہوتی۔ جس میں تنویرؔ بہت دلچسپی لیتا۔ گفتگو ماہنامہ ادبِ لطیف کے بارے میں ہوتی جو اس کے گھر میں بڑے شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ فلموں کے سلسلے میں ہوتی جِن کی کہانیاں میں لکھنا چاہتا تھا۔

اور اِن کہانیوں کو فلم کمپنیوں تک پہنچانے کے لئے صرف تنویرؔ کی اپنی ذات ہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک مرتبہ تنویرؔ نے سات شعروں کی ایک غزل سُنا ڈالی۔ “ غزل کہنے والے سیکڑوں نہیں، ہزاروں ہیں۔ اُردو میں گیت لکھنے والوں کی بڑی کمی ہے۔ گیتوں کی طرف توجہ کیجئی۔ ۔ ”۔ میرے مونہہ سے بیساختہ نکلا۔ تنویر ؔ نے دوسرے تیسرے دن ہی ایک گیت سنا دیا: ’من کی بات کہی نہ جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ تنویرؔ نے گیت لکھنے شروع کر دیے۔ اس کے پاس فارسی الفاظ کا وافر ذخیرہ تھا۔

والد فارسی کے بہت بڑے عالم فاضل تھے، بھائی کو فارسی ادبیات سے گہری محبت، گھر کے ماحول پر فارسی شاعری کا اثر، مگر گیت کے لئے تو ہندی الفاظ کی ضرورت ہے۔ میں نے مشورہ دیا کہ کسی ہندی جاننے والے سے ہندی پڑھو۔ اُس نے وعدہ بھی کر لیا، مگر اس پر عمل کبھی نہیں کیا۔ یہ اُس کی ذ ہانت تھی کہ اُس نے سنے سنائے الفاظ پر ہی بھروسا کیا اور ہندی پڑھنے پر کبھی توجہ نہ کی! ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُس زمانے میں اِن کے بڑے بھائی سید مراتب علی سے بھی ملنا ملانا ہو گیا تھا۔ یہی مراتب علی ہیں جو بعد میں نوا ؔ نقوی کے نام سے ادبی اور فلمی دنیا میں مشہور ہوئے اور خود ایک افسانہ بن گئے اور دنیا کو ایک افسانہ دے کر رخصت ہو گئے“۔

”نواؔ نقوی کو بھائی کے گیتوں سے بڑی دل چسپی تھی۔ تنویر ؔ کاغذ کے پرزوں پر لکھتا اور نواؔ بہت خوبصورتی سے ایک کاپی پر نقل کر لیتے تھے۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر نوا ؔنقوی، تنویرؔ کے گیتوں کو محفوظ نہ کرتے تو یہ قصہ کبھی نہ لکھا جاتا جو میں لکھنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تنویر ؔکے کچھ گیت ’ادبِ لطیف‘ میں چھپے اور بڑے مقبول ہوئے تھے۔ ان گیتوں کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تھی۔ ایک روز تنویرؔ اور نواؔ کے والد صاحب سے ملاقات ہوئی۔

کہنے لگے : ’خورشید نے کافی گیت لکھ لئے ہیں۔ اب انہیں کتابی صورت میں چھپوائیے‘ ۔ میں نے جواباً کہا کوشش کریں گے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لاہوری دروازے کے اندر نرائن دت سہگل اینڈ سنز تاجرانِ کتب، ایک بڑا پرانا اشاعتی ادارہ تھا۔ میں نے نرائن دت سہگل کے لڑکے برج سہگل سے تنویر ؔکے گیتوں کے بارے میں گفتگو کی اُس نے کہا لالہ جی سے پوچھ کر جواب دوں گا۔ پتہ نہیں ہم نے یہ نتیجہ کیوں اخذ کر لیا تھا کہ یہ گیت چھپ جائیں گے۔ نواؔ نقوی بازار سے نئی کاپی لے آئے۔ سارے گیت اس میں نقل کیے گئے۔ مجھ سے فرمائش کی گئی کہ اس کا دیباچہ لکھ دوں۔ میں دیباچہ لکھنے لگا۔ کتاب کا نام ’سنہری سپنے‘ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مجھے معلوم نہیں میں نے تجویز کیا تھا یا نوا ؔ نے بہرحال کتاب کا نام سنہری سپنے منظور ہو گیا“۔

” اپنے زمانے کے مشہور عہد ساز فلمساز و ہدایتکار اے آر کاردار ( 1904 سے 1989 ) نے یہ مجموعہء کلام پڑھا تو تنویرؔ نقوی کو لاہور سے نقل مکانی کر کے بمبئی آنے کی دعوت دے ڈالی اور انہیں اپنی نئی فلم ’نئی دنیا‘ کے لئے گانے لکھنے کا کام سونپا۔ اِس فلم کے موسیقار نوشاد علی تھے۔ فلم ’نئی دنیا‘ کے بعد فلمساز و ہدایتکار نذیر نے فلم ’لیلیٰ مجنوں‘ کے لئے گانے لکھوائے۔ پھر تو چل سو چل تنویرؔ نقوی نے فلم ’چھیڑ چھاڑ‘ ، ’یادگار‘ ، ’سوامی‘ ، ’وامق عذر ا‘ ، ’راجہ رانی‘ اور ’انمول گھڑی‘ کے گیت لکھے جو بہت مقبول ہوئے ”۔

نومبر 1946 میں بننے والی ہدایت کار محبوب کی فلم ”انمول گھڑی“ نے اُن کی شہرت میں اضافہ کیا۔ اِس فلم کے گیت:
”آواز دے کہاں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “، ”آ جا میری برباد محبت کے سہارے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “، ”جواں ہے محبت حسین ہے زمانہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ بے انتہا مقبول ہوئے۔ نوشاد علی مذکورہ فلم کے موسیقار تھے۔

اِس کے بعد 23 مئی 1947 کو نمائش کے لئے پیش ہونے والی ہدایت کار سید شوکت حسین رضوی کی فلم ”جگنو“ کے گیت مقبول ہوئے۔ مثلاً فیروز نظامی کی موسیقی، نورجہاں اور محمد رفیع کی آواز میں یہ دوگانا : ’‘ یہاں بدلا وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”۔

ناصرؔ زیدی مزید لکھتے ہیں: ”بمبئی کے قیام کے دوران تنویر ؔنقوی نے اداکارہ مایا دیوی سے شادی کی جو ناکام رہی۔ دوسری شادی ملکہء ترنم نورجہاں کی بڑی بہن عیدن سے کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ شادی بھی بالآخر طلاق پر اختتام پذیر ہوئی۔ یوں انتہائی وجیہ و شکیل، خوش لباس، خوش اطوار سید زادے، جواں فکر شاعر کی ازدواجی زندگی میں کانٹے بکھرتے رہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ناکامیوں کے سبب تنویرؔ نقوی کی شاعری میں دردو غم اتنے جمع ہوئے کہ بقول میرؔ : ’دردو غم کتنے جمع کیے تو دیوان کیا‘۔

مگر یہ دردوغم، یہ سوز و الم ان کا اپنا تھا۔ اسے انہوں نے با لارادہ کائناتی نہیں بنایا اور لازوال گیت تخلیق کرتے رہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آزادی کے بعد یہ پاکستان آ گئے اور یہاں اُردو اور پنجابی فلموں کے گیت تخلیق کیے۔ پاکستان میں بننے والی پہلی فلم“ تیری یاد ”کی گیت نگار ی میں قتیلؔ شفائی کے ساتھ اِن کا بھی نام آتا ہے۔ افسوس ہے کہ یہ فلم کہیں بھی دستیاب نہیں نہ اِس کے گراموفون ریکارڈ ہی کہ یہ علم ہو سکے کہ کون سے گیت کِس نے لکھے۔ بمبئی سے پاکستان آنے کے بعد یہ لاہور کے نگار خانوں کے لئے ہمہ تن مصروف ِ عمل ر ہے اور بہت سی فلموں کے لئے ہِٹ گیت لکھے جن میں ’آغوش‘ ( 1953 ) ، ’جبرو‘ ( 1956 ) ، ’کوئل‘ ( 1959 ) ، ’جھومر‘ ( 1959 ) ، ’ایاز‘ ( 1960 ) ، ’گھونگھٹ‘ ( 1962 ) ، ’ چنگاری‘ ( 1964 ) جیسی یادگار فلمیں شامل تھیں ”۔

جب ملکہء ترنم نور جہاں نے اداکاری ترک کر کے صرف پسِ پردہ گلوکاری پر توجہ مرکوز کی تو پلے بیک سنگر کے طور پر پہلی فلم ’۔ سلمیٰ‘ ( 1960 ) میں رشید عطرے کی موسیقی میں تنویرؔ نقوی کا لکھا ہوا یہ نغمہ گایا جس کا سریلا پن آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتا ہے : ’زندگی ہے یا کسی کا انتظار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ۔

تنویرؔ نقوی کے گیتوں میں ایسا جادو تھا کہ بھارتی ہدایتکار آصف کریم المعروف کے آصف (1922 سے 1971) نے انہیں اپنی نئی فلم ”مغلِ اعظم“ کے گیت لکھنے کے لئے بھارت آنے کی دعوت دی۔ نامور اداکار، فلمساز اور ہدایتکار نذیر احمد خان، آصف کریم کے بہنوئی تھے۔ آصف کریم اپنے بہنوئی نذیر احمد کے ساتھ بمبئی آئے اور اپنا نام بدل کر ’کے آصف‘ ہو گئے۔

بھارتی فلم ”مغلِ اعظم“ ( 1960 ) اِن کی مشہور ترین فلم ہے۔ انہوں نے تین شادیاں کیں : پہلی اداکارہ نگار سلطانہ، دوسری کتھک رقص کی ماہر سِتارہ دیوی اور تیسری نامور اداکارمحمد یوسف خان المعروف دلیپ کمار کی ہمشیرہ سے۔

اُس وقت پاک و ہند کے درمیان سفر مشکل نہیں تھا۔ تنویرؔ نقوی نے دعوت قبول کی اور بھارت جانے کی تیاری شروع کر دی۔ مشہور فلم نویس، مکالمہ نگار، اسکرین پلے رائٹر، وقت پڑنے پر نغمہ نگار، منفرد اداکار اور تنویرؔ نقوی کے دوست ’سکے دار‘ جو ہر جگہ اُن کے ساتھ جاتے تھے، اپنی کتاب ”دل کا دیا جلایا“ کے صفحہ نمبر 265 میں لکھتے ہیں:
”پاکستان میں شاہ صاحب کو اپنی زیرِ تکمیل فلموں کے گیت مکمل کرنے میں زیادہ وقت لگ جانے کی وجہ سے کے آصف نے دوعدد گانے شکیلؔ بدایونی سے لکھوا ئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہمارے جانے پر کے آصف نے اپنی فلم کی کہانی کی مناسبت سے 2 جگہوں پر شاہ جی کو گیت لکھنے کا کہہ دیا۔ گیت لکھنے کے دوران شاہ جی کو علم ہوا کہ ”مغلِ اعظم“ کے کچھ گیتوں کی ریکارڈنگ ہو چکی ہے۔ یہ سن کر شاہ جی نے اپنے لکھے ہوئے گیت انہیں سنا تو دیے مگر ریکارڈ کرنے کی اجازت نہ دی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُن کے اصرار پر بھی یہ گیت اُن کو نہ دیے ”۔ یہی گیت بعد میں انہوں نے فلمساز و ہدایتکار ’اِسپی ایرانی‘ کی فلم“ شیریں فرہاد ” ( 1956 ) کو دے دیا:

گزرا ہوا زمانہ
آتا نہیں دوبارہ
حافظ خدا تمہارا
لتا منگیشکر کی آواز اور مُہندَر سنگھ سَرنا کی موسیقی میں یہ گیت پاک و ہند میں بے حدمقبول ہوا۔ یہ گیت ریڈیو سیلون، آل انڈیا ریڈیو اور ریڈیو پاکستان سے تقر یباً دِن کے بڑے حصے مسلسل ہوا کی لہروں پر برِ صغیر پاک و ہند میں موجود رہتا۔

مذکورہ واقعہ کے بارے میں علی سفیان آفاقیؔ صاحب نے خاکسار کو تفصیل سے بتایا: ”اس کا علم ہوتے ہی کہ فلم ’مُغلِ اعظم‘ کے دو گیت تو ریکارڈ بھی ہو چکے، تنویرؔ نقوی جلال میں آ گئے اور انہوں نے کے آصف اور موسیقار نوشاد علی کے لئے آئندہ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ نیز انہوں نے کہا کہ اب وہ بھارت میں ہی رہ کر انہیں بتائیں گے کہ وہ کیا کیا کر سکتے ہیں۔ پھر ایسا ہی ہوا اور تنویرؔ نقوی بھارتی فلمی صنعت پر چھا گئے ”۔

یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ فلم ”مغلِ اعظم“ پر کے آصف 1944 سے کام کر رہے تھے۔ جب 50 کی دہائی میں صدا بندی اور عکس بندی کا کام شروع ہوا تو فنانسر پیچھے ہٹ گیا۔ پھر غیر یقینی کی وجہ سے تقریباً تمام کاسٹ بدلنا پڑی۔ یہ وجہ تھی کہ کہیں جا کریہ فلم 1960 میں نمائش کے لئے پیش ہوئی۔

پا ک و ہند کے واحد شاعرجنہوں نے دوبارہ بھارت جا کر پہلی والی شہرت حاصل کی میری تحقیق کے مطابق تنویرؔ نقوی پا ک و ہند کے وہ واحد شاعر ہیں جنہوں نے دوبارہ بھارت جا کر ایک دفعہ پھر آزادی سے پہلی والی شہرت، توقیر اور پیسہ کمایا۔ بمبئی میں اداکارہ نرگس نے اپنے ایک گھر کواِن کے لئے مختص کر دیا۔ یہ بھی بہت دلچسپ کہانی ہے۔ سِکّہ دار ا پنی کتاب کے صفحہ نمبر 266 میں یوں بیان کرتے ہیں:
’‘اُنہیں دنوں اداکارہ نرگس دَت کے بھائی اختر حسین اپنی ذاتی فلم بنا رہے تھے۔ اتفاق سے اُن کے پاس اندھیر ی کے علاقے میں ایک بنگلہ خالی پڑا تھاہر مہینے اُن کی فلم کے لئے ایک گیت دینے کے عوض سودا طے ہو گیا۔ اور ہم اُس جگہ منتقل ہو گئے۔ وہ جگہ بہت اُجاڑ تھی تھوڑے فاصلہ پر جو دوسرے مکان تھے اُن میں جرائم پیشہ لوگوں کی رہائش تھی۔ غیر قانونی دھندے دن کے اجالے میں ہوا کرتے تھے۔ قریب ہی ساحلِ سمندر پر مچھلی کا کاروبار کیا جاتاتھا۔

مچھلی کے بیوپاری اسی جگہ پر مچھلیاں خشک کرتے تھے۔ بنگلے میں مچھلی کی بو رچی بسی ہوئی تھی۔ بنگلے کے احاطے میں جنگلی سؤر آزادی سے گھومتے پھرتے تھے۔ پتھریلی جگہ پر ایک کنواں تھا جس سے پانی نکالنے کے لئے ڈالڈا بناسپتی کے ڈبے سے رسی بندھی ہوئی تھی۔ نہانے دھونے اور پینے کا پانی اسی کنویں سے حاصل کیا جاتا۔ باہر سے یہ بنگلہ کسی جادوگرنی کا ٹھکانا معلوم ہوتا تھا۔ عام لوگ اسے بھوت بنگلے کے نام سے پکارتے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہستہ آہستہ بھوت بنگلہ شاہ جی کے جان پہچان والوں کی آماج گاہ بن گیا۔ شاہ جی کی دوست نوازی کی وجہ سے ایکسٹرا اداکاروں سے لے کر ڈائریکٹر کی حیثیت تک کے لوگ بھوت بنگلے میں آنے جانے لگے۔ جن کا کثرت سے آنا جانا تھا اُن میں مصنف و ہدایتکار ضیا سرحدی، گیت نگار ساحرؔ لدھیانوی، گلوکار محمد رفیع، افسانہ نگار کرشن چندر، طبلہ نواز استاد اللہ رکھا اور موسیقار خیام پیش پیش تھے ”۔ (اُستاد اللہ رکھا، پاکستانی ٹیلیوژن اور فلم کی فنکارہ روحی بانو اور بھارت میں طبلے کے موجودہ اُستاد ذاکر حسین کے والد ہیں)۔

کچھ ہی دنوں میں شاہ جی نے اپنی بیگم عیدن کو بھی لاہور سے بلوا لیا۔ فلمی دنیا کی مشہور شخصیت علی سفیان آفاقیؔ نے خاکسار کو بتایا:
” اللہ نے تنویرؔ نقوی کو چھپر پھاڑ کر دینا شروع کر دیا لیکن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گھریلو وجوہ کی بنا پر یہ دوبارہ اپنے بنے بنائے مقام کو چھوڑ کر پاکستان واپس آ گئے حالاں کہ اُس وقت بھارت میں انہیں ایک گیت کے جتنے پیسے ملتے تھے، پاکستان آ کر اتنے پیسے انہیں 6 ماہ میں کہیں جا کر ملتے۔

اسی بات کوسکے دار اپنی کتاب میں یوں لکھتے ہیں : ”۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اندازِ بیان کے نرالے پن اور محنتِ شاقہ پر ایمان کی قوت نے تیسری مرتبہ شاہ جی کو اُسی ممتاز مقام پر لا کھڑا کیا، جس پر وہ مشترکہ ہندوستان اور پھر پاکستان میں فائز رہ چکے تھے۔ ادھر نور جہاں نے مستقل پاکستان رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ بھابھی عیدن سے نور جہاں کواتنا پیار تھا کہ ان کے بغیر رہنا مشکل تھا۔ بھابھی عیدن بھی ان کے قریب رہنے کو ہر چیز پر ترجیح دیا کرتی تھیں۔۔ ۔ ۔ ۔ جبکہ شاہ جی اس دفعہ پاکستان آنے کے لئے دل سے رضا مند نہ تھے اور نہ ہی بمبئی فلمی صنعت کا کوئی فرد یہ چاہتا تھا۔ اَس لئے اُن لوگوں نے ہر طرح سے کوشش کی مگر بھابھی عیدن کی محبت اور نورجہاں کے اندازِ گفتگو کا جادو شاہ جی کو یہاں کھینچ لایا“۔

سکے دار کی کتاب ’دل کا دیا جلایا‘ کے صفحہ نمبر 13 پر درج ہے : ”تنویرؔ نقوی عجیب افسانوی شخصیت تھے۔ نہایت دلکش، بے حد دل پذیر، لہجے میں انکساری، باتوں میں مہکار۔ تنویرؔ نقوی بے حد بے قرار اور بے چین طبیعت کے مالک تھے۔ انہیں سیلانی یا من موجی کا لقب دے کر بھی اُن کے مزاج کا احاطہ نہیں ہو سکتا۔ پسند بھی اچھی سیرت بھی بے داغ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لباس سادہ اور ہمیشہ سفید ہی ہوتا تھا“۔

فلم ”شیریں فرہاد“ میں طلعت محمود کی آواز میں اِن کا لکھا ایک اورگیت تھا:
دو ہی لفظوں کا تھا فسانہ جو سنا کر خاموش ہو بیٹھے
ابتدا یہ کہ تم کو پایا تھا انتہا یہ کہ خود کو کھو بیٹھے
یہ شعر، نورجہاں کی وجہ سے تنویر نقوی اور اِن کی بیگم عیدن کے درمیان جو مسائل پیدا ہوئے ان کی عکاسی کرتا ہے۔ اس وقت میڈم نورجہاں کی بڑی بہن عیدن تنویر ؔ نقوی صاحب کے نکاح میں تھیں۔ جب اتنے سال تنویرؔنقوی اور عیدن ساتھ رہے تو پھر ایسا کیا ہوا؟ اِس پر ’دل کا دیا جلایا‘ کے صفحہ نمبر 242 پر سکے دار لکھتے ہیں:
”یہ غلط ہے کہ شاہ جی اور عیدن میں اکثر جھگڑا ہوتا رہتا تھایا وہ ایک دوسرے کو پسند نہیں کیا کرتے تھے۔ شاہ جی اور بھابھی عیدن کی رفاقت میں گزرنے والے 14 سال اتنے خوشیوں بھرے تھے کہ پلک جھپکتے گزر گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بھابھی عیدن سیدھی سادی بھولی بھالی اور ہنس مکھ خاتون تھی“۔

خاکسار نے تنویر ؔنقوی اور عیدن کی علاحدگی اور طلاق میں عیدن کی چھوٹی بہن نورجہاں کے کردار کے بارے میں کئی فلمی شخصیات سے سنا اور جناب علی سفیان آفاقیؔ سے گفتگو کی۔ میری رائے کے مطابق تنویر ؔنقوی کی عیدن سے طلاق کے پس منظر میں خود نور جہاں اور سید شوکت حسین رضوی کی طلاق اور اداکار اعجاز درانی ہیں۔

اسی بات کو سکے دار اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 269 پر لکھتے ہیں:
” اعجاز درانی صاحب نئے نئے فلمی دنیا میں وارد ہوئے تھے۔ تب وہ شیخ اقبال صاحب کی پنجابی فلم ’سچے موتی‘ میں بطور ہیرو کام کر رہے تھے۔ اس فلم میں مجھے بھی کاسٹ کیا گیا تھا۔ ایک روز میں اس فلم کی شوٹنگ کے بعد گھر آیا تو بھابھی عیدن اور نور جہاں وہاں موجود تھیں۔ شوٹنگ کا ذکر ہوا تو دونوں بہنوں نے مجھ سے اعجاز صاحب کے بارے میں پوچھا۔ مجھے فوراً اندازہ ہو گیا کہ نور جہاں اعجاز میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نور جہاں کو سید شوکت حسین رضوی سے طلاق حاصل کرنے اور اعجاز صاحب سے شادی کرنے کی غرض سے بھابھی عیدن سے صلاح مشورہ کے ساتھ ساتھ مدد کی بھی ضرورت تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ عیدن زیادہ وقت اُن کے ساتھ گزاریں جب کہ عیدن کا زیادہ عرصہ گھر سے باہر رہنا شاہ جی کو پسند نہیں تھا“۔

” نور جہاں نے خدا جانے شاہ جی سے کیا کہا کہ شاہ جی نے سادہ کاغذ پر عیدن کے لئے طلاق نامہ لکھ کر نیچے دستخط کر دیے۔ نور جہاں نے وہ کاغذ عیدن کو دکھا کر شاہ جی کے خلاف بھڑکادیا اور عیدن شاہ جی کی نسبت نورجہاں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے لگی۔ اور شاہ جی کا اپنے رشتہ داروں سے پہلے کی نسبت زیادہ میل جول ہو گیا۔ شوکت حسین صاحب سے طلاق حاصل کرنے اور اعجاز صاحب سے شادی کرنے کے بعد نورجہاں نے دوبارہ بھابھی عیدن اور تنویرؔ ؔنقوی میں صلح کرا دی مگر صلح ہو جانے کے باوجود پہلے والی بات نہ رہی۔ شاہ جی کھوئے کھوئے سے رہنے لگے ”۔ اِس کے کچھ عرصے کے بعد تنویرؔ نقوی نے ایک سید زادی سے شادی کر کے اپنا گھر بسایا جِن سے اُن کی اولادیں ہوئیں۔

سکے دار لکھتے ہیں :۔ ”پاکستان آ کر شاہ جی نے نئے سرے سے گیت نگاری کا آغاز کیا۔ گیت نگاری کا یہ چوتھا اور آخری دور فلمی نغمات کا سنہرا دور تھا۔ شاہ جی کے اِس عہد کی تکمیل کا دور جِس کے لئے انہوں نے اپنی تمام تر توجہ گیت نگاری کی طرف مبذول کی تھی اور کہا تھا کہ فلم میں اُردو ادب کی ترویج کا سب سے موثر ذریعہ گیت ہو سکتے ہیں“۔

اور پھر ہوا بھی یہی۔ اُن کی دن رات کی محنت نے کہی ہوئی بات کو سچ ثابت کر دکھایا اور فلم ا ور ادب کی تفریق ختم ہو گئی۔ علی سردار جعفری، کیفیؔ اعظمی، مجروح ؔسلطان پوری، جاں نثار اختر، ساحرؔ لدھیانوی، خُمارؔ بارہ بنکوی، بہزادؔ لکھنوی، اختر الا یمان، نخشب ؔچارچوی، فیاضؔ ہاشمی، جوش ؔملیح آبادی (صرف فلم ”آگ کا دریا“ 1966 ) قتیلؔ شفائی، منیرؔ نیازی، سیف الدین سیفؔ، حبیب جالب اور فیض احمد فیضؔ جیسے نامور شعراء کی آمد سے گیت کی فلمی اور ادبی تفریق یکسر ختم ہو گئی اور مکالمہ نگاری میں بھی ادب کا لحاظ رکھا جانے لگا۔

سکے دار کی کتاب ”دل کا دیا جلایا“ میں مذکور ہے کہ بھارت کی 1954 میں بننے والی فلم ”براتی“ میں موسیقار روشن کی موسیقی میں اپنے لکھے ہوئے گیت ”کس نام سے پکاروں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ کو تنویرؔ نقوی نے دوبارہ پاکستانی فلم ”غرناطہ“ ( 1971 ) میں اے حمید کی موسیقی میں نورجہاں کے لئے لکھا۔ اِسی طرح 1955 میں بھارت میں بننے والی فلم ”رُخسانہ“ میں آشا بھونسلے کی آواز میں سجاد حسین کی موسیقی میں یہ گیت ”تمہیں ہم یاد کرتے ہیں۔۔ ۔ ۔ ۔ “ بھی شاہ صاحب نے لکھا۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ کے آصف کے بلانے پر جب بھارت گئے تو وہاں تین سے چار سال قیام کیا۔ اور واقعی وہاں اپنا سکہ خود جما لیا۔ دوبارہ پاکستان آمد پر بھی اُن کی پذیرائی ہوئی۔

1958 میں بننے والی انور کمال پاشاصاحب کی فلم ”انار کلی“ سے انہیں بامِ عروج ملا۔ ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں نورجہاں کی آواز میں تنویرؔ نقوی کا یہ گیت : ”کہاں تک سنو گے کہاں تک سناؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ بے انتہا مقبول ہوا۔ اگلے ہی سال نمائش کے لئے پیش ہونے والی فلم ”کوئل“ کے گیتوں نے تو دھومیں مچا دیں۔ اس کے موسیقار خواجہ خو رشید انور تھے۔ مذکورہ فلم کے تمام ہی گیت مقبول ہوئے جیسے : ”دل کا دیا جلایا میں نے دل کا دل کا دیا جلایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “، ”اؤ بے وفا میں نے تجھ سے پیار کیوں کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “،

” رِم جھِم رِم جھِم پڑے پھوار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “، ”ساگر روئے لہریں شور مچائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “، ”تیرے بنا سونی سونی لاگے رے چاندنی رات۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “، ”مہکی فضائیں گاتی ہوائیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “۔

تنویر ؔ ؔنقوی نے حضرت شیخ سعدیؒ کی مشورِ عالم نعت:
بلغ العلی بکمالہ
حسنت جمیع خصالہ
کی تضمین کر کے اور اس پر اپنے مصرِع لگا کر خواجہ خورشید انور کی طرز پر زبیدہ خانم اور ساتھیوں کی آواز میں 1960 میں بننے والی ہدایت کار لقمان کی فلم ”ایاز“ میں لا زوال بنا دیا:

جو نہ ہوتا تیرا جمال ہی
یہ جہاں تھا خواب و خیال ہی
صلو علیہ و آ لہ
ایک اہم بات تنویر ؔنقوی کے حوالے سے یہ ہے کہ اُنہوں نے پہلی بار دَف پر فلم ”نورِ اسلام ’‘ (1957 ) میں نعت لکھی“:

شاہِ مدینہ شاہِ مدینہ
یثرب کے والی
سارے نبی تیرے در کے سوالی
خاکسار کو انٹرنیٹ پر مذکورہ نعت کے لکھنے والے کا نام ہدایتکار، اداکار اور صداکار نعیم ہاشمی بھی ملا۔ میں نے یہ معاملہ اپنے پاکستان ٹیلی وژن کے ساتھی اور اہلِ قلم افتخار مجازؔ ( م) کے سامنے رکھا تھا تو انہوں نے اپنے بڑے بھائی اعزاز احمد آزؔر ( م) کی کتاب کا حوالہ دیا۔ الحمد پبلی کیشنز لاہور سے چھپی ہوئی اُن کی کتاب ’کلیاتِ تنویرؔ نقوی‘ میں نے خود پڑھی۔ آزر ؔصاحب کا کہنا ہے کہ انہوں نے تنویر ؔنقوی کے لواحقین سے اُن کی ڈائریاں لے کر اِن کے قلم سے لکھی ہوئی نعت ’شاہِ مدینہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ خود دیکھی۔

مشہور اہلِ قلم جناب ناصرؔ زیدی کا کہنا ہے: ”تنویرؔ نقوی کی شاعری صرف فلمی شاعری نہ تھی بلکہ تخلیقی شاعری تھی۔ اگر اسے فلم سے الگ کر کے پڑھا اورچھاپا جائے تو ادبی رنگ میں بھر پور رنگی نظر آتی ہے“۔

جناب اعزاز احمد آزرؔ اپنی کتاب ”کلیاتِ تنویر نقوی“ کے صفحہ 21 پر لکھتے ہیں: ”اصولی طور پر تنویر ؔنقوی صاحب کی گیت نگاری ڈاکٹریٹ کے کسی تحقیقی مقالے کی مستحق ہے اور یہ کام، آنے والے کسی وقت کا کوئی محقق یا ریسرچ اسکالر ضرور کرے گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھا جائے تو تنویر ؔنقوی کی گیت نگاری بر صغیر کے بے شمار گیت نگاروں کی موجودگی کے باوجود الگ اور منفرد دکھائی دیتی ہے۔ ان کا اپنا ایک اسلوب اور انگ ہے اور ان کے گیتوں کے اندر لہریں لیتا اور موجیں مارتا ردھم اور جادو اثر غنایت تنویرؔ صاحب کے حوالے سے ہی خاص ہے“۔

’ ہم سب‘ کے پڑھنے والوں کے لئے ایک زبردست خبر ہے کہ آزرؔ (م) کی بات سچ ثابت ہو گئی۔ ایک صاحب نے کچھ اس سے ملتا جلتا کام کر کے اپنا نام پاکستانی فلمی گیت نگاری پرایم فِل اور ڈاکٹریٹ کرنے والے اول فرد کی حیثیت سے رقم کروا لیا۔ اِس کی تفصیل ان شا اللہ بہت جلد باقاعدہ تحریر اور اُن سے بات چیت کی صورت میں پیش کی جائے گی۔

تنویرؔ نقوی نے پنجابی فلموں کے لئے بھی مقبول گیت لکھے۔ اُن کے پاکستانی پنجابی فلموں گیتوں کی تعریف تو اُن شعرا نے بھی کی جو کسی دوسرے کی تعریف میں ہمیشہ بخل سے کام لیتے تھے۔ ان میں باکمال نغمہ نگار احمد ؔراہی بھی شامل تھے۔ جب النصر فلمز کی جانب سے ہدایتکار خواجہ سرفراز اور فلمساز امین چودھری کی ہِٹ فلم ”اَت خدا دا وَیر“ ( 1970 ) کے لئے تنویر نقوی نے یہ گیت لکھا:

”جدوں ہولی جئی لیندا میرا ناں میں تھاں مر جانیاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ تو احمدؔ راہی نے تنویرؔ نقوی پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسا دیے۔

احد پروڈکشنز کی جانب سے ہدایتکار فیاض شیخ اور فلمساز بیگم احد ملک کی فلم ”دنیا پیسے دی“ ( 1971 ) میں ماسٹر عبد اللہ کی موسیقی میں نورجہاں اور مہدی حسن کا یہ دوگانا بے انتہا مقبول ہوا: ’چل چلئے دنیا دی اُوس نُکرے، جِتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہوووے، ہر دن ہووے ساڈا عید ورگا ہر رات ساڈی شب برات ہووے‘ ۔

بی اے فلمز کی جانب سے مصنف سکے دار، ہدایتکار خادِم محی الدین اور فلمساز بی اے ملک کی پنجابی فلم ”لائی لَگ“ ( 1964 ) کا عروسی گیت : ”چُنی کیسری تے گوٹے دیاں دھاریاں، رُتاں میلاں دیاں آیاں تینوں دَین ودھائیاں، سیاں ساریاں“۔ اسے ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں مالا، ناہید نیازی، نجمہ نیازی، آئیرین پروین اور ساتھیوں کی آوازوں میں صدابند کروایا تھا۔ اپنی زمانے کا ریڈیو پاکستان کا یہ مقبول ترین گیت تھا۔ اب بھی شادی بیاہ کے موقع پر سننے میں آتا ہے۔

نورانی پکچرز کی جانب سے ہدیتکار وحید ڈار اور فلمساز طارق مسعود قریشی کی پنجابی فلم ”ماں پُتر“ ( 1970 ) میں بابا جی اے چشتی کی موسیقی میں نورجہاں کی آواز میں تنویرؔ نقوی صاحب کا یہ گیت: ’‘ اَج خوشیاں دے نال مینوں چڑھ گئے نے حال، میرا بھخدا اے رَنگ تِکھے ہو گئے نے ساہ ’‘ سُپر ہِٹ تھا۔ یہ گیت اداکارہ فرِدوس پر فِلمایا گیا تھا۔ اِس فلم میں معاون ہدایتکار حسن عسکری صاحب اور معاون کیمر مین مسعود بَٹ صاحب تھے۔ کراچی میں یہ دوسری پلاٹینم جوبلی فلم تھی۔ پاکستان فلم میگزین کے مطابق یہ فلم کراچی میں 75 ہفتے چلی۔ مین سنیما ’جوبلی‘ تھا۔

ساؤنڈز اینڈ شیڈز پروڈکشنز کی جانب سے فلمساز رشید عطرے اور ہدایتکار قدیر غوری کی سلور جوبلی فلم ”موسیقار“ ( 1962 ) میں خود رشید عطرے کی موسیقی میں نورجہاں کی آواز میں یہ گیت ریکارڈ توڑ مقبولیت حاصل کر گیا۔ اس کا سحر آج بھی طاری ہے:

گائے گی دنیا گیت میرے
سریلے رنگ میں
نرالے رنگ میں
بھرے ہیں ارمانوں میں
پی ایس جے پِکچرز کی جانب سے فلمساز مسعود خان اور ہدایتکار ایس اے بُخاری کی گولڈن جوبلی فلم ”آنسو“ ( 1971 ) میں موسیقار نذیر علی کو موسیقی میں مہدی حسن کی آواز میں یہ گیت سدا بہار ہے : ”جانِ جاں تو جو کہے گاؤں میں گیت نئے، ا ور پھر چاہیے کیا سامنے تو جو رہے“۔

اے ایم آئی پروڈکشنز کی جانب سے فلمساز اصغر علی اور ہدایتکار لُقمان کی سلور جوبلی فلم ”افسانہ“ ( 1970 ) میں موسیقار ناشاد کی موسیقی میں مجیب عالم کی آواز میں یہ گیت مقبول تھا: ’‘ یوں کھو گئے تیرے پیار میں ہم اب ہوش میں آنا مشکل ہے، کل آنکھ مِلانا مُشکل تھا اب آنکھ بچانا مشکل ہے ”۔

ایور نیو پکچرز کی جانب سے فلمساز آغا جی اے گل اور ہدایتکار منشی دل کی سلور جوبلی فلم ”عذرا“ ( 1962 ) میں ماسٹر عنایت حسین کی موسیقی میں سلیم رضا کا لازوال گیت: ”جانِ بہاراں رشکِ چمن غنچہ دہن سیمیں بدن اے جانِ من“ آج بھی اُسی ذوق و شوق سے موسیقی کی محفلوں میں گایا جاتا ہے۔ یہ فلم میں اداکار اعجاز پر فلمایا گیا تھا۔

پروگریسیو پکچرز کی جانب سے ہدایتکار مسعود پرویز اور فلمساز مسعود پرویز اور جمال بٹ کی سلور جوبلی فلم ”کوئل“ ( 1959 ) کے سب ہی گانے مقبول تھے : ”دل کا دیا جلایا میں نے دل کا دیاجلایا“ آواز نورجہاں، ’‘ ہو دل جلا نہ دل والے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”آواز زبیدہ خانم، “ مہکی فضائیں گاتی ہوائیں بہکے نظارے سارے کے سارے تیرے لئے ہیں ”آواز نورجہاں، ’‘ او بے وفا میں نے تجھ سے پیار کیوں کیا ’‘ آواز نورجہاں، ’‘ رِم جھِم رِم جھِم پڑے پھوار تیرا میرا نِت کا پیار ’‘ یہ فلم میں دو مرتبہ ہے۔ ایک نورجہاں اور منیر حسین اور دوسرا ناہید اور نجمہ نیازی کی آوازوں میں، ’‘ ساگر روئے لہریں شور مچائیں یاد پیا کی آئے نیناں بھَر آئیں’‘ ، ‘ تیرے بِنا سونی سونی لاگے رے چاندنی رات ”۔

ستمبر 1965 کی پاک بھارت جنگ میں انہوں نے محاذِجنگ پر جا کر یہ مشہور گیت لکھا جس کے موسیقار دو سگے بھائی، سلیم حسین اور اقبال حسین المعروف سلیم اقبال تھے اور یہ گیت ریڈیو پاکستان لاہور میں نورجہاں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا : ”رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “۔ 1965 کی پاک بھارت جنگ میں تنویر نقوی نے اپنے قلم کو تلوار بنا لیا اور ایسے ملی اور قومی نغمے لکھ کر دیے جو امر ہو گئے۔ انہوں نے خود محاذِ جنگ پر جا کر اپنے لکھے ہوئے ترانے سنا کر سپاہیوں کا حوصلہ بڑھایا۔

تنویرؔ نقوی کے چند مشہور فلمی گیتوں کاذکر کر نا بھی ضروری ہے :
’‘ چلی رے چلی رے چلی رے میں تو دیس پیا کے چلی رے ”فلم ’جھومر‘ ( 1959 ) موسیقی خواجہ خورشید انور، آواز ناہید نیازی،

” زندگی ہے یا کسی کا انتظار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ فلم ’سلمیٰ‘ ( 1960 ) موسیقی رشید عطرے، آواز نورجہاں، ”زندگی میں ایک پل بھی چین آئے نا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ فلم ’ہمسفر‘ ( 1960 ) موسیقی مصلح الدین، یہ گیت سلیم رضا اور ناہید نیازی کی آواز میں الگ الگ ریکارڈ ہوا، ”تم جُگ جُگ جیو مہاراج رے ہم تیری نگریا میں آئے“ فلم ’موسیقار‘ ( 1961 ) موسیقی رشید عطرے، آواز نورجہاں، ”دل کی دھڑکن تیری آواز ہوئی جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ فلم ’فرشتہ‘ ( 1961 ) موسیقی رشید عطرے، آواز نورجہاں، ”کبھی تم بھی ہم سے تھے آشنا تمہیں یاد ہو کہ نہ یادہو۔۔ ۔ ۔ ۔ “ فلم ’گھونگھٹ‘ ( 1962 ) موسیقی خواجہ خورشید انور، آواز نورجہاں، ”جانِ بہاراں رشکِ چمن۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ فلم ’عذرا‘ ( 1962 ) موسیقی ماسٹر عنایت حسین، آواز سلیم رضا، ”بڑی مشکل سے ہوا تیرا میرا ساتھ پیا ’‘ فلم ’لاکھوں میں ایک‘ ( 1967 ) موسیقی نثار بزمی، آواز نورجہاں، ۔ “ اے دل تیری آہوں میں اثر ہے کہ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”فلم ’تاج محل‘ ( 1968 ) موسیقی نثار بزمی، آواز مہدی حسن، “ اج خوشیاں دے نال مینوں چڑھ گئے نے حال۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”فلم ’ماں پتر‘ ( 1970 ) ، موسیقی جی اے چشتی، آواز نورجہاں، ”چل چلئے دنیا دی اوس نکرے جتھے بندہ نہ بندے دی ذات ہووے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ فلم ’دنیا پیسے دی‘ ( 1971 ) موسیقی ماسٹر عبداللہ، آوازیں مہدی حسن اور نورجہاں۔

تنویر ؔنقوی کو 3 مرتبہ بہترین گیت نگار کا ”نگار ایوارڈ“ ملا:
پہلا فلم ”کوئل“ ( 1959 ) میں گیت: ”دل کا دیا جلایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
دوسرا فلم ”شام ڈھلے“ ( 1960 ) گیت: ”مُرلی بجائے جا گیت سنائے جا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
اور تیسرا فلم ”دوستی ’‘ ( 1971 ) گیت:“ چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”۔
احمد ندیم قاسمی تنویر ؔنقوی کے بارے میں لکھتے ہیں: ”حضرت تنویر ؔنقوی کو اگر فلمی اداروں میں اپنی زندگی کا روشن ترین حصہ نہ صرف کرنا پڑتا تو وہ آج ہمارے ادب میں ایک خاص رو مانی رنگ کے مسلّم شاعر مانے جاتے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن جناب تنویرؔ کی ہمت قابلِ ستائش ہے کہ و ہ اس مصنوعی ماحول میں بھی اپنے ذہن کو تصنع اور دکھاوے کے پردوں سے پوری طرح محفوظ رکھ سکے۔ اور اُس خلوصِ بیاں اور سادگی زبان کو ہاتھ سے نہ جانے دیا جو اُن کی شاعری کی جان ہیں۔

مترنم الفاظ کے ذریعے نازک احساسات کی تصویر کشی کر نے کے ساتھ ساتھ تنویرؔ کی زندگی کا ایک اور پہلو غم ہے۔ وہ بہت کم مسکراتے اور بہت زیادہ روتے ہیں۔ شاید اس گریہ پیہم کی کوئی بنیادی وجہ اُن کی زندگی کے کسی ایسے پہلو سے وابستہ ہو جو بہت کم لوگوں پر ظاہر ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اِن کا گریہ مصنوعی نہیں بے اختیار ہے۔ تنویر ؔکا اندازِ بیان بالکل ہلکا پھلکا ہے۔ وہ کبھی زندگی اور موت کے اسرار کی طرف بھی متوجہ ہوتے ہیں، خدا کے انصاف پر بھی انگشت نمائی کرتے ہیں، ماحول کی سنگینی کا بھی شکوہ کرتے ہیں لیکن ان کی محبت ان سب فروعات پر حاوی ہے اور محبت کے تجزیے کے لئے جن حسین اور گاتے ہوئے الفاظ کی ضرورت ہے اُن سے تنویر کا ذہن لبریز ہے ”۔

ناصرؔ زیدی لکھتے ہیں ”بہت سے ادبی، فلمی، گیتوں کے خالق تنویرؔنقوی نے یکم نومبر 1972 کو اِس جہانِ فانی سے عالمِ جاودانی کی طرف کوچ کیا۔ وہ کچھ عرصہ فالج کے حملے کے سبب بستر پر دراز رہے اور اسی صاحبِ فراشی میں چل بسے۔ تنویر ؔنقوی مشہورِ زمانہ قدیم قبرستان میانی صاحب لاہور میں احاطہ سادات فقیر خانہ میں سپردِ خاک کیے گئے۔ ان کی قبر پر کتبہ موجود ہے مگر امتدادِ زمانہ مدہم ہو چکا ہے۔ وائے افسوس مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے“۔

تنویرؔ نقوی کے بارے میں ایک نشست میں کچھ کہہ دینا ممکن نہیں۔ ان شا اللہ آیندہ کسی وقت اِن کے صاحب زادے شہباز تنویر کے ساتھ بات چیت پیش کی جائے گی۔ تنویر ؔنقوی آج بھی ہمارے درمیان اپنے گیتوں کی صورت میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ اِن کی مغفرت کرے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments